118

مکتوب 18: اس بیان میں کہ علماء راسخین اور علماء ظواہر اور صوفیہ میں سے ہر ایک کا نصیب کیا کیا ہے


مکتوب 18

اس بیان میں کہ علماء راسخین اور علماء ظواہر اور صوفیہ میں سے ہر ایک کا نصیب کیا کیا ہے ۔ شیخ جمال ناگوری کی طرف اس کی التماس کے جواب میں صادر فرمایا


الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَام عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفی (اللہ تعالیٰ کا حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو )

الْعُلَمَاءُ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ ( علماء انبیاء کے وارث ہیں ) علماء عظام کی تعریف میں کافی ہے۔ علم وراثت علم شریعت ہے جو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام سے باقی رہا ہے۔ علم شریعت کی ایک صورت ہے ایک حقیقت ۔ صورت وہ ہے جو علماء ظاہر کے نصیب ہے جو کتاب وسنت کے محکمات سے تعلق رکھتی ہے اور حقیقت یہ ہے جو علماء راخین کے نصیب ہے جو کتاب وسنت کی متشابہات سے متعلق ہے۔ محکمات اگر چہ کتاب کے امہات یعنی اصول ہیں لیکن ان کے نتائج و ثمرات متشابہات ہیں جو کتاب کا اصلی مقصد ہیں اور نتائج و ثمرات کے حاصل ہونے کے لیے امہات وسیلہ ہیں۔ گویا کتاب کا مغز متشابہات ہیں اور اس کا پوست محکمات ۔ وہ متشابہات ہی ہیں جو رمز و اشارہ کے ساتھ اصل کو ظاہر کرتی ہیں اور معاملہ کی حقیقت کا پتہ بتاتی ہیں۔ علما ء راخین نے پوست کو مغز کے ساتھ جمع کیا ہے اور شریعت کی صورت و حقیقت کے مجموعہ کو پالیا ہے۔ ان بزرگواروں نے شریعت کو ایک شخص تصور کیا ہے جس کا پوست صورت شریعت اور اس کا مغز حقیقت شریعت ہو ۔ شرائع واحکام کے علم کو شریعت کی صورت اور حقائق واسرار کے علم کو شریعت کی حقیقت سمجھا ہے۔ بعض لوگوں نے شریعت کی صورت میں گرفتار ہو کر اس کی حقیقت سے انکار کیا ہے اور
صرف ہدایہ اور بزدوی کو اپنا پیر و مقتدا سمجھا ہے۔


بعض لوگ اگر چہ حقیقت کے گرفتار ہوئے لیکن چونکہ انہوں نے اس حقیقت کو شریعت کی حقیقت نہ جانا بلکہ شریعت کو صورت پر موقوف رکھا اور اس کو صرف پوست ہی خیال کیا اور مغز کو اس کے سوا کچھ اور تصور کیا۔ اس لیے اس حقیقت کی حقیقت سے سب واقف نہ ہوئے اور متشابہات کا کچھ حصہ حاصل نہ کیا۔ پس علماء راخین ہی درحقیقت وارث ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو ان کے محبین اور تابعداروں میں سے بنائے ۔

دیگر یہ عرض ہے کہ شیخ نور محمد نے آپ کی طرف سے ظاہر کیا کہ آپ فرماتے تھے کہ ہم کو دوسرے سلسلوں کے مشائخ سے اجازت ہے۔ نقشبندیہ کی طرف سے بھی اجازت چاہتے ہیں ۔ میرے مخدوم مکرم طریقہ علیا نقشبندیہ میں پیری و مریدی طریقہ کے سیکھنے اور سکھانے پر موقوف ہے۔ نہ کہ کلاہ وشجرہ پر جیسے کہ دوسرے سلسلوں میں متعارف اور مشہور ہے۔ ان بزرگواروں کا طریق صحبت ہی صحبت ہے اور ان کی تربیت انعکاسی ہے۔ اسی واسطے ان کی ابتداء میں دوسروں کی نہایت مندرج ہے اور سب راستوں سے زیادہ قریب راستہ یہی ہے۔ ان کی نظر دلی امراض کو شفا بخشتی ہے اور ان کی توجہ باطنی بیماریوں کو دور کرتی ہے ۔ نقشبندیہ عجب قافله سالار اند که برنداز ره پنہاں بحرم قافله را ترجمہ: عجب ہی قافلہ سالار ہیں یہ نقشبندی کہ لے جاتے ہیں پوشیدہ حرم تک قافلے کو
امید ہے کہ معذور ومعاف فرما ئیں گے ۔

وَالْعُذْرُ عِندَه كِرَامِ النَّاسِ مَقْبُول
ترجمہ
: بزرگ لوگوں کے ہاں عذر ہے مقبول ۔
والسلام

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا