111

مکتوب 36 : اس بیان میں شریعت دنیا اور آخرت کی تمام سعادتوں کی ضامن ہے


مکتوب (36)

اس بیان میں شریعت دنیا اور آخرت کی تمام سعادتوں کی ضامن ہے اور کوئی ایسا مطلب نہیں ہے کہ جس کے حاصل کرنے میں شریعت کے سوا کسی اور چیز کی حاجت پڑے اور طریقت و حقیقت دونوں شریعت کے خادم ہیں اور اس کے مناسب بیان میں مُلا حاجی محمد لاہوری کی طرف لکھا ہے:-


حَقَّقَنا اللهُ سُبْحَانَهُ وَ إِيَّاكُمُ بِحَقيقَةِ الشَّرِيعَتِ الْمُصْطَفُوِيَّةِ عَلَى صَاحِبَهَا الصَّلوةُ وَالسَّلامُ وَالتَّحِيَّةِ وَيَرْحَمُ اللهُ عَبداً قَالَ اميناً حق تعالی ہم کو اور آپ کو شریعت مصطفی صلى الله عليه وسلم کی حقیقت سے آگاہ کر لے۔ اور اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم کرے جس نے آمین کہا۔ شریعت کے تین جزو ہیں۔ علم و عمل، و اخلاص۔ جب تک یہ تینوں جز و محقق نہ ہوں ۔ شریعت متحقق نہیں ہوتی اور جب شریعت حاصل ہوگی تو گویا حق تعالیٰ کی رضامندی حاصل ہوگئی۔ جو دنیا اور آخرت کی تمام سعادتوں سے بڑھ کر ہے۔ وَرِضْوَانٌ مِن اللَّهِ أَكْبَرُ اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی سب سے بڑھ کر ہے ۔

پس شریعت دنیا اور آخرت کی تمام سعادتوں کی ضامن ہے اور کوئی ایسا مطلب باقی نہیں جس کے حاصل کرنے کیلئے شریعت کے سوا اور کسی اور چیز کی طرف حاجت پڑے۔ طریقت اور حقیقت جن سے صوفیا ممتاز ہیں ۔ تیسری جزو یعنی اخلاص کے کامل کرنے میں شریعت کی خادم ہیں پس ان دونوں کی تکمیل سے مقصود شریعت کی تکمیل ہے نہ کوئی اور امر شریعت کے سوا۔

احوال ومواجید اور علوم و معارف جو صوفیا کو اثنائے راہ میں حاصل ہوتے ہیں ۔ اصلی مقصود نہیں ہیں ۔ بلکہ وہم و خیالات ہیں جن سے طریقت کے بچوں کی تربیت کی جاتی ہے ان سب سے گزر کر مقام رضا تک پہنچنا چاہیے۔ جو مقام جذ بہ اور سلوک کا نہایت ہے کیونکہ طریقت اور حقیقت کی منزلیں طے کرنے سے یہ مقصود ہے کہ اخلاص حاصل ہو جائے ۔ جو مقام رضا کومستلزم ہے۔ تین قسم کی تجلیوں اور عارفانہ مشاہدوں سے گزار کر ہزاروں میں سے کسی ایک کو اخلاص اور مقام رضا کی دولت تک پہنچاتے ہیں ۔ بے سمجھ لوگ احوال و مواجید کو اصلی مقصودہ جانتے ہیں اور مشاہدات اور تجلیات کو اصل مطلب خیال کرتے ہیں ۔ اسی واسطے وہم و خیال کی قید میں گرفتار رہتے ہیں اور شریعت کے کمالات سے محروم ہو جاتے ہیں۔ كَبَرُ عَلَى الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوهُمُ إلَيهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَّشَا وَ يَهْدِى إِلَيْهِ مَنْ يُنيبُ ) مشرکین کو وہ بات بڑی بھاری اور مشکل معلوم ہوتی ہے جس کی طرف تو ان کو بلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی طرف برگزیدہ کر لیتا ہے اور اپنی طرف اس کو ہدایت دیتا ہے جو اس کی طرف جھکتا ہے۔ )

ہاں مقام اخلاص کا حاصل ہونا اور مرتبہ رضا تک پہنچنا ان احوال و مواجید کے طے کرنے اور ان علوم و معارف کے ثابت ہونے پر منحصر ہے۔


پس یہ سب باتیں مطلوب حاصل کرنے کے لئے اسباب اور مقصود تک پہنچنے کیلئے وسیلہ ہیں۔ اس مطلب کی حقیقت حضرت حبیب اللہ صلى الله عليه وسلم کی طفیل ابنِ فقیر پر اس راستہ میں پورے دس سال کے بعد واضح و ظاہر ہوئی ۔ اور شریعت کا معشوق کما حقہ جلوہ گر ہوا ۔ اگر چہ ابتداء ہی سے احوال و مواجید کی گرفتاری نہ رکھتا تھا اور شریعت کی حقیقت سے متحقق ہونے کے بغیر اور کوئی مطلب مدِنظر نہ رکھتا۔ لیکن دس سال کے بعد اصل حقیقت کما حقہ ظاہر ہوئی ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ حَمْداً كَثِيراً طَيِّباً مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا إِلَيْهِ.


مغفرت پناہ میاں شیخ جمال کے فوت ہونے سے تمام اہل اسلام کو غم و الم لاحق ہوا ان کے مخدوم زادوں کے ہاں فقیر کی طرف سے ماتم پرستی کی رسم بجالا کر فاتحہ پڑھیں ۔ والسلام ۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا