125

مکتوب 35: بعض ان استفساروں کے جواب میں جو تو حید و عین الیقین کے بارہ میں کیے گئے


مکتوب 35

بعض ان استفساروں کے جواب میں جو تو حید و عین الیقین کے بارہ میں کیے گئے تھے، پیرزادہ خواجہ محمد عبد اللہ سلمہ اللہ تعالیٰ کی طرف صادر فرمایا ہے۔

بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

حمد وصلوٰۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد مخدوم زادہ کی خدمت میں عرض کرتا ہے کہ آپ کا صحیفہ شریفہ پہنچا۔ اس کے مطالعہ سے بڑی خوشی ہوئی ۔ نسبت حضور کے شمول اور غلبہ کے بارے میں لکھا ہوا تھا۔ نیک و مبارک ہے۔ یہ دولت جو آپ کو تین مہینوں میں میسر ہوئی ہے۔ دوسرے سلسلوں میں اگر دس سالوں میں بھی میسر ہو جائے تو بڑی نعمت گنتے ہیں اور امر عظیم تصور کرتے ہیں۔ اس قسم کے احوال کی تعریف و تحسین کرنے سے عجب و تکبر کے پیدا ہونے کا گمان نہیں ہے ۔ اس لیے اس نعمت کا اظہار کیا گیا ۔ لَئِن شَكَرُ تُم لَا زِيدَنَّكُمْ (اگر تم شکر کرو گے تو تم کو زیادہ نعمت دوں گا ) نص قاطع ہے۔ آپ نے لکھا تھا کہ پیش گاہ توحید کا ظہور شروع ہو گیا ہے۔

یہ دولت بھی مبارک ہو ۔ ادب کے ساتھ اس واردہ کو قبول کریں لیکن اس حال کے غلبہ میں آداب شرعی کو بخوبی مد نظر رکھیں اور بندگی کے حقوق کو کما حقہ بجالائیں۔ جاننا چاہئے کہ یہ شعبدہ صدق و صحت کی تقدیر پر محبوب کی محبت کے غلبہ کے باعث ہے کہ صحت جو کچھ دیکھتا اور جانتا ہے، محبوب کے سوا نہ کچھ دیکھتا ہے۔ نہ جانتا ہے اور جو لذت و ذوق حاصل کرتا ہے، اس کو محبوب کی طرف منسوب کرتا ہے۔ اس صورت میں کثرت وحدت کے طور پر صحت کا مشہور ہوتی ہے۔ پس فنا اس مقام میں متحق نہیں ہوتا۔

کیونکہ فنا میں واحد کے مشاہدہ کے غلبہ کے باعث کثرت کا مشاہدہ بالکل رفع ہوتا ہے۔ کثرت ممکنات کے اس عدم شہود کو بھی فنا کہتے ہیں گرفتا کی کی حقیقت اس وقت متحقق ہوتی ہے جب کہ اسماء وصفات وشیون و اعتبارات کی کثرت بھی سب کی سب نظر سے مخفی ہو جائے اور ذات مجردہ کی احدیت کے سوا کچھ لوظ و منظور نہ ہو ۔ سیر الی اللہ کے تمام ہونے کی حقیقت اس جگہ جلوہ گر ہوتی ہے اور ظلال کی گرفتاری سے پوری پوری خلاصی اس مقام میں حاصل ہوتی ہے۔ اس وقت معاملہ اصل اصول سے پڑتا ہے اور دال سے مدلول تک پہنچ جاتا ہے اور علم سے عین تک اور گوش سے آغوش تک عروج حاصل ہوتا اور وصل عریانی محقق ہوتا ہے۔

اس کے آگے وہ مقام ہے جس کو کسی رمز واشارہ سے بیان نہیں کر سکتے بلکہ سراسر مہم اور سر مکتوم ہے۔ اس مقام کی نسبت لب نہیں ہلا سکتے ۔ حضرت مخدوم زادہ ہم سے اس عین الیقین کا بیان طلب کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ عین الیقین علم میں سا سکے، مشکل کام ہے۔ فقیر کیا کرے اور کیا کہیے اور کس طرح آپ کو سمجھائے ۔ امید ہے کہ مخدوم زادہ مہربانی سے معذور فرمائیں گے اور طالب علم سے طلب حال کی طرف میلان کریں گے۔ دونوں سوال جو مخدوم زادہ نے کیے ہیں، بلند فطرتی کی خبر دیتے ہیں۔


ایک سوال تو خاص طرز پر عین الیقین کے بارہ میں تھا جو گزر چکا۔ دوسرا سوال متشابہات قرآنی کی تاویل کے بیان میں تھا جن کا علم علماء راسخین کے نصیب ہے۔ دوسرے سوال کا جواب پہلے سوال کے جواب سے بھی زیادہ دقیق اور پوشیدہ اور چھپانے کے لائق اور ظہور و اظہار کے منافی ہے۔ تاویل متشابہات کا علم ان معاملات سے مراد ہے جو پیغمبروں کے ساتھ مخصوص ہے۔ امتوں میں سے بہت ہی کم کسی کو تبعیت و وراثت کے طور پر اس علم کا حصہ بخشتے ہیں اور اس جہان میں ان کے جمال کا برقعہ ان پر کھولتے ہیں مگر امید ہے کہ عالم آخرت میں امتوں سے بکثرت لوگ تبعیت کے طور پر اس دولت سے فائدہ اٹھائیں گے ۔

اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ ممکن ہے کہ اس جہان میں بھی ان اقل اور بعض کے سوا اوروں کو بھی اس دولت سے مشرف فرمائیں لیکن معاملہ کی حقیقت کا علم نہ دیں اور تاویل کو منکشف نہ کریں ۔ غرض جائز ہے کہ متشابہات کی تاویل بعض کو حاصل ہو لیکن نہ جانے کہ کیا حاصل ہے کیونکہ متشابہات معاملات سے مراد ہیں تو روا ہے کہ معاملہ حاصل ہو اور اس کا عمل میسر نہ ہو۔

یہ بات میں نے اپنے متبعین اور متعلقین میں سے ایک فرد میں مشاہدہ کی ہے۔ پھر دوسروں کا کیا حال ہے ۔ آپ کے سوال نے اس معاملہ سے امید وار کر دیا ہے ۔ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْلَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلَّ شَيْءٍ قَدِيرُ یا اللہ ہمارے نور کو پورا کر اور ہم کو بخش تو سب چیزوں پر قادر ہے۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا