110

مکتوب 27: طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی تعریف اور ان بزرگواروں کی بلندی نسبت کے بیان میں۔


مکتوب (27)

طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی تعریف اور ان بزرگواروں کی بلندی نسبت کے بیان میں۔ خواجہ عمک کی طرف لکھا ہے:


الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفى سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔ آپ کا مبارک نامہ جو از روئے کرم کے اس مخلص کے نام لکھا ہوا تھا۔ اس کے آنے سے فقیر بہت خوش ہوا۔ خدا آپ کو سلامت رکھے۔ فقیر نہیں چاہتا کہ آپ کو تکلیف دے۔ بغیر اس بات کے کہ اس طریقہ علیہ نقشبندیہ کی تعریف کرے۔


میرے مخدوم ! اس سلسلہ علیہ کے بزرگواروں کی عبارتوں میں لکھا ہے کہ ہماری نسبت سب نسبتوں سے بڑھ کر ہے ۔ نسبت سے ان کی مراد حضور و آگاہی ہے اور وہ حضور جوان کے نزدیک معتبر ہے۔ حضور بے غیبت ہے جس کو یادداشت سے تعبیر کرتے ہیں۔


پس ان بزرگواروں کی نسبت سے مراد یادداشت ہے اور یادداشت جو اس فقیر کے فہم قاصر میں قرار پائی ہے۔ اس تفصیل پر مبنی ہے کہ تجلی ذاتی حضرت ذات کے حضور سے مراد ہے۔ جو بے ملاحظه اسماء صفات وشیون و اعتبارات کے ظاہر ہو اور مشائخ نے اس تجلی کو تجلی برقی کہا ہے۔ یعنی تھوڑی دیر کے لئے شیون و اعتبارات رفع ہو جاتے ہیں اور پھر شیون و اعتبارات کے پردے چھا جاتے ہیں ۔ پس اس تقدیر پر حضور بے غیبت متصور نہیں بلکہ تھوڑی دیر حضور ہے اور اکثر اوقات غیبت پس یہ نسبت ان عزیزوں کے نزدیک معتبر نہیں ہے حالانکہ اس تجلی کو دوسرے سلسلوں کے مشائخ نے نہایت النہایت کہا ہے اور جس وقت یہ حضور دائمی ہو جائے اور ہرگز پر دے میں نہ آئے اور ہمیشہ بے پر دہ اسماء وصفات و شیون و اعتبارات کے جلوہ گر ہو تو اس وقت حضور بے غیبت ہوگا ۔ پین ان بزرگواروں کی نسبت کو دوسروں کی نسبت کے ساتھ قیاس کرنا چاہئے اور بے تکلف سب سے برتر جاننا چاہئے اس قسم کا حضور اگر چہ بہت لوگوں کو بعید معلوم ہوتا ہے لیکن ۔


هَيْئًا لِاَرْبَاب النَّعِيمِ نَعِمَهَا
وَلِلْعَاشِقِ الْمِسْكِينِ مَا يَتَجَرَّعُ


ترجمہ: مبارک معموں کو اپنی دولت
مبارک عاشقوں کو در دو کلفت


یہ نسبت علیہ ایسی نادر اور قلیل الوجود ہے کہ اگر بالفرض اسی بزرگ سلسلہ کے مشائخ کے سامنے بیان کی جائے تو گمان ہے کہ ان میں سے اکثر انکار کر دیں اور ہرگز یقین نہ کریں وہ نسبت جو اب اس خانوادہ بزرگ کے مشائخ میں متعارف اور مشہور ہے ۔ مراد ہے حق تعالیٰ کے حضور اور شہود سے اس طرح پر کہ شاہد کی اور مشہودی کے وصف سے پاک ہو اور مراد ہے اس توجہ سے جو جہات ستہ مشہورہ سے خالی ہو۔ اگر چہ فوق کی جہت کا وہم گزرتا ہے اور بظاہر دوام قبول کرتا ہے۔ یہ نسبت صرف مقام جذ بہ میں بھی ثابت ہو جاتی ہے اور اس کی فوقیت کیلئے کوئی وجہ ظاہر نہیں ہے ۔ برخلاف یادداشت سابقہ کے کہ جس کا حاصل ہونا جہت جذ بہ اور مقامات سلوک کے تمام ہونے کے بعد ہے اور اس کے درجہ کی بلندی کسی پر پوشیدہ نہیں ہے اگر پوشیدگی ہے تو صرف اس کے حاصل ہونے میں ہی ہے اگر کوئی حاسد حسد کے باعث انکار کر دے اور ناقص اگر اپنے نقص کی وجہ سے منکر ہو جائے تو معذور ہے .

قاصرے گر کندایں طائفہ راطعن وہ قصور
حاش لله که برارم بزباں ایس گله را

ہمہ شیران جہاں بستہ ایں سلسلہ اند
روبه از حیلہ چہاں بگسلد اس سلسله را

:ترجمہ : گر کوئی قاصر لگائے طعنہ ان کے حال پر
تو بہ تو بہ گر زباں پر لاؤں میں اس کا گلہ

شیر ہیں جکڑے ہوئے اس سلسلے میں سب کے سب
ٹوٹ جائے لومڑی سے کیسے پھر یہ سلسلہ

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا