112

مکتوب 8: ان احوال کے بیان میں جو صحو اور بقا سے تعلق رکھتی ہیں۔


مکتوب (8)

ان احوال کے بیان میں جو صحو اور بقا سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ بھی اپنے پیر بزرگوار کی خدمت میں لکھا ہے

خاکسار احمد کی گزارش ہے کہ جب سے صحو میں لائے ہیں اور بقاء بخشی ہے تب سے عجیب و غریب علوم اور عمدہ عمدہ متعارفہ معارف پے در پے فائض و وارد ہورہے ہیں ۔ ان میں سے اکثر قوم یعنی صوفیہ کے بیان اور انکی مشہور و مستعمل اصطلاح کے ساتھ موافقت نہیں رکھتے ۔ مسئلہ وحدت الوجود اور اس کے متعلقات کی نسبت جو کچھ صوفیہ نے بیان کیا ہے۔ ابتدا میں اس حال سے مشرف ہوا اور کثرت میں وحدت کا مشاہدہ حاصل ہوا۔ اس مقام سے کئی درجے او پر لے گئے اور اس ضمن میں کئی قسم کے علوم کا افادہ فرمایا لیکن قوم کو کوئی کلام صریح طور پر ان مقامات اور معارف کے مصداق پائی نہیں جاتی۔ البتہ ان میں سے بعض بزرگوں کے کلام شریف میں اجمالی رموز اور اشارات ہیں لیکن ان علوم کی صحت پر ظاہر اور علمائے اہل سنت کے اجماع کی موافقت گواہ عادل ہے۔ ظاہر شریعت کے ساتھ کسی چیز میں مخالفت نہیں رکھتے ۔ ہاں حکماء اور ان کے معقولی اصول کے ساتھ کچھ موافقت نہیں رکھتے ۔ بلکہ علمائے اسلام میں سے وہ لوگ جو اہل سنت و جماعت سے مخالفت رکھتے ہیں ان کے اصول سے بھی موافق نہیں ہیں ۔


استطاعت مع الفعل کا مسئلہ منکشف ہو گیا ہے۔ فعل سے پہلے انسان کچھ قدرت نہیں رکھتا۔ فعل کے ساتھ ہی قدرت بخشتے ہیں اور اسباب و اعضا کی سلامتی پر تکلیف دیتے ہیں جیسا کہ علمائے اہل سنت و جماعت نے ثابت کیا ہے اور اس مقام میں اپنے آپ کو حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کے قدم پر پاتا ہے آپ اسی مقام میں ہوئے ہیں اور حضرت خواجہ علاؤالدین عطار رحمتہ اللہ علیہ کو بھی اس مقام سے حصہ حاصل ہے اور اس سلسلہ علیہ کے بزرگوں میں سے حضرت خواجہ عبد الخالق غجدوانی قدس سرہ اور مشائخ متقدمین سے حضرت خواجہ معروف کرخی اور امام داؤد طائی اور حضرت حسن بصری اور خواجہ حبیب عجمی قدس سرہم اس مقام میں تھے ان سب کا حاصل کمال بعدہ اور بیگانگی ہے اور کام علاج سے گزر چکا ہے جب تک حجاب یعنی پردے لٹکے ہوئے تھے ان کے رفع کرنے کے لئے سعی و کوشش کی جاتی تھی اب اس کی بزرگی حجاب ہے۔

فَلاَ طَبيبَ لَهَا وَلاَ رَاقِى
ترجمہ
: نہیں طبیب کوئی اس کا اور نہ افسوں گر


شاید اس کمال بیگانگی اور بے مناسبتی کا وصل و اتصال نام رکھا ہے ہائے افسوس ایوسف زلیخا کا یہ بیت حال کے موافق ہے۔


در افگنده دف این آوازه از دوست
کز و بردست دف کو ہاں بود پوست

ترجمہ: نکلتا رف سے ہے آوازہء دوست
نہیں مطرب کو حاصل اس سے جز پوست

شہود کہاں ہے اور شاہد کون ہے اور مشہود کیا ہے ۔


خلق را روے کے نماید او
ترجمه
: کب وہ خلقت کو منہ دکھاتا ہے


مَا لِلتُّرَابِ وَرَبِّ الْأَرْبَابِ ( خاک کو عالم پاک کے ساتھ کیا نسبت ہے ) اپنے آپ کو اور ایسے ہی تمام جہان کو بندہ مخلوق اور غیر قادر جانتا ہے اور خالق و قا در حق تعالیٰ کو سمجھتا ہے اس کے سوا اور کوئی نسبت ثابت نہیں کرتا ایک دوسرے کا عین اور آئینہ ہونا کجا ۔

در کدام آئمیه در آید او
ترجمه : کسی آئینہ میں آتا نہیں وہ

اور اہل سنت و جماعت کے علمائے ظاہر اگر چہ بعض اعمال میں قاصر ہیں لیکن ذات و صفات الہی میں ان کی درستی عقائد کا جمال اس قدر نورانیت رکھتا ہے کہ وہ کوتاہی اور کمی اس کے مقابلہ میں پیچ و نا چیز دکھائی دیتی ہے اور بعض صوفی با وجود ریاضتوں اور مجاہدوں کے چونکہ ذات و صفات میں اس قدر درست عقیدہ نہیں رکھتے۔ وہ جمال ان میں پایا نہیں جاتا اور علماء و طالب علموں سے بہت محبت پیدا ہوگئی ہے اور ان کا طریقہ اچھا معلوم ہوتا ہے اور آرزو کرتا ہے کہ ان لوگوں کے گروہ میں ہو اور تلویح (۱) کا مقدمات اربعہ سے ایک طالب کے ساتھ مباحثہ کرتا ہے اور ہدایہ فقہ کا بھی ذکر ہوتا ہے اور معیت اور احاطہ علمی میں علماء کے ساتھ شریک ہے اور ایسے ہی حق تعالی کو نہ تو عالم کا عین جانتا ہے اور نہ عالم کے متصل اور نہ منفصل اور نہ عالم کے ساتھ اور نہ عالم سے جدا اور نہ محیط اور نہ ساری اور ذوات اور صفات اور افعال کو اس کا پیدا کیا ہوا جانتا ہے نہ یہ کہ ان کی صفتیں ان کے صفات ہیں اور نہ ان کے افعال اس کے افعال بلکہ افعال میں اس کی قدرت کو موثر جانتا ہے اور مخلوقات کی قدرت کیلئے کوئی تاثیر نہیں جانتا جیسا کہ علمائے متکلمین کا مذہب ہے اور ایسے ہی صفات سبعہ کو موجود جانتا ہے اور حق تعالیٰ کو مرید و مختار سمجھتا ہے اور قدرت کو صحت فعل اور ترک کے معنوں میں یقینی طور پر خیال کرتا ہے نہ ان معنوں میں اگر چاہے گا کرے گا اور اگر نہ چاہے گا تو نہ کرے گا کہ شرطیہ ثانی ممتنع ہوتا ہے جیسا کہ حکماء یعنی فلاسفہ اور بعض وجودی صوفیہ کا قول ہے کیونکہ یہ بات ایجاب تک پہنچ جاتی ہے اور حکمائے فلاسفہ کے اصول کے موافق ہے اور مسئلہ قضا و قدر کو علماء اہل سنت و جماعت کے طور پر جانتا ہے۔ فَلِلْمَالِك أَنْ يُتَصَرَّف فِي مُلْكِهِ كَيْفَ يَشَاءُ (مالک کا اختیار ہے کہ جس طرح چاہے اپنے ملک میں تصرف کرے) اور قابلیت واستعداد کا کچھ دخل نہیں جانتا کہ اس بات سے بھی ایجاب لازم آتا ہے ۔ وَهُوَ سُبْحَانَهُ مُخْتَارُ فَقَالَ لِما يُرِيدُ اور وہ ذات پاک مختار ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے ) علی ہذالقیاس۔ چونکہ حال کا عرض کرنا نہایت ضروری ہے اس واسطے اس کے لکھنے میں گستاخی کی۔

بنده باید که حد خود داند
ترجمه
: چاہئے بندہ کو اپنی حد پہچانے

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا