190

مکتوب 38 : ذات بحت کے ساتھ جو اسماء وصفات و شیون و اعتبارات کے اعتبار سے پاک و منزہ ہے


مکتوب (38)

ذات بحت کے ساتھ جو اسماء وصفات و شیون و اعتبارات کے اعتبار سے پاک و منزہ ہے ۔ گرفتار ہونے میں اور ناقص لوگوں کی مذمت میں جو چون کو بیچون تصور کر کے اس میں پھنسے ہوئے ہیں اور اہل فنا کے مرتبوں کے تفاوت میں کہ جن پر علوم و معارف وغیرہ کا تفاوت مترتب ہے۔ یہ بھی شیخ محمد خیری کی طرف لکھا ہے :-

آپ کا مکتوب شریف پڑھ کر خوشی کا باعث ہوا ۔ حق تعالیٰ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھے اور ایک لحظہ بھی اپنے غیر کے حوالہ نہ کرے۔ جو کچھ حق تعالیٰ کی ذات بحبت کے سوا ہے اس کی تعبیر غیر سے کی گئی ہے۔ اگر چہ اسماء وصفات ہوں اور یہ جو متکلمین نے لاھو و لا غیرہ کہا ہے اس کے اور معنے ہیں اور غیر سے ان کی مراد غیر اصطلاحی ہے اور انہی معنے میں نفی کی ہے نہ معنی مطلب سے ۔ اور نفی خاص نفی عام کو مستلزم نہیں ہے اور حق تعالیٰ کی ذات بحت سے سلب یعنی نفی کے سوا اور کچھ تعبیر نہیں کر سکتے ۔ اس مرتبہ میں جو اثبات ہے وہ الحاد ہی ہے اور تمام تعبیروں سے بہتر تعبیر اور تمام عبارتوں سے جامع عبارت لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَئی ہے جس کا فارسی ترجمہ بیچوں اور بے چگون ہے اور علم اور شہود اور معرفت کو اس کی طرف راہ نہیں جو کچھ دیکھتے اور جانتے اور پہچانتے ہیں ۔ یہ سب اس کا غیر ہے۔ ان کے ساتھ گرفتار ہونا اس کے غیر کے ساتھ گرفتار ہونا ہے۔ پس لا اللہ کے نیچے لا کر ان سب کی نفی ضروری ہے اور کلمہ الا اللہ کے ساتھ اس ذات بیچون و بچون کا اثبات کرنا لازم ہے اور یہ اثبات اوّل میں تقلید کے طور پر ہے اور اخیر میں تحقیق کے طور پر ۔


بعض سالکوں نے نہایت مطلب تک پہنچ کر چون کو بیچون تصور کیا ہے اور شہور و معرفت کو اس کی طرف دیا ہے۔ تقلید والے لوگ ان سے کئی درجے بہتر ہیں ۔ کیونکہ ان کی تقلید نور نبوت علی صاحبها الصلوة والسلام کے چراغ سے حاصل کی گئی ہے جس کی طرف سہو و خطا کو راہ نہیں ہے اور ناقص لوگوں کا مقتدا غیرصحیح یعنی غلط کشف ہے۔


بہ میں تفاوت راه از کجاست تا یکجا
دیک رستہ کا فرق ہے کس قدر

در حقیقت یہ لوگ ذات کے منکر ہیں کیونکہ اگرچہ شہود ذات کا اثبات کرتے ہیں مگر جانتے کہ نفس اثبات عین انکار ہے۔

امام المسلمین امام اعظم کوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے۔ سُبحانک ما عبدناک حَقَّ عِبَادَتِكَ وَلَكِنُ عَرَفْنَاكَ حَقَّ مَعْرِفَتِكَ حق عبادت کا آدا نہ ہونا خود ظاہر ہے لیکن حق معرفت کا حاصل ہونا اس بناء پر ہے کہ حق تعالیٰ کی ذات میں نہایت معرفت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اس کو بیچونی اور بیچگونی کے ساتھ پہچان لیں۔


کوئی بیوقوف یہ گمان نہ کرے کہ اس معرفت میں عام و خاص اور مبتدی اور منتہی برا بر ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ اس نے علم و معرفت کے درمیان فرق نہیں کیا ہے ۔ مبتدی کو صرف علم ہی علم ہے اور منتہی کو معرفت ۔ اور معرفت سوائے فنا کے نہیں ہوتی اور یہ دولت فانی کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی ۔ مولانا روم فرماتے ہیں۔

هیچکس را تا نگردد او فنا نیست ره دربار گاه کبریا

ترجمه : جب تلک کوئی نہ ہو جائے فتا تب تلک ملتا نہیں اس کو خدا

پس جب معرفت علم سے الگ ہے تو پھر جانا چاہئے کہ مشہور دانش کے سوا وہ ایک ایسا امر
ہے جس کو معرفت سے تعبیر کرتے ہیں اور اسی کو ادراک بسیط بھی کہتے ہیں۔


فریاد حافظ ایں ہمہ آخر بہر زہ نیست ہم قصه غریب و حدیث عجیب هست

ترجمہ: نہیں حافظ کہ بیہودہ فریاد عجب ہے ماجرا اس کا سراسر


مثنوی: اتصالے بے تکلیف بے قیاس ہست رب الناس را با جان ناس

لیک گفتم ناس را نسناس نه ناس غیر از جان جان اشناس نه

ترجمہ: ہے خدا کا اپنے بندوں سے اک ایسا اتصال جس کی کیفیت کا پانا اور سمجھنا ہے محال

ذکر ہے یا ناس کا نسناس کا ہرگز نہیں ناس غیر از عارف کامل نہیں ہوتا کہیں

اور جب فنا میں بھی مرتے مختلف ہیں تو اس واسطے منتہوں کو بھی معرفت میں ایک دوسرے پر فضیلت میں ہوگی۔ یعنی جس کی فنا زیادہ کامل ہوگی اس کی معرفت بھی زیادہ کامل ہوگی جس کی فنا کم ہوگی۔ اس کی معرفت بھی کم ہوگی۔ علٰی ہذا القیاس۔

سبحان اللہ ابات کی طرف چلی گئی ۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اپنی بے حاصلی اور نامرادی اور بے استقامتی اور نا ثانی کی نسبت کچھ لکھتا اور دوستوں سے مددطلب کرتا۔ مجھے اس قسم کی باتوں سے کیا نسبت ۔ بیت

آگه از خویشتن چونسیت جنیں چه خبر دارد از چنان و چنیں

ترجمہ: واقف اپنے ہے جب نہیں ہے جنیں پھر وہ جانے کیا چٹان و چنیں

لیکن بلند ہمت اور ذاتی خصلت اجازت نہیں دیتی کہ کمینے مرتبوں اور سفلی سرمایہ کی طرف اتر آئے یا ان کی طرف التفات کرے۔ اگر کہے تو اسی کی نسبت کہے۔ اگر چہ کچھ نہیں کہہ سکتا اور اگر ڈھونڈے تو اسی کو ڈھونڈے۔ اگر چہ کچھ نہ پائے اور اگر کچھ حاصل ہو وہی ہوا گر چہ کچھ حاصل نہ ہو اور اگر واصل ہو تو اسی کے ساتھ واصل ہو۔ اگر چہ بے حاصل ہی رہے۔

بعض بزرگواروں قدس سرہم کی عبارتوں میں جو شہود ذاتی واقع ہے۔ اس کے معنی کاملوں کے سوا کسی اور پر ظاہر نہیں ہیں۔ ناقصوں کے لئے ان معنوں کا سمجھنا مشکل ہے۔


حال پخته در نیابد بیچ خام
پس سخن کوتاه باید والسلام


ترجمہ: حال کامل کا نہیں جانے ہے خام

پس سخن کوتاہ چاہئے والسلام

آپ نے خط کے عنوان کو کلمہ هُوَ الظَّاهِرُ هُوَ الْبَاطِنُ سے آراستہ کیا ہوا تھا۔ میرے مخدوم اهُوَ الظَّاهِرُ هُوَ الْبَاطِنُ درست ہے لیکن کچھ مدت گزری ہے کہ فقیر اس عبارت سے توحید کے معنی نہیں سمجھتا۔ اور ان کے معنی سمجھنے میں علماء کے موافق ہے اور تو حید والوں کی درستی سے ان کی درستی بہتر و بڑھ کر معلوم ہوئی ہے۔ كُلَّ مُيَسرُّ لِمَا خُلِقَ لَهُ ہر ایک کے لئے ایسی چیز کا حاصل ہونا آسان ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ مصرعہ


ہر کسے راہ بہر کاری ساختند
ہر اک کو بنایا ہے ہر اک کام کی خاطر


جو کچھ اس انسان پر ضروری ہے اور اس کے ساتھ مکلف ہے وہ اوامر کی تابعداری کرنا اور نواہی سے رک جانا ہے۔ مَا أَتَكُمُ الرَّسُولُ فَخَذُوهُ وَمَا نَهَكُمُ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ جو کچھ رسول تمہارے پاس لائے اس کو پکڑ لو اور جس سے تم کو منع کرے ہٹ جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔

اور جب انسان اخلاص سے مامور ہے اور وہ بغیر فنا کے حاصل نہیں ہوتا اور محبت ذاتی کے بغیر میسر نہیں تو اس واسطے فنا کے مقدمات یعنی دس مقامات کو حاصل کرنا چاہئے اگر چہ فنا خدا کی محض بخشش ہے لیکن اس کے مقدمات اور مبادی کسب سے تعلق رکھتے ہیں ہاں بعض ایسے بھی لوگ ہیں

جن کو فنا کی حقیقت سے مشرف کرتے ہیں۔ بغیر اس بات کے کہ مقدمات کو حاصل کریں اور ریاضتوں اور مجاہدوں سے اپنی حقیقت کو مصفا کریں اور اس وقت اس کا حال دوصورت سے خالی نہیں ہے یا اس کو نہایت النہایت میں کھڑا رکھتے ہیں یا نا قصوں کی تکمیل کے لئے عالم کی طرف اس کولوٹا تے ہیں ۔

بر تقدیر اول اس کی سیر مقامات مذکورہ میں واقع نہیں ہوتی اور اسمائی اور صفاتی تجلیات کی تفصیلوں سے بے خبر رہتا ہے اور بر تقدیر ثانی جب اس کو عالم کی طرف لوٹاتے ہیں تو اس کی سیر مقامات کی تفصیل پر واقع ہوتی ہے اور بے نہایت تجلیات سے اس کو مشرف کرتے ہیں ظاہر میں مجاہد کی صورت رکھتا ہے۔ لیکن حقیقت میں کمال ذوق اور لذت میں ہے۔ بظاہر ریاضت میں ہے اور باطن میں نعمت و لذت ہے۔


این کار دولت است کنوں تا کمراد هند
:ترجمه : بڑی اعلیٰ سے یہ دولت ملی اب دیکھئے کس کو


یہ نہیں کہا جاتا کہ جب اخلاص اس قسم کے امور میں سے ہے جن کی تابعداری واجب ہے اور بغیر فنا کے اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی ۔ پس علمائے ابرار اور صلحائے اخیار جو فنا کی حقیقت ہے مشرف نہیں ہوئے ۔ اخلاص کے ترک سے عاصی ہوں کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ نفس اخلاص ان کو حاصل ہے اگر چہ اخلاص بعض افراد کے ضمن میں ہو اور فنا کے بعد کمال اخلاص حاصل ہو جاتا ہے اور اس کے تمام افراد کو شامل ہو جاتا ہے اسی واسطے یہ کہا گیا ہے کہ اخلاص کی حقیقت بغیر فنا کے متصور نہیں ہوتی اور یہ نہیں کہا کہ نفس اخلاص بغیر فنا کے متحقق نہیں ہوتا۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا