151

مکتوب 29: فرضوں کے ادا کرنے اور سنتوں اور مستحبوں کی رعایت کرنے کی ترغیب اور فرضوں کے مقابلہ میں نفلوں کے ادا کرنے کی پرواہ نہ کرنے کے بیان میں


مکتوب (29)

فرضوں کے ادا کرنے اور سنتوں اور مستحبوں کی رعایت کرنے کی ترغیب اور فرضوں کے مقابلہ میں نفلوں کے ادا کرنے کی پرواہ نہ کرنے کے بیان میں اور آدھی رات کے بعد نماز خفتن کو ادا کرنے سے منع کرنے اور وضو کے مستعمل پانی پینے کو جائز سمجھنے سے روکنے اور مریدوں کو سجدہ کرنے کے جائز جاننے سے منع کرنے کے بیان میں شیخ نظام تھانیسری کی طرف صادر فرمایاہے۔


عَصَمَنَا اللهُ سُبْحَانَهُ وَإِيَّاكُمْ عَنِ التَّعَصُّبِ وَالتَّعَسُّفِ وَنَجْنَا وَإِيَّاكُمْ عَنِ التَّلَهُفِ وَالتَّاسف بِحُرُمَتِ سَيّدِ الْبَشَرِ الْمَنْفِى عَنْهُ زَيْعُ الْبَصْرِ عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ مِنَ الصَّلوتِ اَتَمُهَا وَمِنَ التَّسْلِيمَاتِ اَكْمَلُهَا .

حق تعالٰی ہم کو اور آپ کو تعصب اور کج روی سے بچائے اور افسوس واندوہ سے نجات دے۔ بحرمت سید البشر کے جو کجی چشم سے پاک و شفاف ہیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔

اعمال مقر بہ یعنی وہ عمل جن سے درگاہ الہی میں قرب حاصل ہوتا ہے۔ فرض ہیں یا نفل فرضوں کے مقابلہ میں نفلوں کا کچھ اعتبار نہیں ۔ فرضوں میں سے ایک فرض کا ادا کرنا۔ ہزار سالہ نفلوں کے ادا کرنے سے بہتر ہے۔ اگرچہ وہ نفل خالص نیت سے آدا کئے جائیں اور خواہ وہ نفل از قسم نماز و روزه و ذکر وفکر وغیرہ وغیرہ ہوں بلکہ ہم کہتے ہیں کہ فرائض کے ادا کرنے کے وقت سنتوں میں سے کسی سنت اور مستحبات میں سے کسی مستحب کی رعایت کرنا یہی حکم رکھتا ہے۔

منقول ہے کہ ایک دن امیر المومنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے صبح کی نماز جماعت سے ادا کی۔ نماز سے فارغ ہو کر آدمیوں میں نگاہ کی۔ اپنے یاروں میں سے ایک شخص کو اس وقت موجود نہ دیکھا۔ فرمایا کہ فلاں شخص جماعت میں حاضر نہیں ہوا۔ حاضرین نے عرض کی کہ وہ رات کو اکثر جاگتا رہتا ہے۔ شاید اس وقت سو گیا ہوگا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تمام رات سویا رہتا اور صبح کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرتا تو اس کے لئے بہتر ہوتا۔ پس مستحب کی رعایت کرنا اور مکروہ سے بچنا اگرچہ تنزیہی ہو ذکر اور فکر اور مراقبہ اور توجہ سے کئی درجے بہتر ہے ۔ پھر مکروہ تحریمی کا کیا ذکر ہے۔ ہاں اگر رعایت اور اجتناب کے ساتھ یہ امور جمع ہوں ۔ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِيماً ، بڑی کامیابی ہے۔ وَبِدُونِهِ خَرْطُ الْقِتَادِ ورنہ بے فائدہ رنج ہے۔

مثلا زکوۃ کے طور پر ایک دانگ کا صدقہ کرنا، جس طرح کہ نفلی طور پر سونے کے پہاڑ صدقہ کرنے سے کئی درجہ بہتر ہے۔ ویسے ہی اس دانگ کے صدقہ کرنے میں کسی ادب کا رعایت کرنا مثلا اس کو کسی قریبی محتاج کو دینا بھی اس سے کئی درجے بہتر ہے۔


پس نماز خفتن کو آدھی رات کے بعد آدا کرنا اور اس تاخیر کو قیام لیل یعنی نماز تہجد کی تاکید کا وسیلہ بنانا بہت بُرا ہے۔ ظاہراََ اس کراہت سے ان کی مراد کراہت تحریمہ ہے کیونکہ نماز خفن کا ادا کرنا آدھی رات تک ان کے نزدیک مباح ہے اور نصف رات کے بعد مکر وہ پس وہ مکروہ جو مباح کے مقابل ہے مکروہ تحریمی ہی ہے اور شافعیہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک نماز خفتن کا اس وقت ادا کرنا جائز ہی نہیں۔ پس قیام لیل یعنی تہجد اور اس میں ذوق و جمعیت کے حاصل ہونے کے لئے اس امر کا مرتب ہونا بہت برا ہے۔ اس غرض کے لئے وتر کے ادا کرنے میں تاخیر کرنا بھی کافی ہے اور یہ تاخیر بھی مستحب ہے۔ وتر بھی اچھے وقت میں ادا ہو جاتے ہیں اور تہجد اور صبح کے وقت جاگنے کی غرض بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ پس اس عمل کو ترک کر دینا چاہئے اور گزشتہ نمازوں کو پھر ادا کرنا چاہئے۔


امام اعظم کوفی رضی اللہ عنہ نے وضو کے آداب میں سے ایک ادب کے ترک ہونے کے باعث اپنی چالیس سال کی نمازوں کو قضا فر مایا۔

اور نیز مستعمل پانی جس سے حدث اور ناپاکی کو دور کیا ہو یا اس کو قربت یعنی عبادت وثواب کی نیت سے استعمال کیا ہو ۔ وضو کے وقت مناسب نہ سمجھیں کہ لوگ اس کو پیئیں کیونکہ وہ پانی امام اعظم رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک نجس مغلظ ہے اور فقہاء نے اس پانی کے پینے سے منع کیا ہے اور اس کا پینا مکروہ لکھا ہے۔ ہاں وضو کے باقی ماندہ پانی کا پینا شفا فر مایا ہے۔ اگر کوئی از روئے اعتقاد کے طلب کرے تو اس کو وہ پانی دے دیں۔

اس فقیر کے لئے دہلی میں اب کی دفعہ اس قسم کا امتحان واقع ہوا تھا۔ بعض یاروں کو واقع میں ایسا ظاہر ہوا تھا کہ فقیر کے وضو کے مستعمل پانی کو پئیں ورنہ بڑا ضرر لاحق ہوگا۔ بہتیرا منع کیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ آخر کار فقہاء کی کتابوں کی طرف رجوع کیا اور نجات کا سبب مل گیا کہ اگر تین دفعہ غسل کرنے کے بعد ثواب و عبادت کی نیت نہ کریں تو چوتھی مرتبہ پانی مستعمل نہیں ہوتا۔ یہ حیلہ تجویز کر کے ثواب کی نیت کے بغیر چوتھے غسل کے پانی کو پینے کے لئے دیا۔


اور نیز معتبر آدمیوں نے بیان کیا ہے کہ آپ کے بعض خلفاء کو ان کے مرید سجدہ کرتے ہیں

اور زمین بوسی پر بھی کفایت نہیں کرتے۔ اس فعل کی برائی آفتاب سے زیادہ ظاہر ہے۔ ان کو منع کریں اور بڑی تاکید کریں کہ اس قسم کے فعلوں سے بچنا ہر ایک آدمی کے لئے ضروری ہے خاص کر اس شخص کے لئے جو خلق کا مقتد او پیشوا بنا ہوا ہو۔


اس قسم کے افعال سے پر ہیز کرنا نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ اس کے پیرو اور تابعدار اس کے فعلوں کی اقتداء کریں گے اور بلا و مصیبت میں پڑ جائیں گے۔


اور نیز اس گروہ کے علوم احوال کے علوم ہیں اور احوال اعمال کے نتیجے اور ثمرے ہیں اور احوال کے علوم سے اس شخص کو ورثہ ملتی ہے جس نے اعمال کو درست کیا ہو اور ان کے اچھی طرح ادا کرنے پر قائم ہو اور اعمال کا صحیح اور درست طریق پر ادا کرنا اس وقت میسر ہوتا ہے جبکہ اعمال کو پہنچانے اور ہر عمل کی کیفیت کو جانے اور وہ احکام شرعی مثلا نماز ، روزہ و باقی فرائض اور معاملات اور نکاح و طلاق و بیع و شری اور ہر ایک اس چیز کا علم ہے جو حق تعالیٰ نے اس پر واجب کیا ہے اور اس کی طرف اس کو دعوت فرمایا ہے اور یہ علوم کسبی ہیں ان کے سیکھنے سے کسی کو چارہ نہیں ہے۔

اور علم دو مجاہدوں کے درمیان ہے۔ ایک وہ مجاہدہ جو علم کے حاصل ہونے سے پہلے اس کی طلب میں ہوتا ہے دوسرا وہ مجاہدہ جو علم حاصل ہونے کے بعد اس کے استعمال میں ہوتا ہے۔ پس چاہئے کہ جس طرح آپ کی مجلس مبارک میں کتب تصوف کا ذکر ہوتا رہتا ہے اسی طرح فقہ کی کتابوں کا بھی ذکر ہونا چاہئے اور فقہ کی کتابیں فارسی میں بہت ہیں۔ مثلاً مجموعہ خانی و عمدۃ الاسلام اور کنز فارسی ۔ بلکہ کتب تصوف اگر نہ بھی مذکور ہوں تو کچھ خوف نہیں کیونکہ وہ احوال سے تعلق رکھتی ہیں اور قال میں نہیں آتیں اور کتب فقہ کے مذکور نہ ہونے میں ضرر کا احتمال ہے۔ زیادہ کیا طول کلامی کی جائے ۔ الْقَلِيلُ يَدُلُّ عَلَى الْكَثِيرِ تھوڑا بہت پر دلالت کرتا ہے ۔

اند کے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم
که دل آزرده شوی در نه بخن بسیار است

ترجمہ: غم دل اس لئے تھوڑا کہا ہے اے میرے مشفق
کہ آزردہ نہ ہو جائے بہت سن سن کے دل تیرا


رَزَقَنَا اللهُ سُبْحَانَهُ وَإِيَّاكُمْ كَمَالَ إِتَّبَاعِ حَبِيبِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ الصَّلَواتُ وَالتَّسْلِيمَاتُ۔

اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو اپنے حبیب صلى الله عليه وسلم کی کمال متابعت عطا فرما دے۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا