120

مکتوب 22 : روح و نفس کے درمیانی تعلق اور ان کے نزول و عروج اور فنائے جسدی اور روحی اور ان کے بقاء اور مقام دعوت اور مغلوب الحال درویشوں اور ان لوگوں کے درمیان فرق کے بیان میں


مکتوب (22)

روح و نفس کے درمیانی تعلق اور ان کے نزول و عروج اور فنائے جسدی اور روحی اور ان کے بقاء اور مقام دعوت اور مغلوب الحال درویشوں اور ان لوگوں کے درمیان فرق کے بیان میں جو مقام دعوت کی طرف راجع ہیں۔ شیخ محمد مفتی لاہوری کے بیٹے شیخ عبدالمجید کی طرف لکھا ہے:

پاک اور منزہ ہے وہ ذات جس نے نور کو ظلمت کے ساتھ جمع کیا اور لا مکانی کو جو جہت سے بری ہے مکانی کے ساتھ جو جہت میں ہے ہمقررین کیا اور ظلمت کو نور کی نظر میں محبوب کر دیا۔ پس وہ نور اس پر فریفتہ ہو گیا اور کمال محبت سے اس کے ساتھ مل گیا تا کہ اس تعلق سے اس کی روشنی زیادہ ہو جائے اور ظلمت کی ہمسائیگی سے اس کی صفائی کامل ہو جائے جس طرح کہ آئینہ کو جب صیقل کرنا اور اس کی لطافت کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اس کو مٹی سے آلودہ کرتے ہیں تا کہ مٹی کی ظلمت کی ہمسائیگی سے اس کی صفائی ظاہر ہو جائے اور مٹی کی کثافت کی وجہ سے اس کی روشنی زیادہ ہو جائے۔


پس اس نور نے ظلمانی معشوق کے مشاہدہ میں غرق ہونے اور عصری جسم سے تعلق ہونے کے باعث جو کچھ اس کو پہلے قدسی شہود سے حاصل تھا۔ فراموش کر دیا بلکہ اپنی ذات اور اپنے وجود کے متعلقات سے بھی بے خبر ہو گیا۔ پس وہ اس کی ہم نشینی سے اصحاب مشمئہ یعنی بائیں ہاتھ والوں میں سے ہو گیا اور اس کی صحبت میں اصحاب میمنہ یعنی دائیں ہاتھ والوں کے فضائل کو ضائع کر دیا۔ پس اگر اسی استغراق کے تنگ کو چہ میں پڑا رہا اور اطلاق و آزادی کے میدان میں نہ پہنچا تو اس پر ہزار افسوس ہے کیونکہ اس کے وجود سے جو مقصود تھا۔ حاصل نہ ہوا بلکہ اس کی استعداد کا جو ہر بھی ضائع ہو گیا ۔ فضل ضلالاً بَعِيداً (پس بڑا کمرہ ہو گیا ) اور اگر نیکی کی توفیق اس کو مل گئی اور خدا کی عنایت اس کے شامل حال ہوئی تو اس نے غفلت سے سر کو اٹھایا اور جو کچھ اس سے گم ہوا تھا یاد کیا اور یہ کہتے ہوئے اپنی پہلی حالت کی طرف رجوع کیا ۔



اے امیدم سوئے تو بس عمره و حج من است
حج گومیکر دقوسے جانب خاک وحجر

ترجمہ: اے میری امید میرا حج و عمرہ ہے توئی
مٹی پتھر کی طرف ہے دوسروں کا گرچہ حج


اگر اس کو دوبارہ اپنے قدی مطلوب کے مشاہدہ میں اچھی طرح استغراق حاصل ہو گیا اور بارگاہ مقدس کی طرف پورے طور پر توجہ نصیب ہوگئی تو اس وقت ظلمت اس کے تابع ہو جائے گی اور اس کے انوار کے غلبوں میں مندرج ہو جائے گی ۔ پس جب یہ استغراق اس حد تک پہنچ جائے کہ ظلمانی متعلق کو بالکل بھول جائے اور اپنی ذات اور اپنے وجود کے توابع سے کلی طور پر بے خبر ہو جائے اور مشاہدہ نورالانوار میں فانی ہو جائے اور اس کو پردوں کے پیچھے سے مطلوب کا حضور حاصل ہو جائے تو فنائے جسدی اور روحی سے مشرف ہو جائے گا اور اگر اس مشہور میں فنا حاصل ہونے کے بعد اس کو مشہود میں بقا بھی حاصل ہو گئی تو فنا اور بقا کی دونوں جہتیں اس کو پورے طور پر حاصل ہو گئیں اور اب اسم ولایت کا اطلاق اس پر صحیح ہو گیا۔ پس اس وقت اس کا حال دو امروں سے خالی نہیں ہے یا تو اس کو مشہود میں کلی طور پر استغراق اور دائی استہلاک اور فنا ہو گیا یا خلقت کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کے لئے راجع ہو گا اس طرح پر کہ اس کا باطن اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کا ظاہر خلق کے ساتھ ہوگا اور اس وقت نور اس ظلمت سے جو اس مندرج ہے اور اپنے مطلوب کی طرف متوجہ ہے آزاد ہو جاتا ہے اور اس آزادی کے باعث اصحاب یمین یعنی دائیں ہاتھ والوں سے ہو جاتا ہے اگر چہ حقیقت کے لئے نہ راست ہے نہ چپ۔ لیکن دست راست اس کے حال کے موافق اور اس کے کمال کے مناسب ہے کیونکہ یمن و برکت میں دونوں ہاتھوں کے مشترک ہونے کے باوجود دست راست خیریت کی جہت کا جامع ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی شان میں وارد ہے۔ كُلْتَا يَدَيْدہ یمین (اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہاتھ کی طرح ہیں ) اور وہ ظلمت اس نور سے بندگی اور اطاعت کے مقام میں اتر آتی ہے اور ہماری مراد نور لا مکانی سے روح بلکہ اس کا خلاصہ ہے اور جہت میں مقید ہوئی ۔ ظلمت سے مراد نفس ہے اور ظاہر و باطن سے بھی ہماری مراد یہی ہے۔


اگر کوئی کہے کہ اولیاء، مغلوب الحال کو بھی عالم کے ساتھ شعور اور اس کی طرف توجہ اور اپنے بنی نوع کے ساتھ اختلاط ہوتا ہے۔

پس دائمی طور پر پوری توجہ اور استبلاک و فنا کے کیا معنی ہیں اور ان کے اور ان لوگوں کے درمیان جو دعوت کے لئے عالم کی طرف راجع میں کیا فرق ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ استہلاک اور توجہ تام مراد ہے۔ روح ونفس دونوں کی اکھٹی توجہ سے بعد اس کے کہ روح کے انوار میں نفس مندرج ہو جائے جیسا کہ پہلے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور عالم کے ساتھ اس کا شعور حواس و قومی اور اعضاء کے ذریعے ہوتا ہے جو نفس کے لئے تفصیلوں کی مانند ہیں۔ پس مجمل مخلص اپنے مشہور کے مطالعہ کے باعث روحانی انوار کے ضمن میں مستهلک اور فانی رہتا ہے اور اس کی تفصیل پہلے ہی شعور پر باقی رہتی ہے۔ بغیر اس کے کہ اس میں کسی قسم کا فتور واقع ہو۔ برخلاف اس شخص کے جو عالم کی طرف راجع ہے کیونکہ اس کا نفس اطمینان حاصل کرنے کے بعد ان انوار سے دعوت کے لئے باہر نکل آتا ہے اور اس کو عالم کے ساتھ مناسبت حاصل ہو جاتی ہے اور اس مناسبت کے سبب سے اس کی دعوت مقبول ہو جاتی ہے لیکن اس بات کا بیان کہ نفس مجمل ہے اور اس کے حواس وغیرہ اس کی تفصیل یہ ہے کہ چونکہ نفس کا قلب صنوبری کے ساتھ تعلق ہے اور قلب صنوبری کا تعلق حقیقت جامع قلبیہ کے وسیلہ سے روح کے ساتھ ہے اور روح سے فیوض و ارادہ مجمل طور پر نفس پر نازل ہوتے ہیں۔ پھر اس کے وسیلہ سے روح کے ساتھ ہے اور روح سے فیوض دارادہ مجمل طور پر نفس پر نازل ہوتے ہیں۔ پھر اس کے وسیلہ سے تمام قومی و اعضاء پر مفصل طور پر پہنچتے ہیں ۔ پس ان اعضاء کا خلاصہ مجمل طور پر نفس میں موجود ہے اس بیان سے دونوں گروہوں کے درمیان فرق ظاہر ہو گیا۔


اور جاننا چاہئے کہ پہلا گروہ صاحبان سکر میں سے ہے اور دوسرا اصحاب صحو میں سے اور شرافت پہلے کے لئے ہے اور فضیلت دوسرے کے لئے اور پہلا مقام ولایت کے مناسب ہے اور دوسرا نبوت کے مناسب اللہ تعالیٰ ہم سب کو اولیاء کی کرامتوں سے مشرف فرمائے اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی کمال متابعت پر ثابت قدم رکھے ۔ صَلَوَاتُ اللهِ وَسَلامُهُ عَلَى نَبِيِّنَا وَعَلَيْهِمْ وَعَلَى جَمِيعِ اِخْوَانِهِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ إِلَى يَوْمِ الدِّينَ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے نبی پر اور تمام انبیاء پر اور نبی صلى الله عليه وسلم کے اصحاب اور ملائکہ مقربین اور بندگان صالحین پر قیامت تک صلوۃ وسلام نازل ہو ) آمین۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا