مکتوب 34
ایک عریضہ کے جواب میں جو تو ارد احوال کی نسبت لکھا ہوا تھا۔ نور محمد تہاری کی طرف صادر فرمایا ہے۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ ( اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔ )
آپ کا مکتوب شریف پہنچا۔ تو اردا حوال کا مضمون واضح ہوا۔ جاننا چاہئے کہ جس طرح حق تعالٰی عالم میں داخل نہیں ہے۔ اس سے خارج بھی نہیں اور جس طرح عالم سے منفصل نہیں ہے۔ اس کے ساتھ متصل بھی نہیں ۔ حق تعالیٰ ہے مگر یہ دخول و خروج و اتصال و انفعال کی سب صفتیں اس سے مسلوب ہیں۔ حق تعالیٰ کو ان چار یوں صفات سے خالی ڈھونڈھنا چاہئے اور ان صفات سے باہر اس کو تلاش کرنا چاہئے ۔
اگر ان صفات میں سے کسی صفت کا رنگ مل جائے تو ظلال و مثال کی گرفتاری حاصل ہے بلکہ حق تعالیٰ کو بیچونی اور بچگونگی کی صفت سے جس میں ظلیت کی گرد نہیں ۔ طلب کرنا چاہئے اور اس مرتبہ کے ساتھ پیچونی اتصال پیدا کرنا چاہئے ۔ یہ دولت صحبت کا نتیجہ ہے۔ کہنے اور لکھنے میں نہیں آسکتی اور اگر لکھی جائے تو کون اس کو سمجھے گا اور کون اس کو پائے گا۔ آپ اپنے کام میں سرگرم رہیں اور ملاقات کے وقت تک کیفیات احوال کو لکھتے رہیں ۔
والسلام