129

مکتوب 6: جذبہ اور سلوک کے حاصل ہونے اور جلالی و جمالی دونوں صفتوں کے ساتھ تربیت پانے اور فنا و بقا اور ان کے متعلقات اور نسبت نقشبندیہ کی فوقیت کے بیان میں


مکتوب (6)

جذبہ اور سلوک کے حاصل ہونے اور جلالی و جمالی دونوں صفتوں کے ساتھ تربیت پانے اور فنا و بقا اور ان کے متعلقات اور نسبت نقشبندیہ کی فوقیت کے بیان میں یہ بھی اپنے پیر بزرگوار کی خدمت میں لکھا: –

حضور کا کمترین بندہ احمد عرض کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کی توجہ عالی کی برکت سے جذبہ اور سلوک کے دونوں طریقوں اور جلال و جمال کی دونوں صفتوں سے تربیت فرمائی۔ اب جمال مین جلال ہے اور جلال عین جمال۔ رسالہ قدسیہ کے بعض حاشیوں میں اس عبارت کو اپنے ظاہری مفہوم سے پھیر کر اپنے وہمی مفہوم پر حمل کیا ہے۔ حالانکہ عبارت اپنے ظاہر پر محمول ہے۔ تغیر وتاویل کے قابل نہیں ہے اور اس تربیت کی علامت محبت ذاتی سے متحقق ہونا ہے۔ اس تحقیق سے پہلے ممکن نہیں اور محبت ذاتی فنا کی علامت ہے اور فنا سے مراد ما سوائے اللہ کا فراموش ہو جانا ہے۔ پس جب تک علوم پورے طور پر سینہ کے میدان سے صاف نہ ہو جائیں اور جہل مطلق کے ساتھ متحقق نہ ہو جا ئیں فنا کا کچھ حصہ حاصل نہیں ہوتا اور یہ حیرت و جہل دائمی ہے اس کا زائل ہونا ممکن نہیں۔ ایسا نہیں کہ جب کبھی حاصل ہو جائے اور کبھی زائل ہو جائے۔


حاصل کلام یہ ہے کہ بقاء سے پہلے جہالت محض ہے اور بقا کے بعد جہالت اور علم دونوں اکٹھے ہیں، عین نادانی کی حالت میں شعور میں ہے اور مین حیرت کے وقت حضور میں کہ یہی مقام مرتبہ حق الیقین کا ہے جہاں علم و عین ایک دوسرے حجاب نہیں ہے اور علم جو ایسی حالت سے پہلے حاصل ہوتا ہے۔ احاطہ اعتبار سے خارج ہے اس حالت کے باوجود اگر علم ہے تو اپنے آپ ہی میں ہے اور اگر شہود ہے تو وہ بھی اپنے آپ میں ہے اور اگر معرفت یا حیرت ہے اور وہ بھی اپنے آپ ہی میں ہے جب تک نظر باہر میں ہے، بے حاصل ہے اگر چہ اپنے آپ ہی میں نظر رکھی ہو۔ نظر باہر سے بالکل منقطع ہو جانی چاہیے۔


حضرت خواجہ بزرگ یعنی خواجہ بہاء الدین نقشبند قدس سرہ فرماتے ہیں کہ اہل اللہ فنا و بقا کے بعد جو کچھ دیکھتے ہیں اپنے آپ میں دیکھتے ہیں اور جو کچھ پہچانتے ہیں اور ان کی حیرت اپنے وجود میں ہی ہے۔


یہاں سے صاف طور پر مفہوم ہوتا ہے کہ شہود اور معرفت اور حیرت صرف اپنے نفس میں ہے ان میں سے کوئی بھی باہر میں نہیں ہے جب تک ان تینوں میں سے ایک بھی باہر میں ہے۔ اگرچہ اپنے آپ میں رکھتا ہوں، فنا حاصل نہیں ہوتی تو بقا کیسے حاصل ہو جائے گی ۔ فنا و بقا میں نہایت مرتبہ یہی ہے اور یہ فنا و بقاء کے ساتھ متحقق ہونے کے بعد باہر میں بھی شہود رکھتے ہیں لیکن ان عزیزوں یعنی مشائخ نقشبند یہ قدس سرہم کی نسبت تمام نسبتوں سے برتر ہے۔


نہ ہر کہ آئینہ دار و سکندری داند
نه هر که سر بتراشد قلندری داند

ترجمہ: کوئی آئینہ گر رکھے سکندر بن نہیں جاتا
منڈ ائے سرا گر کوئی قلندر بن نہیں جاتا


جب اس سلسلہ کے بڑے بڑے مشائخ میں سے ایک یا دو کو بہت سے قرنوں کے بعد اس نسبت سے مشرف کرتے ہیں تو دوسرے سلسلوں کی نسبت کا کیا بیان کیا جاوے۔

یہ نسبت حضرت خواجہ عبد الخالق غجدوانی قدس سرہ کی ہے اور اس نسبت کو پورا اور کامل کرنے والے خواجہ خواجگان حضرت خواجہ حضرت بہاء الدین نقشبندیہ قدس سرہم ہیں اور ان کے خلیفوں میں سے حضرت خواجہ علاؤالدین قدس سرہ اس دولت سے مشرف ہوئے تھے ۔

این کار دولت است کنوں تا کرا دهند
ترجمہ
: بڑی اعلیٰ ہے یہ دولت ملے اب دیکھئے کس کو


عجب معاملہ ہے کہ پہلے جو بلا و مصیبت واقع ہوتی تھی ۔ فرحت و خوشی کا باعث ہوتی تھی اور هَلْ مِنْ مَّدِید کہتا تھا اور جو کچھ دنیاوی اسباب سے کم ہوتا تھا۔ اچھا معلوم ہوتا تھا اور اس قسم کی خواہش کرتا تھالا حق ہو جاتا ہے تو پہلے ہی صدمہ میں ایک قسم کاغم پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر چہ جلدی دور ہو جاتا ہے اور کچھ نہیں رہتا ہے اور ایسے ہی پہلے اگر بلا و مصیبت کے دفع کرنے کے لئے دعا کرتا تھا تو اس سے اس رفع کرنا مقصود نہ ہوتا تھا اور خوف و حزن جو زائل ہو گئے ہوئے تھے اب پھر رجوع کر رہے ہیں اور معلوم ہوا کہ وہ حال سکر کی وجہ سے تھا صحو کی حالت میں عجز اور محتاجی اور نہیں تھا خوف وحزن اور غم و شادی جیسے عام لوگوں کو تھا۔ یہ بات دل کو اچھی نہ لگتی تھی لیکن حال غالب تھا۔ دل میں گزرتا تھا کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی دعا اس قسم کی نہ تھی کہ جس سے اپنی مراد کا حاصل ہونا مقصود ہو اب جب کہ فقیر اس حالت سے مشرف ہوا اور خوف وحزن کے سبب سے تھیں ۔ نہ مطلق امر کی تابعداری کیلئے، بعض امور کو ظاہر ہوتے ہیں حکم کے موافق کبھی کبھی ان کے عرض کرنے میں گستاخی کرتا ہے۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا