113

مکتوب 30 : شہود آفاقی اور انفسی اور شہود انفسی اور تجلی صوری کے درمیان تفرقہ کے بیان میں


مکتوب (30)

شہود آفاقی اور انفسی اور شہود انفسی اور تجلی صوری کے درمیان تفرقہ کے بیان میں اور مقام عبدیت کی شان کی بلندی میں اور اس مقام کے علوم کو شرعی علوم کے ساتھ مطابق کرنے اور اس کے مناسب بیان میں محمد صدیق جو اس درگاہ کے قدیم خدمت گاروں میں سے ہیں کہا کرتے تھے کہ یہ مکتوب بھی شیخ نظام تھانیسری کی طرف صادر ہوا ہے۔


شَرَّفَكُمُ اللهُ سُبْحَانَهُ بِكَمَالِ الْاتَبَاعِ الْمُحَمَّدِي وَزَيَّنكُمْ بِالزِّيِّ السَّرِنَ الْمُصْطَفُوِيَ عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ مِنَ الصَّلَواتِ اَفْضَلُهَا وَمِنَ التَّحِيَّاتِ اَكْمَلُها

حق تعالیٰ آپ کو کمال اتباع محمدی سے مشرف کرے اور روشن لباس مصطفوی سے آراستہ کرے ۔ میں نہیں جانتا کیا لکھوں ۔ اگر اپنے مولائے کریم کی پاک بارگاہ کی نسبت کوئی بات زبان پر لاؤں تو محض کذب و افترا ہوگا۔ اس کی اعلیٰ بارگاہ اس سے بہت بلند ہے کہ مجھ جیسے بیہودہ گو کی زبان سے اس کی تعریف ہو سکے۔ بھلا چون بچون کی نسبت کیا بیان کرے اور محدث قدیم سے کیا ڈھونڈے اور مکانی لا مکانی میں کب تک دوڑے۔ وہ بیچارا اپنے باہر سے زیادہ کچھ نہیں رکھتا اور اپنے ماورائے میں گزر نہیں رکھتا۔

ذره گر بس نیک در بس بد بود گرچہ عمرے تک زند درخود بود

ترجمہ: ذرہ ہو گر نیک یا ہو گر برا عمر بھر دوڑے وہیں ہو گا پڑا

یہ معنی سیر انفسی میں بھی حاصل ہیں جو کام کی نہایت میں میسر ہوتا ہے۔
حضرت خواجہ بزرگ خواجہ نقشبند یہ قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ اہل اللہ فنا و بقا کے بعد جو کچھ دیکھتے ہیں اپنے آپ میں دیکھتے ہیں اور جو کچھ پہچانتے ہیں اپنے آپ میں پہچانتے ہیں اور ان کی حیرت اپنے وجود میں ہے ۔ وَفِي أَنْفُسَكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ۔


اس سے پہلے کی جو سیر وہ ہے سیر آفاقی میں داخل ہے جس کا حاصل بے حاصلی ہے۔ بے حاصلی کا لفظ اصل مطلب کے حاصل ہونے کی نسبت اطلاق کیا گیا ہے ورنہ وہ بھی منجملہ شرائط اور اسباب کے ہے۔

شہود انفسی سے کوئی شخص وہم میں نہ پڑ جائے اور اس کو قبلی صوری کے شہود کی طرح جو متجلی لہ کے نفس میں ہے خیال نہ کرے ہرگز ایسا نہیں ہے بجلی صوری جس قسم کی ہو سیر آفاقی میں داخل ہے

اور مرتبہ علم الیقین میں حاصل ہے اور شہود نفسی مرتبہ حق الیقین میں ہے جو مراتب کمال کا نہایت ہے اور شہود کا لفظ اس مقام میں میدان عبارت کی تنگی کے باعث بولا گیا ہے ورنہ جیسا کہ ان کا مطلب بیچوں و بچگون ہے اس مطلب کے ساتھ ان کی نسبت بھی بے شبہ و بے مانند ہے۔ چون کو بچون کی طرف راہ نہیں ہے۔
اتصالے بے تکلیف بے قیاس ہست رب الناس را با جان ناس
ایک گفتم ناس انسناس نہ ناس غیر از جان جاں اشناس نه

ترجمہ : ہے خدا کو اپنے بندوں سے اک ایسا اتصال

جس کی کیفیت کا پانا اور سمجھنا ہے محال

ذکر ہے یاں ناس کا نسناس کا ہرگز نہیں

ناس جز از عارف کامل نہیں ہوتا کہیں

اور شہود انفسی اور شہود صوری مذکور کے باہم متحد ہونے کے وہم کا منشا دونوں مقاموں بقائے شخص کا حاصل ہونا ہے کیونکہ تجلی صوری فنا کرنے والی نہیں ہے۔ اگر چہ قیود میں سے تھوڑی سی قید رفع کر دیتی ہے لیکن فنا کی حد تک نہیں پہنچاتی ۔ پس بقیہ وجود سالک کا اس تجلی میں حاصل ہے اور سیر انفسی خود پوری پوری فنا اور کامل بقاء کے بعد ہے پس اسی واسطے معرفت کی کمی کے باعث ان دونوں بقاء کے درمیان فرق نہیں کر سکتے اور ناچار اتحاد کا لگاتے ہیں ۔ اگر معلوم کریں کہ بقائے ثانی ان کے نزدیک بقاء باللہ سے تعبیر کی گئی ہے اور اس وجود کو وجودموہوب حقانی یعنی خدا بخشا ہوا وجود کہتے ہیں تو شاید اس وہم سے خلاص ہو جائیں۔

اس مضمون سے کوئی یہ نہ کہے کہ بقا باللہ اپنے آپ کو حق تعالیٰ کا عین معلوم کرنے سے مراد ہے۔ ایسا نہیں ہے اگر یہ مضمون اس قوم کی بعض عبارات میں مفہوم ہو بھی تو اس کا ہم جواب کہتے ہیں کہ یہ بقا جذ بہ کے مقام میں بعض کو اس استغراق و نیتی کے بعد جو فنا کے مشابہ ہے حاصل ہوتی ہے اور مشائخ نقشبندیہ قدس سرہم اسے وجود عدم سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ فنا سے پہلے ہے اور اس کے لئے زوال متصور ہے بلکہ واقع ہے کبھی اس سے اس کو لے لیتے ہیں اور کبھی پھر دے دیتے ہیں اور وہ بقاء جو فنائے کامل کے بعد ہے زوال وخلل سے محفوظ ہے ان بزرگواروں کی فنا دائمی فنا ہے۔ عین بقاء میں فانی اور عین فنا میں باقی ہیں اور فنا و بقا جوز وال پذیر ہیں۔ احوال جو تکونیات میں سے ہیں اور جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ ایسے نہیں۔


حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ وجود عدم وجود بشریت میں عود کر آتا ہے لیکن وجو دفتا وجود بشریت میں عود نہیں کرتا۔ پس بالضرور ان کا وقت دائمی ہوگا اور ان کا حال مدامی ۔ بلکہ ان کے لئے نہ تو کوئی وقت ہے نہ حال۔ ان کا کار وقتوں کے پیدا کرنے والے کے ساتھ ہے اور ان کا معاملہ احوال کے پھیرنے والے کے ساتھ ۔ پس زوال کا قبول کرنا وقت و حال سے مخصوص ہے اور وہ جو وقت و حال سے گزر جائے ۔ وہ زوال سے محفوظ ہے ۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَ اللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (یہ اللہ تعالی کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے بخشتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے ) کوئی شخص گمان نہ کرے کہ وقت کا دوام اس کے اثر از قسم تعین و غیر ہ کے باقی رہنے کے اعتبار سے بیان کیا ہے۔ نہیں بلکہ دوام میں وقت کے لئے ہے اور ہمیشگی نفس حال کے لئے اور ظن سے حق بات کوئی ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ بعض ظن گناہ ہے۔ مضمون بہت لمبا ہو گیا۔


اب ہم اصل بات کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب حق تعالیٰ کی پاک درگاہ کے میدان میں سخن کی مجال نہیں ہے تو پھر ہم اپنی بندگی کے مقام اور ذلت و عاجزی کی نسبت گفتگو کرتے ہیں۔ انسانی پیدائش سے مقصود وظائف بندگی کا آدا کرنا ہے اور اگرا ابتدا ء اور وسط میں کسی کو عشق و محبت دیا جائے تو اس سے مقصود ما سوائے اللہ سے اس کا قطع تعلق کرنا ہے کیونکہ عشق و محبت بھی ذاتی مقصود نہیں ہیں بلکہ مقام عبودیت کے حاصل ہونے کا ذریعہ ہیں ۔ انسان خدا تعالی کا بندہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ ما سوئے اللہ کی گرفتاری اور بندگی سے پورے طور پر خلاصی پا جائے اور عشق و محبت صرف اس انقطاع کا وسیلہ ہیں۔ اسی واسطے مراتب ولایت میں سے نہایت کا مرتبہ مقام عبدیت ہے اور ولایت کے درجوں میں مقام عبدیت سے اوپر کوئی مقام نہیں ۔ اس مقام میں بندہ اپنے مولا کے ساتھ اپنے لئے کوئی نسبت نہیں پاتا۔ مگر بندے کی طرف سے احتیاج اور مولا کی طرف سے آرزوئے ذات وصفات کے پوری پوری استغنا۔ یہ نہیں کہ اپنے آپ کو اس کی ذات کے ساتھ اور اپنی صفات کو اس کی صفات کے ساتھ اور اپنے افعال کو اس کے افعال کے ساتھ کسی وجہ سے مناسب جانے ۔ ظلیت کا اطلاق بھی منجملہ مناسبات سے ہے اس سے بھی پاک و منزہ بتلاتے ہیں اور حق تعالیٰ کو خالق اور اپنے آپ کو مخلوق جانتے ہیں اس سے زیادہ کہنے کی کچھ جرات نہیں کرتے ۔

تو حید فعلی جو بعض بزرگواروں کو اثنائے راہ میں حاصل ہوتی ہے اور حق تعالیٰ کے سوا کسی کو فاعل نہیں پاتے ۔ یہ بزرگوار یعنی نقشبند یہ قدس سرہم جانتے ہیں کہ ان افعال کا پیدا کرنے والا واحد حق تعالیٰ ہے نہ کہ ان افعال کا اختیار کرنے والا کیونکہ یہ بات خود نزدیک ہے کہ زندقہ اور الحاد تک پہنچا دیتی ہے۔


اس مضمون کو اس مثال سے واضح کرتے ہیں۔ مثلا کوئی شعبدہ باز پردے کے پیچھے بیٹھ کر

چند جمالی صورتوں کو حرکت میں لاتا ہے اور عجیب و غریب افعال ان میں ایجاد کرتا ہے تو وہ لوگ جو تیز نظر والے ہیں جانتے ہیں کہ ان جمالی صورتوں میں ان افعال کا بنانے والا وہ پردہ نشین شخص ہے لیکن افعال کو اختیار کرنے والی وہی صورتیں ہیں اسی واسطے کہتے ہیں کہ صورت متحرک ہے اور یہ نہیں کہتے کہ شعبدہ باز متحرک ہے۔

یہ لوگ در حقیقت اس حکم میں حق کو ظاہر کرنے والے ہیں اور سچے ہیں (یعنی مشائخ نقشبندیہ اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی شرائع بھی اس حکم پر ناطق ہیں اور وحدت فعل کے ساتھ حکم کرنا سکریات کی قسم سے ہے۔ بلکہ صریح حق یہی ہے کہ فاعل بیشمار ہیں اور افعال کا خالق ایک ہی ہے اور ایسی ہی وہ کلام ہے جو بعض صوفیہ نے تو حید وجودی میں کہی ہے۔ وہ بھی سکر وقت اور غلبہ حال پر مبنی ہے۔ علوم لدنی کے درست اور صحیح ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ علوم شرعی کے صریح مطابق ہوں ۔ اگر بال بھر بھی تجاوز ہو تو وہ سکر سے ہے اور حق وہی ہے جو علمائے اہل سنت و جماعت نے تحقیق کیا ہے اور اس کے سوازندقہ یا الحاد یا سکر وقت یا غلبہ حال اور یہ تمام مطابقت مقام عبدیت میں میسر ہے اس کے ماسوائے میں ایک قسم کا سکر ثابت ہے۔

گر بگویم شرح ایس بیحد شود
ترجمہ :ع شرح اس کی گرلکھوں بیحد ہو

کسی شخص نے حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ سے سوال کیا کہ سلوک سے مقصود کیا ہے۔ آپ نے فرمایا یہ کہ اجمالی معرفت تفصیلی ہو جائے اور استدلالی کشفی سے بدل جائے اور یہ نہ فرمایا کہ معارف شرعیہ سے زیادہ کوئی اور معرفت حاصل کی جائے ۔ ہاں رستہ میں علوم شرعی سے زیادہ بعض امور پیدا ہوتے ہیں لیکن اگر نہایت کار تک پہنچ جائیں تو وہ امور زائدہ پراگندہ ہو کر دور ہو جاتے ہیں اور وہی معارف شرعیہ مفصل طور پر معلوم ہوتے ہیں اور استدلال کی تنگی سے کشف کے ظاہر میدان میں آجاتے ہیں۔ یعنی جس طرح نبی صلى الله عليه وسلم ان علوم کو بذریعہ وحدی اخذ کرتے تھے۔ یہ بزرگوار الہام کے طور پر ان علوم کو اصل یعنی حق تعالیٰ سے اخذ کرتے ہیں ۔ علماء نے ان علوم کو شرائع سے اخذ کر کے اجمال کے طریق پر بیان کیا ہے۔ یہ علوم جس طرح انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو تفصیلی اور کشفی طور پر حاصل تھے ان کو بھی اس طرح پر حاصل ہوتے ہیں۔ فرق درمیان میں صرف اصالت اور تبعیت کا ہے۔


اس قسم کے کمال کیلئے اولیاء میں سے بعض کو دور دراز قرنوں اور زمانوں کے بعد منتخب
فرماتے ہیں۔

ارادہ تو تھا کہ اجمالی استدلالی کے ایک مسئلہ کو مفصل لکھوں لیکن کاغذ نے کوتاہی کی۔ شاید اس میں خدائے تعالٰی کی حکمت ہوگی ۔ والسلام

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا