121

مکتوب 28: چند استفساروں کے جواب میں مولانامحمد صادق کشمیری کی طرف صادر فرمایا ہے


مکتوب 28

چند استفساروں کے جواب میں مولانامحمد صادق کشمیری کی طرف صادر فرمایا ہے۔

حمد وصلوٰۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد واضح ہو کہ آپ کا مکتوب شریف پہنچا۔ چونکہ اس میں پسندیدہ احوال لکھے تھے ، اس لیے بڑی خوشی کا موجب ہوا ۔

آپ نے لکھا تھا کہ ورائیت میں معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ صفات کو حق تعالیٰ پر بڑی تکلف سے حمل کرتا ہے اور حق تعالیٰ کو وراء الوراء جانتا ہے۔ آپ کوشش کریں تا کہ یہ حمل کرنا تکلف سے بھی میسر نہ ہو اور صرف حیرت تک معاملہ پہنچ جائے ۔ آپ نے دریافت فرمایا تھا کہ رشحات میں باباء آبریز کی نسبت منقول ہے کہ اس نے کہا ہے کہ جب حق تعالیٰ نے روز اول میں آدم علیہ الصلوۃ والسلام کی مٹی گوندھی تھی تو میں اس مٹی پر پانی گراتا تھا ، اس کی تاویل کیا ہے۔ آپ کو جاننا چاہئے کہ حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کی ظلیہ خدمات میں جس طرح ملائکہ کرام کو دخل دیا ہوا تھا، شاید اس کی روح کو بھی دخل دیا ہو اور اس کی عصری پیدائش اور اس کے کمال کے بعد اس امر سے اس کو اطلاع دی گئی ہو ۔ جائز ہے کہ حق تعالی ارواح مجردہ کو وہ طاقت و قدرت دے کہ ان سے اجسام کے سے افعال صادر ہوں اور اسی قسم کی ہیں وہ باتیں بھی جو بعض کبراء نے اپنے افعال شاقہ سے خبر دی ہے جو ان سے ان کے وجود عنصری سے کئی قرن پہلے صادر ہوئے تھے۔

وہ افعال ان کے ارواح مجردہ سے صادر ہوئے اور وجود عنصری کے بعد ان کو ان افعال پر اطلاع دی گئی۔ بعض لوگ اس قسم کے افعال صادر ہونے سے تناسخ کے دہم میں پڑ جاتے ہیں۔ حاشد و کلا کہ کسی دوسرے بدن کا اس سے تعلق ہوا ہو۔ روح مجرد ہے جو حق تعالیٰ کی طاقت بخشنے سے بدن کا کام کرتا ہے اور ارباب زی یعنی کجروؤں کو خلاف میں ڈالتا ہے۔ اس مقام میں سخن کی بہت مجال ہے اور بہت سی عجیب و غریب تحقیقات فائض ہوئے ہیں ۔ اگر توفیق شامل حال ہوئی تو کسی جگہ انشاء اللہ لکھی جائیں گی ۔ اب وقت نے مساعدت اور یاوری نہیں کی۔ نیز آپ نے پوچھا تھا کہ رشحات میں لکھا ہے کہ جب خواجہ علاؤ الدین قدس سرہ مولانا نظام الدین خاموش سے رنجیدہ خاطر اور ناراض ہوئے تو چاہا کہ ان سے نسبت کو سلب کر لیں۔ مولانا نے اس وقت آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانیت سے التجا کی اور آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام سے خواجہ قدس سرہ کو خطاب ہوا کہ نظام الدین ہمارا ہے، اس پر کسی کا تصرف نہیں ہوگا اور دوسری جگہ اسی کتاب میں لکھا ہے کہ بڑھاپے میں حضرت خواجہ احرار قدس سرہ نے مولانا سے نسبت کو سلب کر لیا۔ مولانا کہا کرتے تھے کہ خواجہ نے ہم کو بوڑھا جانا ، اس لیے جو کچھ میرے پاس تھا، سب لے گئے اور آخر کار مفلس بنا دیا۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ حضرت رسالت خاتمیت علیہ الصلوۃ والسلام جس شخص کو اپنا کہیں اور فرما ئیں کہ اس پر کسی کو تصرف کی مجال نہیں ۔

اس پر حضرت خواجہ احرار قدس سرہ تصرف کر جائیں۔ جاننا چاہئے کہ ہمارے حضرت خواجہ قدس سرہ اس نقل کو پسند نہ کرتے تھے اور مولانا کی نسبت کے سلب ہونے میں توقف فرماتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مولانا سعد الدین کا شغری جو مولا نا نظام الدین کے مرید ہیں ) کے مریدوں میں سے مولا نا عبد الرحمن اور دوسرے ان کے بے شمار مریدوں میں سے کسی نے اس نقل کو بیان نہیں کیا اور نہ اس کے رد و قبول کا ذکر کیا ہے ۔ معلوم نہیں مولانا فخر الدین علی نے کہاں سے لکھا ہے۔

اگر یہ خبر کچی ہوتی تو تو اتر کے ساتھ نفل ہوتی چلی آتی کیونکہ تو اتر کے طور پر اس کی نقل ہونے کے بہت سے اسباب تھے اور جب تواتر کے ساتھ منقول نہیں اور خبر واحد کے ساتھ قرار پا چکی ہے تو معلوم ہوا کہ اس کے صدق میں تردہ ہے۔ رشحات کی اور اس قسم کی بہت سی نقلیں صدق سے دور ہیں اور اس سلسلہ عالیہ کے لوگ ان نقلوں میں تر دور کھتے ہیں۔ وَهُوَ سُبْحَانَهُ أَعْلَمُ (اللہ تعالی زیادہ جانتا ہے ) اور حضرت خواجہ قدس سرہ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مفلس کرنا سلب ایمان پر دلالت کرتا ہے۔ أَعَاذَنَا اللهُ سُبْحَانَهُ ( اللہ تعالیٰ اس سے بچائے۔ اور یہ بات بہت مشکل ہے ۔ رَبَّنَا لَا تُزِعُ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ یا اللہ ہدایت دے کر تو ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور اپنی جناب سے ہم پر رحمت نازل فرما۔ بے شک تو بہت بخشنے والا ہے۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا