130

مکتوب 95: کفر حقیقی و اسلام حقیقی کے سوال کے جواب میں


مکتوب 95

کفر حقیقی و اسلام حقیقی کے سوال کے جواب میں مقصود علی تبریزی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔


بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفى اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔ آپ کا صحیفہ شریفہ پہنچا۔ جس میں صوفیاء کی بعض باتوں کی نسبت استفسار درج تھا۔


میرے مخدوم ! وقت و مکان اگر چه گفت و نوشت کا تقاضا نہیں کرتا لیکن سوال کا جواب دینا
ضروری ہے۔ اس لیے چند کلمے لکھے جاتے ہیں۔ ان تمام سوالوں کے حق میں مجمل کلام یہ ہے کہ جس طرح شریعت میں کفر و اسلام ہے۔ طریقت میں بھی کفر و اسلام ہے۔ جس طرح شریعت میں کفر سراسر شرارت و نقص ہے اور اسلام سراسر کمال ہے۔ طریقت میں بھی کف سراسر ناقص ہے اور اسلام سراسر کمال ہے ۔ کفر طریقت مقام جمع سے مراد ہے۔ جو استار یعنی پوشیدہ ہونے کا محل ہے۔ اس مقام میں حق و باطل کی تمیز مفقود ہوتی ہے، کیونکہ اس مقام میں سالک کا مشہودا اچھے دہرے آئینوں میں وحدت محبوب کا جمال ہوتا ہے۔ پس خیر وشر نقص و کمال کو اس وحدت کے ظلال اور مظاہر کے سوا نہیں پاتا۔ اس لیے انکار کی نظر جو تمیز ے پیدا ہوتی ہے اس کے حق میں معدوم ہے جس کے باعث سب کے ساتھ مقام صلح میں ہے اور سب کو راہ راست پر معلوم کرتا ہے اور اس آیت کے مضمون کے مطابق گیت گاتا ہے ۔ ومـا مـن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ اخِذْ بَنَا صِيَتِهَا إِنَّ رَبِّي عَلَى صِرَاطٍ مُستَقِيمٍ ( کوئی جانور روئے زمین پر چلنے والا نہیں ہے۔ جس کو اس نے پیشانی سے پکڑا ہوا نہیں۔ بیشک میرا رب سیدھے راستہ پر ہے ) بھی مظہر کو عین ظاہر جان کر خلق کو عین حق خیال کرتا ہے اور مربوب کو عین رب جانتا ہے۔ اس قسم کے سب پھول مرتبہ ہی سے کھلتے ہیں ۔ منصور اسی مقام میں کہتا ہے۔

كفَرْتُ بَدِينِ اللَّهِ وَالْكُفْرُ وَاحِبْ
لَدَى وَعِندَ الْمُسْلِمِين قَبيح

ترجمہ ہوا کا فر میں دین حق سے مجھ کو کفر بہتر ہے
اگر چہ سب مسلمانوں کے ہاں وہ کفر بد تر ہے

یه کفر طریقت کفر شریعت کے ساتھ بڑی مناسبت رکھتا ہے، لیکن شریعت کا کافر مردود اور عذاب کا مستحق ہے اور کا فر طریقت مقبول اور اعلیٰ درجات کے لائق ہے، کیونکہ یہ کفر و استار محبوب حقیقی کے غلبہ محبت سے پیدا ہوا ہے۔ جس کے باعث محبوب حقیقی کے سوا سب کچھ فراموش ہو جاتا ہے۔ اس لیے مقبول ہے اور وہ کفر چونکہ تمرد یعنی سرکشی اور جہل کے غلبہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے مردود ہے اور اسلام طریقت مقام فرق بعد المجمع سے مراد ہے جو تمیز کا مقام ہے جہاں حق باطل سے اور خیر شرے متمیز ہے۔ اس اسلام طریقت کو اسلام شریعت کے ساتھ بڑی مناسبت ہے۔ جب اسلام شریعت کمال تک پہنچ جاتا ہے تو اس اسلام طریقت کے ساتھ اتحاد کی نسبت پیدا ہو جاتی ہے۔ بلکہ ہر دو اسلام اسلام شریعت ہیں۔ اس کے درمیان فرق ظاہ شریعت اور باطن شریعت اور صورت شریعت اور حقیقت شریعت کا ہے۔ کفر طریقت کا مرتبہ صورت شریعت کے اسلام سے بلند تر ہے۔ اگر چه حقیقت شریعت کے اسلام کی نسبت کمتر ہے۔


آسمان نسبت بعرش آمد فرده
ور نه بس عالی است پیش خاک تود

ترجمہ عرش سے نیچے ہے گرچہ آسماں
ہے بہت اونچاز میں سے اے جواں

مشائخ قدس اسرار ہم سے جنہوں نے شطحیات نکالی ہیں اور مخالف شریعت باتیں کہی ہیں سب کفر طریقت کے تمام میں رہے۔ جو سکر و بے تمیزی کا مقام ہے لیکن وہ بزرگ جو حقیقی اسلام کی دولت سے مشرف ہوئے ہیں۔ اس قسم کی باتوں سے پاک وصاف ہیں اور ظاہر و باطن میں انبیاء عليهم الصلوۃ والسلام کی اقتداء کرتے ہیں اور انہی کے تابع رہتے ہیں ۔ پس جو شخص کلام شطحیات کرتا ہےاور سب کے ساتھ صلح رکھتا ہے اور سب کو راہ راست پر خیال کرتا ہے اور حق وخلق کے درمیان تمیز نہیں کرتا اور دوئی کے جود کا قائل نہیں ہوتا۔

اگر ایسا شخص مقام جمع تک پہنچ چکا ہے اور کفر طریقت ے متحقق ہو چکا ہے اور ماسوی کا نسیان حاصل کر چکا ہے تو وہ مقبول ہے اور اس کی باتیں جو سکر سے پیدا ہیں ، ظاہر کی طرف سے بھری ہوئی ہیں اور اگر وہ شخص اس حال کے حاصل ہونے اور درجہ کمال اول تک پہنچنے کے بغیر اس قسم کی کلام کرتا ہے اور سب کو حق اور صراط مستقیم پر جانتا ہے اور حق و باطل میں تمیز نہیں کرتا ۔ تو ایسا شخص زندیق الملحد ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ شریعت باطل ہو جائے اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام جو رحمت عالمیان میں ان کی دعوت رفع ہو جائے پس اس قسم کے خلاف شریعت کلمات بچے سے بھی صادر ہوتے ہیں اور جھوٹے سے بھی بچے کے لیے آب حیات ہیں اور جھوٹے کے لیے زہر قاتل ۔

جس طرح کہ دریائے نیل کا پانی بنی اسرائیل کے حق میں آپ خوشگوار تھا اور قبطی کے حق میں خون۔ اس مقام پر اکثر سالکوں کے قدم چھل جاتے ہیں۔ بہت سے مسلمان ارباب سکر کی باتوں کی تقلید کر کے راہ راست سے ہٹ کر گمراہی اور خسارہ میں جاپڑے ہیں اور اپنے دین کو برباد کر بیٹھے ہیں۔

یہ نہیں جانتے کہ اس قسم کی باتوں کا قبول ہونا چند شرائط پر مشروط ہے۔ نوار باب سکر میں موجود ہیں اور ان میں مفقود ۔ ان شرائط میں سے اعلیٰ شرط ماسوی اللہ کا نسیان ہے۔ جو اس قبولیت کی دہلیز ہے۔ بچے اور جھوٹے کے درمیان شریعت کی استقامت اور عدم استقامت سے فرق ظاہرہ ہو سکتا ہے یعنی جو سچا ہے وہ باوجود سکر دوستی کے اور بے تمیزی کے بال بھر بھی شریعت کے برخلاف نہیں کرتا ۔ منصور باوجود قول انا الحق کے قید خانہ میں زنجیروں کے ساتھ جکڑا ہوا ہر رات پانچ سو رکعت نماز نفل ادا کرتا تھا اور وہ کھانا جو اس کو ظالموں کے ہاتھ سے ملتا تھا۔ اگر چہ وہ حلال سے ہوتا ہے۔

نہ کھاتا تھا اور جو شخص جھوٹا ہے اس پر احکام شرایہ کا بجالانا کوہ قاف کی طرح بھاری ہوتا ہے۔ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَاتَدْعُوهُمُ إِلَيْهِ ) مشرکوں پردہ امر بہت بھاری ہے ۔ جس کی طرف تو ان کو بلاتا ہے ) ان کے حال کا نشان ہے۔


رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَّ هَيئَ لَنَا مِنْ امْرِنَا رَشَدًا ( یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بہتری ہمارے نصیب کر ) وَالسَّلَامُ عَلَى مَن اتَّبع الهدى سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا