مکتوب (4)
بڑے درجے والے مہینے ماہ رمضان کی فضیلتوں اور حقیقت محمدی علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام کے بیان میں ۔ یہ بھی اپنے پیر بزرگوار کی خدمت میں لکھا ہے۔
حضور صلى الله عليه وسلم کے خادموں میں سے ذلیل اور حقیر خادم گزارش کرتا ہے کہ مدت سے حضور کا کوئی نوازش نامه صادر نہیں ہوا اور اس بلند درگاہ کے خادموں کے احوال کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ ہر دم انتظار ہے۔ ماہ مبارک رمضان شریف کا آنا مبارک ہو۔ اس مہینے کو قرآن مجید کے ساتھ (جو تمام ذاتی اور شیونی کمالات کا جامع ہے اور اس دائرہ اصل میں داخل ہے جس میں کسی ظلیت کو راہ نہیں اور قابلیت اولی یعنی حقیقت محمدیہ صلى الله عليه وسلم اس کا ظل ہے ) بڑی مناسبت ہے اور اسی مناسبت کی وجہ سے اس مہینے میں قرآن مجید کا نزول واقع ہوا ۔ شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ اس بات کا مصداق ہے اور اس مناسبت کے باعث یہ مہینہ بھی تمام خیرات و برکات کا جامع ہے جو برکت و خیر کہ تمام سال میں ہر شخص کو پہنچتی ہے خواہ وہ کسی راہ سے پہنچے اس ماہ مبارک کی بے نہایت برکتوں کے دریا کا ایک قطرہ ہے۔ اس مہینے کی جمعیت تمام سال کی جمعیت ہے اور اس مہینے کا تفرقہ تمام سال کا تفرقہ ہے ۔ فَطُوبیٰ لِمَنْ مَضَى عَلَيْهِ هَذَا الشَّهْرُ الْمُبَارَكَ وَرَضِيَ عَنْهُ وَ وَيْلٌ لِمَنْ سَخِطَ عَلَيْهِ فَمُنِعَ مِنَ الْبَرَكَاتِ وَ حَرَمَ مِنَ الْخَيْرات (ترجمہ) پس اس شخص کیلئے خوشخبری ہے جس پر یہ مہینہ خوشی خوشی گزر گیا اور ہلاکت ہے اس شخص کیلئے جس پر یہ مہینہ ناراض گیا اور وہ اس کے خیرات و برکات سے محروم رہا۔ اور نیز قرآن مجید کا ختم کرنا اس مہینہ اور اسی واسطے سنت ہوا ہے تا کہ تمام اصلی کمالات اور ظلی برکات حاصل ہو جائیں ۔ فَمَنْ جَمَعَ بَيْنَهُمَا يُرْجِيْ أَنْ لَّا يُحْرَم مِنْ بَرَكَاتِه ولا يُمْنَعُ مِنْ خَيْرَاتِه. (ترجمہ) پس جس نے ان دونوں کو جمع کیا امید ہے کہ وہ اس مہینے کی برکات وخیرات سے محروم نہ رہے گا۔
وہ برکتیں جو اس مہینے کے دنوں سے وابستہ ہیں وہ اور ہیں اور وہ خیرات جو اس مہینے کی راتوں کے متعلق ہیں وہ اور ہیں اور ممکن ہے کہ اسی حکمت کے سبب یہ حکم ہوا ہو کہ افطار میں جلدی کرنا اور سحرگی میں دیر کرنا اولیٰ و افضل ہے تا کہ دونوں وقتوں کے حصوں کے درمیان پورا پورا امتیاز حاصل ہو جائے ۔ قابلیت اولی جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے اور جس سے مراد حقیقت محمدی ہے۔ علی مظهره الصَّلوةُ وَالسَّسِلِمَات ( اس کے مظہر پر صلوت و سلام ہوں ) وہ ذات کی قابلیت تمام صفات کے ساتھ متصف ہونے کی وجہ سے نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض نے حکم کیا ہے بلکہ ذات کی قابلیت اس علم کے اعتبار سے ہے جو ان تمام ذاتی اور شیونی کمالات سے متعلق ہے جو قرآن مجید کی حقیقت کا حاصل ہے اور قابلیت اتصاف جو خانہ صفات کے مناسب ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے درمیان برزخ کی طرح ہے وہ دوسرے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے حقائق ہیں ۔ یہی قابلیت ان اعتبارات کے لحاظ سے جو اس میں مندرج ہیں۔ بے شمار حقائق ہو گئی ہے وہ قابلیت جس کو حقیقت محمد (علیہ الصلوۃ والسلام ) کہتے ہیں۔ اگر چہ ظلیت رکھتی ہے لیکن صفات کا رنگ اس سے ملا ہوا نہیں ہے اور کوئی مانع و پردہ درمیان میں نہیں ہے اور محمدی المشرب گروہ کے حقائق اس علم کے اعتبار سے جو بعض ان کمالات کے ساتھ متعلق ہوتا ہے ذات کی قابلیتیں ہیں اور وہ قابلیت محمد یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اور ان متعدد قابلیتوں کے درمیان برزخ کی طرح ہے اور ان بعض کا حکم اس سبب سے ہے کہ قابلیت محمدیہ کا قدم گاہ صرف خانہ صفات میں ہے اور خانہ صفات کے عروج کی نہایت اس قابلیت تک ہے۔ اسی وجہ سے اس کو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی طرف منسوب کیا ہے اور چونکہ یہ قابلیت اتصاف ہرگز دور نہیں ہوتی۔ اس واسطے ان بعض نے یہ حکم لگایا ہے کہ حقیقت محمدی ہمیشہ حائل ہے ورنہ قابلیت محمدیہ علٰی مظہرہا الصلوٰۃ والتحیة کیلئے جو ذات باری تعالیٰ میں مجرد اعتبار ہے۔ نظر سے دور ہو نا ممکن بلکہ واقع ہے اور قابلیت اتصاف اگر چہ اعتباری ہے لیکن برزخ ہونے کی وجہ سے ان صفات کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے، جو وجود زائد کے ساتھ خارج میں موجود ہیں
اور اس کا دور ہونا ممکن نہیں ہے۔ اسی واسطے ہمیشہ تک اس کے حائل ہونے کا حکم کرتے ہیں ۔ اس قسم کے علوم جن کا منشاء اصالت وظلیت کی جامعیت ہے بہت وارد ہوتے ہیں اور ان میں اکثر کاغذ کے پرچوں میں لکھے جاتے ہیں۔ مقام قطبیت مقام ظلیت کے علمی دقائق کا منشاء ہے اور مرتبہ فردیت دائرہ اصل کے معارف وارد ہونے کا واسطہ ہے۔ ان دو دولتوں یعنی مقام قطبیت اور مرتبہ فردیت کے جمع ہونے کے بغیر ظل اور اصل کے درمیان تمیز کرنا مشکل ہے۔ اسی واسطے بعض مشائخ قابلیت اولی کو کہ جسے تعین اول کہتے ہیں۔ ذات سے زیادہ نہیں جانتے اور اس قابلیت کے شہود کو تجلی ذاتی خیال کرتے ہیں ۔
وَالْحَقُّ مَا حَقَّقْتُ وَالْآمُرُ مَا ، اَوْضَحُتُ وَاللهُ سُبْحَانَهُ يُحِقَّ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِى السبيل ( اور حق وہی ہے جو میں نے تحقیق کی ہے اور حقیقت امروہی ہے جس کو میں نے واضح کیا اور اللہ تعالیٰ حق ظاہر کرتا ہے اور سید ھے راستہ کی ہدایت بخشتا ہے۔) وہ رسالہ جس کے لکھنے کیلئے خاکسار کو حکم ہوا تھا۔ اس کے پورا کرنے کی توفیق نہیں ملی ۔ اسی طرح مسودے پڑے ہوئے ہیں۔ دیکھیں اللہ تعالیٰ کی حکمت اس توقف میں کیا ہوگی۔ زیادہ گستاخی ادب سے دور ہے۔