مکتوب (2)
ترقیوں کے حاصل ہونے اور خداوند تعالیٰ کی مہربانیوں پر فخر کرنے کے بیان میں ۔ یہ بھی اپنے پیر بزرگوار قدس سرہ کی خدمت میں لکھا ہے۔
حضور کے غلاموں میں سے عاجز غلام احمد عرض کرتا ہے کہ مولانا شاہ محمد نے رمضان کے مبارک مہینے کے قریب استخارہ کرنے کا حکم پہنچایا ہے۔ اس قدر فرصت نہ ملی کہ رمضان شریف تک اپنے آپ کو حضور کی قدم بوسی سے مشرف کر سکے۔ ناچار اس کے گزر جانے پر اپنے آپ کو تسلی دی۔ خداوند تعالیٰ کی مہربانیوں اور عنایتوں کی نسبت جو حضور کی توجہ کی برکت سے اس خاکسار پر پے در پے پہنچ رہی ہیں کیا عرض کرے۔
مثنوی
من آن خاکم کہ ابر نو بهاری
کند از لطف برمن قطره باری
اگر بر روید از تن صدر بانم
چو سبزہ شکر لطفش کے توانم
ترجمہ : میں وہ مٹی ہوں ابر نو بہاری
کرے رحمت سے جس پر قطرہ باری
اگر ہر بال میں میرے زباں ہو
نہ پھر بھی شکر نعمت کچھ بیان ہو
اگر چہ اس قسم کے احوال کا ظاہر کرنا ، جرات و گستاخی کا موجب اور فخر و مباہات پر شامل ہے۔
ولے چون شه مراد برداشت از خاک
سرد گر بگذرانم سرز افلاک
ترجمہ: اٹھایا خاک سے جب مجھ کو شہ نے
کروں کیونکہ نہ سر برتر فلک سے
عالم صحو و بقاء کی ابتدا ماہ ربیع الآخر کے اخیر سے ہے اور اور اب تک خاص بقا کے ساتھ ہر ایک مدت میں مشرف فرماتے ہیں۔ ابتداء حضرت شیخ محی الدین قدس سرہ کی تجلی ذاتی سے ہے کبھی صحو میں لاتے ہیں کبھی پھر سکر میں لے جاتے ہیں اور اس نزول وعروج میں عمدہ عمدہ علوم اور عجیب عجیب معارف کا فیضان فرماتے ہیں اور ہر مرتبہ میں خاص احسان ( یعنی اخلاص) اور شہود کے ساتھ جو اس مقام کے بقاء کے مناسب ہے۔ مشرف فرماتے ہیں۔
رمضان شریف کی چھٹی تاریخ کو ایسے بقاء سے مشرف فرمایا اور ایسا احسان واخلاص میسر ہوا کہ بندہ کیا عرض کرے۔ معلوم ہوتا ہے کہ استعداد کی نہایت وہیں تک ہے اور وہ وصل بھی جو حال کے مناسب تھا وہاں حاصل ہوا اور جذبہ کی محبت اب تمام ہو گئی ہے اور سیر فی اللہ میں جو مقام جذ بہ کے مناسب ہے، قدم رکھا ہے جس قد رفتا پورے طور پر ہوگی اسی قدر وہ بقاء جو اس پر مترتب ہوگی زیادہ کامل ہوگی اور جس قدر بقاء زیادہ کامل ہوگی اسی قدر صحو زیادہ ہو گا اور جس قدر صحو زیادہ ہو گا اسی قدر شریعت حقہ کے موافق علوم کا فیضان ہوگا کیونکہ کمال صحو انبیائے الصلوٰۃ والسلام کیلئے تھا اور وہ معارف و علوم جو ان سے صادر ہوئے ہیں۔ شریعت کے احکام اور عقائد ہیں جو ذات و صفات کے بارے میں بیان فرمائے ہیں اور ان احکام کے ظاہر کی مخالفت بقیہ سکر سے ہے اب وہ معارف جو اس خاکسار پر فائض ہوئے ہیں اکثر شرعی معارف کی تفصیل اور انہی کا بیان ہے اور استدلالی علم کشفی اور ضروری علم سے بدلتا رہتا ہے اور علم مجمل مفصل ہوتا جاتا ہے
گر بگویم شرح ایس بیحد شود
اگر شرح اس کی لکھوں بیحد ہو
ترجمہ: : ڈرتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ گستاخی تک نوبت پہنچ جائے۔
بنده باید که حد خود داند
چاہئے بندہ کو اپنی حد پہچانے