111

مکتوب 21 : ولایت کے درجوں خاص کر ولایت محمدی علیہ الصلوۃ والسلام کے درجوں کے بیان میں


مکتوب (21)

ولایت کے درجوں خاص کر ولایت محمدی علیہ الصلوۃ والسلام کے درجوں کے بیان میں اور طریقہ علیہ نقشبندیہ کی تعریف اور ان بزرگوں کی نسبت کی بلندی اور باقی تمام طریقوں پر اس طریق کی فضیلت اور اس بیان میں کہ ان کا حضور دائمی ہے۔ حاجی قاری موسیٰ لاہوری کے بیٹے شیخ محمد مکی کی طرف لکھا ہے۔


آپ کا مکتوب شریف جو اس بندہ ضعیف کے نام لکھا ہوا تھا اللہ تعالیٰ تم کو بڑا اجر دیوے اور تمہارے کام آسان کرے اور تمہارے سینے کو کھولے اور تمہارے عذر قبول فرمائے ۔ بحرمت سید البشر عليه وعلى آله الصلوات والتسلیمات جو زیغ بصر یعنی کجی چشم سے پاک ہیں۔ میرے بھائی ! جان لو جب تک وہ موت جو موت معروف کے پہلے ہے اور اہل اللہ اس کو فنا سے تعبیر کرتے ہیں۔ ثابت نہ ہو جائے اللہ تعالیٰ کی جناب میں پہنچنا محال ہے بلکہ آفاقی جھوٹے معبودوں اور انفسی ہوائی خداؤں کی پرستش سے نجات نہیں مل سکتی۔ اس کے سوا نہ تو اسلام کی حقیقت کا پتہ لگتا ہے اور نہ ہی کمال ایمان میسر ہوتا ہے۔ بھلا پھر خدا کے بندوں کے گروہ میں کس طرح داخل ہو سکتے ہیں اور اوتاد کے درجے تک کیسے پہنچ سکتے ہیں ۔ حالانکہ یہ فنا پہلا قدم ہے جو درجات ولایت میں رکھا جاتا ہے اور بڑا بھاری کمال ہے جو ابتداء ہی میں حاصل ہو جاتا ہے پس یہی بہتر ہے کہ اس ولایت کے اوّل سے آخر حال اور اس کی ابتداء سے اس کی انتہا کا درجہ قیاس کیا جائے ۔ کسی نے کیا اچھا کہا ہے


قیاس کن زگلستانِ من بهار مرا
ترجمہ
: قیاس کرلو مرے باغ سے بہار مری


کسی اور نے بھی ایسا ہی کہا ہے ۔


نسالیکه نکوست از بهارش پیداست
ترجمہ
: ظاہر ہے سال اچھا اپنی بہار ہی سے


اور ولایت کے بہت سے درجے ایک دوسرے کے اوپر ہیں کیونکہ ہر نبی کے قدم پر ایک ولایت ہے جو اس نبی سے مخصوص ہے اور اس کے درجات میں سے بلند اور اعلیٰ وہی درجہ ہے جو ہما رے پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے قدم پر ہے کیونکہ وہ تجلی ذاتی جس میں اسماء و صفات و شیون و اعتبارات کا نہ اثبات کے طور پر اور نہ نفی کے طور پر کچھ اعتبار ہے ۔ وہ سرور کائنات صلى الله عليه وسلم کی ولایت ہی سے مخصوص ہے اور اس مقام میں تمام وجودی اور اعتباری پردوں کا زائل ہو جانا علمی اور عینی طور پر ثابت ہوتا ہے۔ پس اس وقت وصل عریانی حاصل ہو جاتا ہے اور وجد حقیقی ثابت ہوتا ہے، نہ ظنی اور تخمینی اور اس عزیز الوجود مقام سے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے کامل تابعداروں کو بڑا حصہ حاصل ہوتا ہے۔


پس اگر تم اس اعلیٰ دولت کے حاصل کرنے اور اس بلند درجہ کی تکمیل کے لئے متوجہ ہو تو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی تابعداری لازم پکڑو اور یہ تجلی ذاتی اکثر مشائخ رحمتہ اللہ علیہم کے نزدیک برقی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف سے برق کی طرح تھوڑی سی مدت کے لئے تمام حجاب اٹھائے جاتے ہیں اس کے بعد اسماء و صفات کے پردے ڈالے جاتے ہیں اور ذاتی انواران پردوں میں ڈھانپے جاتے ہیں۔ پس حضور ذاتی برقی کی طرح ایک لمحہ ہوتا ہے اور غیبت ذاتی بہت کثرت سے اور مشائخ نقشبندیہ قدس سرہم کے نزدیک یہ حضور ذاتی دائمی ہے اور ان بزرگواروں کے نزدیک زائل ہو جانے والی اور غیبت کے ساتھ بدلنے والی حضور کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔

پس ان بزرگواروں کا کمال تمام کمالات سے بڑھ کر ہے اور ان کی نسبت تمام نسبتوں سے بالا تر ہے۔ جیسا کہ ان کی عبارات میں آیا ہے۔ ان سبتَنَا فَوْقَ جَمِيعِ النَّسَبِ ہمارى ( نسبت تمام نسبتوں سے برتر ہے) نسبت سے ان کی مراد حضور ذاتی دائمی ہے اور ان سب باتوں سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کا ملوں کے طریقہ میں نہایت ، ابتدا میں درج ہے اور بزرگوار اس امر میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے صحابہ کرام کے پیرو ہیں کیونکہ صحابہ کرام کو نبی صلى الله عليه وسلم کی پہلی ہی صحبت میں وہ کچھ حاصل ہو جاتا تھا جو دوسروں کو انتہا میں بھی بمشکل حاصل ہو سکے اور یہ بات ابتداء میں انتہا درج ہونے کے سبب سے ہے۔


پس جس طرح ولایت محمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام تمام پیغمبروں اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی ولایتیوں سے بڑھ کر ہے اس طرح ان بزرگواروں کی ولایت بھی تمام اولیاء قدس سرہم کی ولایتوں سے بڑھ کر ہے اور کس طرح بڑھ کر نہ ہو جبکہ ان کی ولایت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔ ہاں کامل مشائخ میں سے بعض افراد کو یہ نسبت حاصل ہوئی ہے لیکن وہ بھی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ولایت سے اقتباس ہے جیسا کہ حضرت شیخ ابوسعید قدس سرہ نے اس حدیث کے دوام کی خبر دی ہے اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا جبہ شیخ ابوسعید مذکور قدس سرہ کو پہنچا ہے جیسا کہ صاحب نفحات نے نقل کیا ہے اور اس طریقہ علیہ نقشبندیہ کے بعض کمالات کے اظہار سے غرض یہ ہے کہ طالبوں کو اس طریقہ علیہ کی طرف رغبت پیدا ہو ورنہ کجا میں اور کجا ان بزرگوں کے کمالات کا بیان۔ مولانا روم صاحب مثنوی میں فرماتے ہیں۔


رح او حیف است با اہلِ جہاں ہمچو راز عشق باید در نہاں

ایک لفتم و صف اوتاره برند پیش از اں کز فوت آن حسرت خورند

ترجمہ: مناسب ہے کہوں اس کا بیاں مثل راز عشق چاہئے یہ نہاں

لیک کہدی وصف تا پائیں وہ راہ اور اس کے فوت سے ماریں نہ آہ

وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَعَلَى جَمِيعِ مَنِ التَّبَعَ الْهُدَى ) تم پر اور ان لوگوں پر بھی جو ہدایت کے تابع ہیں، سلام ہو )

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا