131

مکتوب 94: فناو بقا کی حقیقت اور عارف کی حقیقت وصورت سے عدم کے جدا ہونے اور مجاورت کی نسبت بہم پہنچانے کے بیان میں


مکتوب 94

فناو بقا کی حقیقت اور عارف کی حقیقت وصورت سے عدم کے جدا ہونے اور مجاورت کی نسبت بہم پہنچانے کے بیان میں مولا نا عبد القادر انبالوی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ –

بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ اللَّهِ اب العالمین کے لیے حمد ہے اور حضرت سید المرسلین پر صلوٰۃ وسلام ۔

اس فقیر کے علم میں حقائق ممکنات جیسے کہ بعض مکتوبات میں لکھا جا چکا ہے ۔ ان عدمات سے مراد ہیں ۔ جو ہر شر نقص کا موجب ہیں۔ بمع حق تعالیٰ کے اسماء وصفات کی علمیہ صورتوں کے عکوس
کے جوان عدمات میں ظاہر ہوئے ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ وہ عد مات ہیولی یعنی مادہ کی طرح ہیں اور وہ عکوس صورت کی طرح جو ہیولی میں حلول کیسے ہوئے ہیں۔ عدمات کی تشخیص و تمیز ان عکوس ظاہرہ کے ساتھ ہے اور ان عکوس کا قیام ان عدمات متمیزہ کے ساتھ ہے۔ یہ قیام عرض و جوہر کے قیام کی طرح نہیں ہے بلکہ جس طرح صورت کا قیام ہیوٹی کے ساتھ اور ہیولی کا قیام صورت کے ساتھ ہوتا ہے جیسے کہ حکماء نے کہا ہے۔ جب سالک اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ذکر و مراقبہ کے ساتھ حق تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور دم بدم ماسوی سے منہ پھیرتا جاتا ہے تو حق تعالیٰ کے اسماء وصفات کی علمیہ صورتوں کے عکوس ہر آن میں قوت و غلبہ پاتے جاتے ہیں اور اپنے قرین یعنی ساتھی پر جو عدمات ہیں غالب آتے جاتے ہیں ۔ الا إِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغَالِبُونَ (خبر دار اللہ تعالیٰ کا گروہ غالب ہے) معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ عدمات جو ان عکوس کے لیے اصل و مادہ کی طرح ہیں سب پوشیدہ ہونے لگتے ہیں بلکہ سب کے سب سالک کی نظر سے چھپ جاتے ہیں اور اپنے اصول کے عکوس کے بغیر اس کی نظر میں کچھ نہیں رہتا۔ بلکہ وہ عکوس بھی جو اپنے اصول کے آئینے ہیں۔ نظر سے پوشیدہ ہو جاتے ہیں، کیونکہ اس مقام میں آئینوں کا مخفی ہونا ضروری ہے ۔ یہ مقام مقام فنا ہے اور بہت بلند ہے۔ اگر اس سالک فانی کو بقا بخشیں اور عالم کی طرف واپس لائیں تو اپنے عدم کو باریک پوست کی طرح جو بدن کا محافظ ہے۔ معلوم کرے گا اور نزدیک ہے کہ نہایت بے مناسبتی سے جو اس کو عدم کے ساتھ پیدا ہے۔ اس کی تعبیر پیرا ہن شعر ( بالوں کے باریک کر تہ ) سے کرے اور اپنے آپ سے الگ معلوم کرے لیکن در حقیقت اس مقام میں عدم اس سے الگ نہیں ہوا ۔ بلکہ اس مقام میں انا نیت کا ظن غالب ہے۔ غرض عدم اس مقام میں سالک کی مستور اور مغلوب جزو ہے اور اس اصالت سے جو اس کو حاصل تھی نیچے آ گیا ہے اور ان عکوس کے تابع بلکہ ان کے ساتھ قائم ہوا ہے جو اس کے ساتھ قیام رکھتے تھے ۔ یہ فقیر کئی سال تک اس مقام میں رہا ہے اور اپنے عدم کو پیرا ہن شعر کی طرح اپنے سے جدا معلوم کیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی عنایت بیغایت اس کے شامل حال ہوئی۔ دیکھا کہ وہ جز و مغلوب آپ انحلال یافتہ ترکیب سے جدا ہو گیا ہے اور وہ تشخیص جوان عکوس کے حاصل ہونے سے پیدا کی تھی مفقود کر دی ہے اور گو یا عدم مطلق کے ساتھ ملحق ہو گیا ہے۔ جس طرح کسی صورت کو سانچے پر درست کریں اور اس کو اس سانچے پر قائم رکھیں۔ جب صورت درست اور ثابت اور راسخ ہو جائے تو اس سانچے کو تو ڑ ڈالیں اور اس کے قیام کو سانچے سے دور کر کے اپنے آپ کے ساتھ قائم رکھیں ۔ صورت مذکورہ بالا میں بھی فقیر نے معلوم کیا کہ ان مکسوں نے جو اس کے ساتھ قیام رکھتے تھے۔ اپنے ساتھ بلکہ اپنے اصول کے ساتھ قیام پیدا کیا ہے۔ اس وقت انا کا لفظ ان عکوس اور ان عکوس کے اصول کے سوا کسی پر اطلاق نہیں کرتا۔ گو یا جز وعدم کو اس کا ساتھ کچھ میں نہ تھا اور معلوم کیا کہ حقیقت فنا اسی صورت کے مقام میں ہے سابقہ فنا گویا اس فنا کی صورت تھی۔ اس مقام سے جب بقا میں لائے اور عالم کی طرف واپس لائے تو اس عدم کو جو جزئیت کی نسبت رکھتا تھا اور اصالت و غلبہ اس کے لیے تھا۔ واپس لا کر اس کا مجاور اور ساتھی بنا دیا۔ اس کی صورت و حقیقت سے الگ کر کے اس کو لفظ انا کے اطلاق سے باہر کر دیا اور حکمتوں اور مصلحتوں کے لیے اس کو پھر پیرا ہن شعر کی طرح پہنا دیا۔ اس حالت میں اگر چہ عدم کو واپس لے آئے لیکن ان عکوس کا قیام اس سے وابستہ نہ کیا۔ بلکہ عدم کو اس عکوس کے ساتھ قیام بخشا۔ جیسے کہ بقائے سابق میں گزر چکا ۔ جب اس بقا میں یہ نسبت ہو تو اس جگہ جو بقا کی حقیقت ہے یہ نسبت کامل طور پر ہوگی ۔


حاصل کلام یہ کہ کپڑا پہننے والے کو کپڑے کی تاثیر ہوتی ہے۔ یعنی اگر کپڑا گرم ہو تو پہننے والے کو اس کی گرمی پہنچتی ہے۔ اگر سرد ہو تو اس کی سردی سے متاثر ہوتا ہے۔ اسی طرح کپڑے کی مانند اس عدم کا تاثر اپنے آپ میں پایا اور اس کا اثر تمام بدن میں جاری و ساری دیکھا لیکن جانتا ہے کہ یہ تاثیر دسرایت بیرونی ہے نہ درونی ۔ عارضی ہے نہ ذاتی ۔ خارجی ہم نشین کی طرف سے آئی ہے نہ داخل کے ہم جنس کی طرف سے اور شرو نقص بھی جو اس عدم سے پیدا ہوا ہے۔ عرضی اور خارجی ہے نہ ذاتی و اصلی ۔ اس مقام والا اگر چہ بشریت میں تمام لوگوں کے ساتھ مشارکت رکھتا ہے اور صفات بشریت کے صادر ہونے میں سب کے ساتھ شریک ہے، لیکن اس سے اور اس کی ابنائے جنس سے صفات بشریت کا صادر ہونا عارضی ہے جو ہم نشین و مجاور کی طرف سے ہے اور دوسروں سے صفات بشریت کا صادر ہونا ذاتی ہے۔ شَتَّانَ مَا بَيْنَهُمَا (ان میں بہت فرق ہے ) عوام لوگ ظاہری مشارکت کو ملاحظہ کر کے خواص بلکہ اخص خواص کو اپنی طرح تصور کر کے مقام انکار و اعتراض میں آ جاتے ہیں اور محروم رہ جاتے ہیں ۔ آیت کریمہ قَالُوا أَبَشَرُ يَّهْدًا وَ نَنَا فَكَفَرُوا ( ان لوگوں نے کہا کہ کیا یہ انسان ہم کو ہدایت دے گا پس وہ منکر ہو گئے ) اور آیت كريم وَ قَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ (انہوں نے کہا کہ اس رسول کو کیا ہے جو کھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ) ان کے حال کا نشان ہے۔ یہ فقیر صفات بشریت سے جو کچھ اپنے آپ میں دیکھتا ہے۔ معلوم کرتا ہے کہ ان صفات کا حامل وہی عدم مجاور ہے جو کلیت یعنی تمام بدن میں اثر و سرایت کیے ہوئے ہے اور اپنے آپ کو تمام و کمال طور پر ان صفات سے پاک وصاف معلوم کرتا ہے اور ان کا کچھ حصہ بھی اپنے آپ میں محسوس نہیں کرتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے۔ یہ صفات جو مجاورت کے سبب سے ظاہر ہوتے ہیں اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے سرخ لباس پہنا ہو اور لباس کی سرخی سے سرخ نظر آتا ہو۔ بیوقوف لوگ چونکہ تمیز نہیں کر سکتے ۔ لباسی سرخی کو اس شخص کی سرخی جان کر اس پر خلاف واقع حکم لگاتے ہیں ۔ مثنوی

ہر کہ افسانه بخواند افسانه است
وانکه نقدش وید خود مردانه است

آپ نیل است و تقبلی خون نمود
قوم موسیٰ زانه خوں بود آب بود

ترجمه مثنوی جس نے افسانہ کہا افسانہ ہے
جس نے دیکھا نقد وہ مردانہ ہے

خوان تھا قبطی کے حق میں آپ نیل
نان موسویوں کو آب تھا بے قال و قبیل

رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ (یا اللہ تو ہدایت دے کر ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور اپنے پاس سے رحمت نازل فرما تو بڑا بخشنے والا ہے

( وَ السَّلام عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى ( سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایتاختیار کی)۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا