مکتوب 21
اس بیان میں کہ مراد اس قلب سے جو حدیث قدى لا يَسَعُنِي أَرْضِى الح میں واقع ہے مضغہ ہے۔ نہ کہ وہ حقیقت جامعہ جس کی وسعت کی نسبت بعض مشائخ نے خبر دی ہے وہ مضغہ جس نے سلوک و جذ بہ اور تصفیہ و تزکیہ اور قلب کی تمکین اور نفس کے اطمینان کے بعد اجزاء عشرہ کی ترکیب سے صورت حاصل کی ہے اور ہیئت وحدانی پیدا کی ہے۔ اس حقیقت جامعہ پر کئی وجوہ سے زیادتی رکھتا ہے اور اس بیان تو بات میں کہ یہ سب کمالات جو مضغہ کے لیے ثابت کیے گئے ہیں ۔ تمام قاب قوسين میں ہیں اور او ادنی کا معاملہ آگے ہے۔ خواجہ محمد صدیق کی طرف جو ہدایہ سے ملقب ہے، صادر فرمایا:
بسم اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِيْنَ اصْطَفَى اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو )
آپ نے دریافت کیا تھا کہ آپ نے اپنے مکتوبات و رسائل میں لکھا ہے کہ ظہور قلبی ظہور عرش کا ایک لمعہ اور کلی فضیلت ظہور عرشی کے لیے ہے اور حدیث شریف میں یوں آیا ہے۔ لا يسعني أَرْضِى ولا سمانى ولكن يَسعُنِى قَلْبُ عَبدِ الْمُؤْمِنُ میں نہ اپنی زمین میں سما سکتا ہوں نہ آسمانوں میں لیکن مومن آدمی کے دل میں سما سکتا ہوں ۔ اس حدیث سے یہ لازم آتا ہے کہ ظہور قلبی زیادہ کامل ہے اور فضیلت اس کے لیے ہے۔ اے میری محبت کے نشان والے۔
اس سوال کا حل ایک مقدمہ پر مبنی ہے۔ جاننا چاہئے کہ ارباب ولایت لفظ قلب بولتے ہیں اور اس سے انسان کی وہ جامعہ حقیقت مراد لیتے ہیں جو عالم امر سے ہے اور نبوت علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی زبان میں اس سے وہ مضغہ مراد ہے جس کی درستی پر تمام بدن کی درستی وابستہ ہے اور جس کے بگڑنے پر تمام جسم کا بگاڑ موقوف ہے۔ جیسا کہ حدیث نبوی صلى الله عليه وسلم میں وارد ہے ۔
اِنَّ فِي جَسَدِ الْإِنْسَانِ لَمُضْغَةٌ إِذَا . صلحت صلح الجسد كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ ( انسان کے جسم میں ایک مضغہ ہے کہ جس وقت وہ درست ہو جائے تمام جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تمام جسم بگڑ جاتا ہے ۔ خبر دار اور وہ قلب ہے ) قلب کی وسعت اطلاق اول کو لازم ہے جس کے باعث بایزید و جنید قدس سرہما نے قلب کی اور اس قدر وسعت بیان کی ہے کہ عرش مافیہ کو قلب کی عظمت کے مقابلہ میں بہت ہی حقیر خیال کیا ہے اور قلب کی تنگی دوسری اطلاق کو لازم ہے۔ اس مقام میں قلب کی نکلی اس طرح پر ہے کہ خیبر لا تجری کو جو تمام اشیاء سے حقیر وصغیر ہے۔ اس میں کچھ گنجائش نہیں ۔ بعض اوقات کہ تنگی قلب کو جزء لا تجزی کے ساتھ نسبت دی جاتی ہے۔ وہ جز و حقیر نظر میں آسمانوں اور زمین کے طبقات کی مانند دکھائی دیتی ہے۔ یہ معاملہ نظر عقلی سے برتر ہے۔ (فَلا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِین کچھ شک نہ کر ) جب یہ مقدمہ معلوم ہو چکا تو پھر جاننا چاہئے کہ وہ ظہور جو حقیقت جامعہ سے وابستہ ہے۔ بے شک عرش کے ظہور نامہ کے مقابلہ میں ایک لمعہ ہے اور کلی فضیلت اس مقام میں عرش ہی کو ہے
اور شیخ بایزید اور شیخ جنید رحمہما اللہ تعالی نے جو قلب کو سب سے وسیع فرمایا ہے اور عرش ، مافیہ کو اس کے پہلو میں بہت ہی حقیر خیال کیا ہے۔ یہ بات شے کو اس کے اپنے نمونہ کی مانند جاننے کی قسم ہے۔ انہوں نے عرش، مافیہ کے نمونہ کو جامعیت قلب کے پہلو میں حقیر دیکھ کر اس کا حکم مرش و مافیہ کے حقائق پر کیا ہے۔ اس اشتباد کا باعث فقیر نے اپنی کتابوں میں اور رسالوں میں کئی جگہ لکھا ہے اور جو وہ حدیث قدسی میں آیا ہے۔ وہ انبیاء علیہ السلام کی زبان کے موافق ہے اور مراد اس قلب سے مففہ ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ظہور ا تم اسی جگہ ہے اور ذات مجرہ کی احدیت کے مراتب اسی کے لیے مسلم ہیں۔ عرش کو اگر چہ ظہور تمام سے جو ظہور اصلی ہے، کامل حصہ ہے لیکن اس مقام میں صفات کی آمیزش ہے اور صفات چونکہ حقیقت میں حضرت ذات کے ظلال ہیں۔ اس لیے وہ ظہور ظلال کی آویزش سے پاک وصاف نہیں ہے۔ یہی باعث ہے کہ عرش کو اس ظہور انسانی سے جو اصل محض کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ کئی طرح امیدیں ہیں ۔ اس معاملہ کا مرکز وہی مضغہ ہے۔
سوال: حدیث قدسی سے اس قلب کی وسعت مفہوم ہوتی ہے اور تو اس کو تنگ کہتا ہے۔
جواب : تک اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ اس میں ماسوا کی گنجائش نہیں اور وسیع اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ اس پر انوار قدم کا ظہور ہوتا ہے۔ پس کوئی منافات و تناقص نہیں ۔ اس فقیر نے اپنے بعض رسالوں میں اس قلب کی تعبیر اس عبارت سے کی ہے ۔ الــضـيــق الاوسع والبسيط الابسط والا قل الاكثر
سوال :۔ فضیلت کے لائق حقیقت جامعہ ہے جو عالم امر سے ہے نہ کہ مضفہ جو عالم خلق سے
ہے۔ اس عناصر کے مرکز نے یہ فضیلت کہاں سے پائی ہے۔
جواب:- عالم خلق کو عالم امر پر وہ فضیلت ہے جس عوام کیا خواص بھی نہیں سمجھ سکتے ۔ اس مضمون کو فقیر نے اس مکتوب میں جو فرزند اعظم مرحوم کے نام طریق کے بیان میں لکھا ہے ۔ بخوبی واضح کیا ہے۔ اگر کچھ تر دورہ جائے تو وہاں سے اطمینان کرلیں۔
اب ہم اس مضغہ کی حقیقت بیان کرتے ہیں۔ ذرا غور سے سنیں ۔ عوام کا وہ مضغہ ہے جو اربعہ عناصر کی ترکیب سے حاصل ہے اور خواص اور اخص خواص مضغہ اس قسم کا ہے جس نے سلوک و جذ بہ اور تصفیہ و تزکیہ اور قلب کے تمکین اور نفس کے اطمینان کے بعد بلکہ اللہ تعالٰی کے محض فضل و کرم سے اجزاء عشرہ کی ترکیب سے صورتحال کی ہے یعنی چار جز و عناصر کے ہیں اور ایک جز وانفس مطمئنہ کا اور پانچ جز و عالم امر کے۔ دونوں طرفوں کے اجزاء حالانکہ ایک دوسرے کی ضد اور ایک دوسرے کے مخالف ہیں لیکن حق تعالیٰ کی قدرت کا ملہ سے ان کی ضدیت اور مخالفت دور ہوگئی اور با ہم جمع ہو گئے ہیں اور بیت وحدانی پیدا کر کے اس مجو بہ کو حاصل کیا ہے۔ جز واعظم اس معاملہ میں عنصر خاک ہے۔ اس بیئت : حدانی نے بھی جزو ارضی کا رنگ اختیار کر کے خاک کے ساتھ قرار پکڑا ہے۔
بيت
خاک شو خاک تابر وند گل
که بجز خاک نیست مظہر گل
ترجمہ: خاک ہو خاک تا اگیں سب پھول
خاک مظہر ہے کل کامت بھول
اے برادر ارباب ولایت کا ہاتھ ان علوم و معارف کے دامن تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ یہ انوار نبوت علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی مشکوۃ سے متنبس ہیں ۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ
بڑے فضل والا ہے۔ )
وہ قلب جس کے اطمینان کے لیے حضرت خلیل الرحمن علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے سوال کیا تھا۔ یہی مضغہ ہے کیونکہ ان کی حقیقت جامعہ نمکین تک پہنچ چکی تھی اور نفس مطمئنہ ہو چکا تھا اور تمکین واطمینان مرتبہ ولایت میں متصور ہے جو نبوت کا زینہ ہے۔ شان نبوت کے مناسب مضغہ کی بیقراری اور اضطراب ہے نہ حقیقت جامعہ کی بیقراری و بے آرامی کہ یہ عوام کو بھی نصیب ہے اور حضرت رسالت خاتمیت علیہ الصلوۃ والسلام نے جو قلب کی ثابتی طلب فرمائی ہے اور کہا ہے اللَّهُمَّ يَا مُقَلبُ الْقَاوُبِ ثَبِّتْ قَلبي عَلى طاعتِک (اے دلوں کے پھیرنے والے ۔ میرے دل کو اپنی طاعت پر ثابت رکھ ) اس سے مقصود مضفہ کا ثابت ہے اور بعض احادیث میں جو امتوں کے احوال پر نظر کرنے کے باعث دل کی بیقراری کے بارہ میں وارد ہوئی ہے ۔ اگر قلب کے وہ معنی مراد لیے جائیں جو حقیقت جامعہ اور مضغہ دونوں کو شامل ہوں تو بھی ہو سکتا ہے۔
سوال: – یہ مفعہ جب يَسْعُنِى قَلْبُ عَبْدِ مُؤمِنِ” کے شرف سے مشرف ہو چکا اور حضرت ذات تعالٰی کا آئینہ بننے کے لائق ہو چکا ہو تو پھر اس میں انطراب و بے قراری کیوں ہو اور اطمینان کا محتاج کیوں ہو۔
جواب :۔ ظہور جس قدراتم و اکمل ہوتا جاتا ہے اور شیون وصفات کی آمیزش سے صاف ہوتا جاتا ہے۔ اسی قدر جہل و حیرت پیدا کرتا جاتا ہے اور بیگانگی اور نایافت زیادہ تر حاصل ہوتی جاتی ہے۔ بسا اوقات اس ظہور اور اس گنجائش کے باوجود کمال جہل و حیرت سے صانع کے وجود پر دلیل طلب کرتا ہے اور عوام کی طرح استدلال و تقلید کے بغیر اس کو وجود صانع کا یقین حاصل نہیں ہوتا۔ اس صورت میں اضطراب و بے قراری اس کے حال کے مناسب ہے اور اطمینان کا طلب کرنا اس کے لئے ضروری ہے۔
اس فقیر نے اپنے بعض رسالوں میں لکھا ہے کہ عارف صاحب یقین کو رجوع کے بعد استدلال کی حاجت ہوتی ہے۔ اس مقام میں معلوم ہوا ہے کہ تین سوال اور حصول میں دلیل کی احتیاج ہے۔ یہ مقام مرتبہ نبوت کے کمالات کے موافق ہے اور وہ تمام مرتبہ ولایت کے حال کے مناسب ۔ جب اس قلب کا صاحب دعوت کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس کے دل کا قلق و اضطراب اور تغیر و تبدیل زیادہ ہو جاتا ہے۔ جب عین وصل میں جہل و حیرت کے باعث بیل کا تاج ہے تو جدائی کے زمانہ میں بطریق اولی استدلال کا محتاج ہوگا تا کہ استدلال کے ذریعے کچھ اطمینان حاصل کرے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ وہ دولت جس کو چند روز کے لیے اپنے دوست سے پوشیدہ رکھا ہے اور داغ فرقت میں مبتلا کیا ہے، اس کے واسطے مناسب ہے کہ ہمیشہ قلب و انطراب اور دائمی نم و اندوہ میں رہے۔ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَواصِلُ الْحُزْنَ دَائِمُ الْفَکرُ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ہمیشہ غمناک اور متفکر رہتے تھے ) اب وہ وجود جو قلب کے ان دونوں اطلاقوں
کے درمیان فرق ظاہر کرتے ہیں ، بیان کیے جاتے ہیں ۔ گوش ہوش سے سننے چاہئیں ۔
وجہ اول : حقیقت جامعہ جو عالم امر سے ہے، تصفیہ اور تزکیہ کے بعد اس کو مکین تام و داگی طور پر میر ہے۔ برخلاف مضغہ کے کہ اس کا اطمینان حواس کے ادراک پر وابستہ ہے۔ جب تک کسی شے کو حواس کے ساتھ ادراک نہ کر لے، اس کا قلق نہیں جاتا۔ اسی واسطے حضرت خلیل الرحمن علی نبینا و عليه الصلوة والسلام وعلى جميع الانبياء والمرسلين و الملائكة المقربین نے اپنے قلب کے اطمینان کے لیے سوال کیا اور کہا ۔ رَبِّ اَرِنِى كَيْفَ تُحْی الموتی (یا اللہ تو مجھے دکھا کہ کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے )
وجه دوم : حقیقت جامعہ ذکر کے ساتھ متاثر ہو جاتی ہے اور جب کمال ذکر تک پہنچ جاتی ہے تو ذکر سے متحد اور اس کی ہم جنس ہو جاتی ہے۔ اس مقام کو صاحب عوارف قدس سرہ نے مقصد اسنٹی کہا ہے اور ذکر ذات کے ساتھ قلب کے اس ہم رنگ ہونے کو اس سے تعبیر کیا ہے ۔ برخلاف مضغہ کے کہ ذکر کو اس کی طرف راہ نہیں۔ پھر اس کا متاثر ہونا کجا اور ہم جنس ہونا کجا۔ مضغہ میں مذکور کا ظہور اصالت کے طور پر ہے نہ کہ ظلیت کے طور پر اور ذکر کا عروج مذکور کی دہلیز تک ہی ہے۔
وجہ سوم : حقیقت جامعہ جب نہایت النہایت تک پہنچ جاتی ہے اور مرا تیت سے حظ وافر حاصل کر لیتی ہے تو اس وقت اگر مطلوب کو نمایاں کرنا چاہئے تو اس میں مطلوب کا ظل ظاہر ہوگا نہ کہ اس کا عین۔ جیسے کہ آئینہ میں شخص کا نمونہ ظاہر کے شخص کا بر خلاف مضغرے کہ آئینہ کے برعکس اس میں مطلوب کا معین ظاہر ہے۔ نہ کہ اس کامل ۔ اسی واسطے فرمایا عُنِی قَلْبُ عَبْدِی الْمُؤْمِن یہ معاملہ نظر وفکر کے طور سے ورا ، الورا ہے۔ اس بیان سے کہیں حلول و تمکین نہ سمجھ لینا کہ یہ کفر زندقہ ہے۔ اگر چہ عقل معاش باور نہیں کرتی کہ ایک شے کا عین دوسری شے میں ظاہر ہو اور حلول تمکین نہ ہو۔ یہ تقتل کا قصور ہے اور حاضر پر غائب کا قیاس ہے ۔ فَلَا تَكْنُ مِنْ الْمُمْتَرِينَ ( پس کچھ شک نہ کر )
وجہ چہارم : حقیقت جامعہ عالم امر سے ہے اور مضغہ عالم خلق سے بلکہ عالم خلق اور عالم امر دونوں اسی کے اجزاء ہیں۔ خلق اس کا بڑا جزو ہے اور امر اس کا چھوٹا جزو ۔ ان دونوں اجزاء کے ملنے سے ایک ایک بیت ، حدانی موجود ہوگئی ہے جو ہو بہ روز گار بن گئی ہے۔ یہ جو بہ اگر چہ عالم امر و عالم خلق سے ہے تین بیت ترکیبی کے باعث ان میں سے کسی کے ساتھہ مناسب و مشابہت نہیں ریکه تاراس و سالم خلق بن گئے ہیں کیونکہ اس معاملہ میں سب سے مدد اور بہت جز وارنی ہے اور خاک می پستی اس کی بلندی کا باعث ہے۔
وجہ پنجم : حقیقت جامعہ کی دعت اس اعتبارت ہے کہ اس میں اشیا ء کی صورتوں کا ظہور ہے اور ؟ مضفہ کی وسعت جو اس کی تنگی کے بعد مکشوف ہوتی ہے، اس اعتبار سے ہے کہ نامحدود اور نامتناہی مطلوب کی اس میں گنجائش ہے اور وہ تنگی اس کی دہلیز تک کی ہے جو ماسوا کو وہاں داخل ہونے نہیں دیتی۔ حتی کہ ذکر کو بھی مذکور کے خیموں کے گرد نہیں آنے دیتی اور ظلیت کی آمیزش کو اس حریم مقدس کے گرد پھینکنے نہیں دیتی۔
وجه ششم : حقیقت جامعہ کی فراخی چونکہ چون کی آمیزش رکھتی ہے۔ اس لیے اس میں ب چون کی گنجائش نہیں اور مصنفہ کی فراخی نے چونکہ بے چونی سے حصہ پایا ہے، اس لیے اس میں چون کی گنجائش نہیں ۔ عجب معاملہ ہے اس قلب پر دعوت کے لیے رجوع کرنے کے بعد ظلمت وغین طاری ہو جاتی ہے۔ اسی واسطے حضرت سید البشر علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ لیفان على قلبی (یعنی میرے قلب پر بھی پردہ ڈالا جاتا ہے ) اس سے زیادہ کس قد رفرق بیان کیا جائے۔ ما للترَابِ وَرَبِّ الازباب ( چه نسبت خاک را با عالم پاک)
ا۔ برادر تو اس منصفہ کو ایک بے اعتبار گوشت کا ٹکڑا نہ خیال کر لے بلکہ یہ وہ جو ہر نیس ہے جس میں مالم خلق کے خزائن و اسرار پوشیدہ ہیں اور امام کے دفینے اور خفیہ دقائق مدفون ہیں۔ معاملات خاصہ کی زیادتی جو اس بینت وحدانی سے وابستہ ہے۔ یہ ہے کہ اول اس کے اجزا بشرہ کو تصفیه و تزکیہ اور با به واک اور ان کے اس کی صاف کیا ہے اور ماسوا کے تعلقات کی آلودگی سے آزاد کیا ہے۔ مثلا قلب کو تقلب یعنی تغیر سے گزار کر تمکین تک اور نفس کو امارگی سے اطمینان تک لے آئے اور جزو آتشی سے سرکشی اور نافرمانی کو دور کیا اور خاک کو پستی اور پست فطرتی سے بلند کیا۔ علی ہذا القیاس اس کے تمام اجزاء کو افراط و تفریط سے بنا کر حد اعتدال و توسط پر لائے ہیں۔ بعد ازاں محض فضل و کرم کے ساتھ ان اجزاء کو مرکب کر سکے شخص معین بنایا ہے اور اس کا نام انسان کامل رکھا ہے اور اس کے قلب کو جو اس کا خلاصہ اور اس کے وجود کا مرکز ہے۔ مضفہ کے ساتھ تعبیہ کیا ہے۔ یہ ہے مضفہ کی حقیقت جو عبارت کے انداز کے موافق بیان کی گئی ہے۔ والامر الى الله سبحانه ( حقیقت حال اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے ۔ )
اگر کوئی ناقص کہے کہ ہر ایک انسان ان اجزا بعشرہ ، سے مرکب ہے اور انہی کی ترکیب سے ہیئت وحدانی رکھتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ ہاں انہی اجزاء سے مرسب ہے تین وہ مان ، پاک و صاف نہیں ہوئے اور جذ بہ وسلوک کے ساتھ ماسوا کے تعلقات کی آلائش سے آزاد نہیں ہوئے بر خلاف انسان کامل کے اجزاء کے جو فناء بتا سے پاک وصاف ہو گئے ہوتے ہیں ، جیسے کہ اوپر
گزر چکا ہے۔ چونکہ ہر ایک انسان میں یہ اجزاء ایک دوسرے سے علیحدہ علیحدہ ہیں اور ہر جزو کے احکام و احوال الگ ہیں، اس لیے ہیئت وحدانی ان کے نصیب نہیں اور اگر کچھ ہیئت پیدا کی ہے تو وہ اعتباری ہے، حقیقی نہیں۔ برخلاف انسان کامل کے اجزاء کے جو تما ئز اور تباہین سے نکل کر ایک دوسرے سے مل جل گئے ہیں اور ان کے مختلفہ احکام و احوال زائل ہو کر ایک ہی حکم میں پاگئے ہیں ۔ پس ناچار اس میں ہیئت وحدانی حقیقی ہوگی نہ کہ اعتباری جس طرح معجون کو مختلف ادویہ سے درست کرتے ہیں اور سب اجزاء کو باریک پیس کر ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر ہیئت وحدانی ثابت کرتے ہیں اور اس کے مختلف احکام کو ایک ہی حکم میں لے آتے ہیں ۔ فَافُهُمْ وَاللَّهُ سُبْحانَهُ اعْلَمُ .
اے برادر، یہ سب کمالات جو مضغہ کے لیے ثابت ہیں ، مقام قاب قوسین میں ہیں ۔ جہاں ظاہر میں مظہر کے رنگ کا وہم پایا جاتا ہے۔ اگر چہ ظاہر اس جگہ اصل ہے۔ اس کا طل یا صورت نہیں لیکن شخص ظاہر آئینہ کے رنگ سے پاک ومبر انہیں ۔ پس تو سین ثابت ہوں گے ۔اس مقام سے اعلیٰ مقام او ادنی ہے جہاں ظاہر نے مظہر کا رنگ اختیار نہیں کیا اور کوئی امر زائد خیال میں نہیں آتا ۔ پس تو سین اس جگہ مفقود ہوں گے۔ یہاں سوائے یک رنگی کے جو مقام او ادی کے مناسب ہے۔ کچھ متصور نہیں۔ اس مقام کا معاملہ علیحدہ ہے۔ اگر تمام ورق کو الٹائیں تو پھر قوسین سے ادنی تک رخت اٹھا کر ان کان منا اشارات ورموز وبشارات و کنوز ( ہماری کلام اشارات ، رموز و بشارات ، کنوز ہوتی ہے ) واللهُ سُبْحَانَهُ الْمُلْهِمُ (الله تعالی ہی الہام کرنے والا ہے ( وصلى الله تعالى على سيدنا محمد واله وصحبه وسلّم و بارک.