125

مکتوب 6: بعض پوشیدہ اسرار کے بیان میں جن سے مفہوم ہوتا ہے کہ ہمارے پیغمبر ﷺ کوملت ابراہیم علیہ السلام کے اتباع کا کیوں امر ہوا


مکتوب 6

بعض پوشیدہ اسرار کے بیان میں جن سے مفہوم ہوتا ہے کہ ہمارے پیغمبر ﷺ کوملت ابراہیم علیہ السلام کے اتباع کا کیوں امر ہوا، جامع علوم عقلی و نقلی مخدوم زادہ مجد الدین محمد معصوم سلمہ اللہ تعالیٰ کی طرف صادر فرمایا ہے۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ ( اللہ تعالیٰ کے لیے تد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ) میں سمجھتا ہوں کہ میری پیدائش سے مقصود یہ ہے کہ ولایت محمدی صلى الله عليه وسلم ولایت ابرا نیمی علیہ السلام کے رنگ میں رنگی جائے اور اس ولایت کا حسن ملاحت اس ولایت کے جمال صباحت کے ساتھ مل جائے ۔ حدیث میں آیا ہے ابنى يوسف أصْبَحُ وَانَا اهْلَحُ ( میرا بھائی یوسف صبیح تھا اور میں ملیح ہوں ) اور اس انصباح اور امتزاج سے محبوبیت محمدیہ کا مقام درجہ بلند تک پہنچ جائے۔ ملت ابراہیمی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کے اتباع کے امر سے یقینا اسی دولت عظمی کا حاصل ہونا مقصود ہوگا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صلوات و برکات جیسے صلوات و برکات کا طلب کرنا اسی غرض کے لیے ہو گا ۔ صباحت و ملاحت دونوں حق تعالی کے اس حسن ذاتی کا پتہ دیق ہیں جس میں صفات کی ملاوٹ نہیں لیکن صفات و افعال و آثار کا حسن سب حسن عبادت سے مستفاد ہے جو بڑی برکت والا ہے۔ حسن ملاحت حضرت اجمال سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ گویا ملاحت دائرہ حسن کا مرکز ہے اور صباحت اس مرکز کا دائرہ ہے۔
حضرت ذات تعالیٰ میں جس طرح بساطت ہے، وسعت بھی ہے لیکن وہ بساطت و وسعت نہیں جو ہمارے فہم میں آ سکے اور نہ وہ اجمال و تفصیل جو ہمارے ادراک میں آئے ۔ لا تذر كه الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (آنکھیں اس کو نہیں پاسکتیں لیکن وہ آنکھوں کو پا سکتا ہے اور وہ باریک بین اور باخبر ہے ) بساطت و وسعت جو حق تعالیٰ کی ذات میں ثابت کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے سے جدا ہیں نہ کہ ایک دوسرے کا عین ہیں۔ جیسے کہ بعض نے گمان کیا ہے لیکن وہ تمیز جو اس مرتبہ میں ان کے درمیان ثابت ہے، ہمارے ادراک کے احاطہ اور ہمارے فہم کے دائرہ سے باہر ہے۔ پس صباحت و ملاحت بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں اور ہر ایک کے احکام الگ الگ ہیں اور وہ کمالات جوان کے متعلق ہیں ، وہ بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ میں اپنی پیدائش سے جو مقصود سمجھتا تھا ، وہ حاصل ہو گیا ہے اور ہزار سال کی دعا قبول ہوگئی ہے۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَنِي صلة بين الْبَحْرَيْنِ وَ مُصْلِحًا بَيْنَ الْفِئَتَيْنِ َأعْمَلُ الْحَمْدَ عَلَى كُلَّ حَالِ وَالصَّلَوةُ وَالسَّلامُ عَلى خَيْر الانام وَعَلَى إِخْوَانِهِ الْكِرَامِ مِنْ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمَلَئِكَةِ الْعِظَامِ ( الله تعالیٰ کی ہر حال میں کمال حمد ہے جس نے مجھے کو دو دریاؤں کا ملانے والا اور دو گروہوں کے درمیان اصلاح کرنے والا بنایا اور حضرت خیر الا نام اور ان کے بھائیوں یعنی انبیاء اور ملائکہ عظام پر صلوۃ و سلام ہو)
چونکہ صباحت نے بھی ملاحت کا رنگ اختیار کر لیا ہے، اس لیے خلت ابراہیمی کے مقام نے بھی وسعت پیدا کی ہے اور محیط نے مرکز کا حکم حاصل کر لیا ہے۔


جاننا چاہئے کہ مقام محبت مر تبہ ملاحت سے مناسبت رکھتا ہے اور مقام خلت مرتبہ صباحت کے مناسب ہے۔ مقام محبت میں محبوبیت صرف حضرت خاتم الرسل صلى الله عليه وسلم کے نصیب ہے اور محسبیت خالص حضرت کلیم اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مخصوص ہے اور حضرت خلیل علیہ الصلوۃ والسلام یاری اور ندیمی کی نسبت رکھتے ہیں۔ محبت و محبوب اور ہوتا ہے اور یار دندیم اور ہر ایک کینسبت الگ الگ ہے۔

یہ فقیر چونکہ ولایت محمد یہ عید اور ولادت موسویہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کا تربیت یافتہ ہے، اس لیے وطن و سکونت مقام ملاحت میں رکھتا ہے لیکن ولایت محمد یہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی محبت کے غلبہ کے باعث محبوبیت کی نسبت غالب ہے اور حسبیت کی نسبت مغلوب ومستور ۔ اے فرزند باوجود اس معاملہ کے جو میری پیدائش سے مقصود تھا، ایک اور کار خانہ عظیم میرے حوالہ فرمایا ہے۔ مجھے پیری و مریدی کے واسطے نہیں لائے اور نہ میری پیدائش سے خلق کی تکمیل و ارشاد مقصود ہے بلکہ معاملہ دیگر اور کارخانہ دیگر مطلوب ہے اس ضمن میں جس کو مناسبت ہوگی وہ فیض پالے گا ورنہ نہیں۔ معاملہ تکمیل وارشاد اس کارخانہ کے مقابلہ میں راستہ میں پھینکی ہوئی چیز کی طرح ہے۔ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی دعوت کو ان کو باطنی معاملات کے ساتھ یہی نسبت تھی ۔ اگر چہ منصب نبوت ختم ہو چکا ہے لیکن نبوت کے کمالات اور خصوصیتوں سے تبعیت اور دراثت کے طور پر انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے کامل تا بعد اروں کو حصہ حاصل ہے۔ والسلام۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا