مکتوب 30
ایک خط اور دوسوالوں کے جواب میں جن میں سے ایک نسبت رابطہ کی ورزش کی نسبت اور دوسر افتور مشغولی کے بارہ میں کیا گیا تھا، خواجہ محمد اشرف اور حاجی محمد فرکتی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامُ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ ( اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو )
صحیفه شریف جو دونوں معزز بھائیوں نے ارسال کیا تھا، پہنچا اور کیفیات احوال جو اس میں درج تھیں، واضح ہوئیں۔
خواجہ محمد اشرف نے لکھا تھا کہ نسبت رابطہ کی ورزش یہاں تک غالب ہوگئی ہے کہ نمازوں میں اس کو اپنا مسجود جانتا اور دیکھتا ہے اور اگر بالفرض اس کو دور کرنا بھی چاہوں تو نہیں ہوسکتا۔ اے محبت کے نشان والے ، طالب اسی دولت کی تمنا کرتے ہیں اور ہزاروں میں سے ایک کو ملتی ہے۔ ایسے حال والا شخص کامل مناسبت کی استعداد رکھتا ہے اور شیخ مقتدا کی تھوڑی صحبت سے اس کے تمام کمالات کو جذب کر لیتا ہے۔ رابطہ کی نفی کیوں کرتے ہیں رابطہ مسجودالیہ ہے نہ میجودلہ، محرابوں اور مسجدوں کی نفی کیوں نہیں کرتے ۔
اس قسم کی دولت سعادت مندوں کو میسر ہوتی ہے تا کہ تمام احوال میں صاحب رابطہ کو اپنا وسیلہ جانیں اور تمام اوقات اسی کی طرف متوجہ رہیں ۔ نہ ان بد بخت لوگوں کی طرح جو اپنے آپ کو مستغنی جانتے ہیں اور توجہ کے قبلہ کو اپنے شیخ کی طرف سے پھیر لیتے ہیں اور اپنے معاملہ کو درہم برہم کر لیتے ہیں۔ دیگر یہ کہ آپ نے اپنے فرزندوں کی والدہ کے فوت ہونے کی خب لکھی تھی ۔ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھ کر فاتحہ کیا اور پڑھنے کے وقت قبولیت کا اثر مفہوم ہوا ۔ مولانا حاجی محمد نے ظاہر کیا تھا کہ تقریباً دو ماہ گزرے ہوں گے کہ مشغولی میں فتور پڑا ہوا ہے اور وہ ذوق وحلاوت جو پہلے حاصل تھی ، اب نہیں رہی۔ اے میرے دوست، اگر دو چیزوں میں فتور نہیں آیا تو کچھ غم نہیں ۔ ان میں سے ایک صاحب شریعت علیہ الصلوۃ والسلام کی متابعت ہے۔
دوسرے اپنے شیخ کی محبت و اخلاص ان دو چیزوں کے ہوتے۔ اگر ہزار باظلمات طاری ہو جا ئیں تو کچھ کم نہیں۔ آخر اس کو ضائع نہ چھوڑیں گے اور اگر نعوذ باللہ ان چیزوں میں سے ایک میں نقصان پیدا ہو جائے تو پھر خرابی ہی خرابی ہے۔ اگر چه حضور و جمعیت سے رہیں کیونکہ یہ استدراج ہے جس کا انجام خراب ہے۔ بڑی عاجزی اور زاری کے ساتھ حق تعالیٰ سے دعا مانگتے رہیں کہ ان دو امروں پر ثبات و استقامت عطا فرمائے کیونکہ یہی دونوں اصل مقصود اور نجات کا مدار ہیں۔ آپ کو اور تمام دوستوں کو اور خاص کر ہمارے پرانے دوست مولا نا عبدالغفور سمر قندی کو سلام پہنچے۔