مکتوب 15
قصبہ سامانہ کے خطیب کی مذمت دو کوہش میں جس نے عید قربان کے خطبہ میں خلفاء راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ذکر کو ترک کر دیا تھا اور بیان نہ کیا تھا۔ شہر سامانہ کے بزرگ سادات اور قاضیوں اور رئیسوں کی طرف صادر فرمایا ہے۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ ( اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔ )
شہر سامانہ کے سادات عظام اور قاضیوں اور بزرگ رئیسوں کے معزز خادموں کو تکلیف دینے کا باعث یہ ہے کہ سنا گیا ہے کہ اس جگہ کے خطیب نے عید قربان کے خطبہ میں خانغا . را شدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ذکر کو ترک کیا ہے اور ان کے مبارک ناموں کو نہیں لیا اور یہ بھی سنا گیا ہے کہ جب لوگوں نے اس سے تعرض کیا تو بجائے اس کے کہ اپنی سہو نسیان کا عذر کرتا ، سرکشی سے پیش آیا اور یوں کہہ اٹھا کہ اگر خلفاء راشدین کے ناموکا ذکر نہیں ہوا تو کیا ہوا اور یہ بھی سنا گیا ہے کہ اس مقام کے رئیسوں اور معزز لوگوں نے اس بارہ میں بہت سستی کی ہے اور اس بے انصاف خطیب کے ساتھ سختی اور درشتی سے پیش نہیں آئے ۔
وائے نہ یکبار کہ صد بار وائے ترجمہ: ایک افسوس نہیں صد با افسوس خلفاء راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کا ذکر اگر چہ خطبہ کے شرائط میں سے نہیں لیکن اہلسنت کا شعار تو ضرور ہے۔ عمدا اور ہیکٹر پن کے سوائے اس شخص کے کہ جس کا دل مریض اور باطن پلید ہو اور کوئی شخص اس کو ترک نہیں کرتا۔ ہم نے مانا کہ اس نے تعصب اور عناد سے ترک نہیں کیا مگر من تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمُ (جس نے کسی قوم کی مشابہت کی ، وہ انہیں میں سے ہے ) کا کیا جواب دے گا اور اتَّقُوا مَوَاضِعِ التهم ( تہت کی جگہوں سے بچو ) کے موافق تہمت کے ظن سے کس طرح خلاصی پائے گا۔ اگر تیخین کی تقدیم وتفضیل میں متوقف ہے تو طریق اہل سنت کے مخالف ہے اور اگر حضرت ختنین کی محبت میں متردد ہے تو بھی اہل حق سے خارج ہے ۔ عجب نہیں کہ وہ بے جو محبت حقیقت جو کشمیریہ کی طرف منسوب ہے۔ اس خبیث کو کشمیر کے بدعتیوں یعنی رافضیوں سے لے کر آیا ہو۔ اس کو سمجھانا چاہئے کہ حضرات شیخین کی افضلیت صحابہ اور تابعین کی اجماع سے ثابت ہو چکی ہے۔ چنانچہ اس کو بزرگ اماموں کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے۔
جن میں سے ایک امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ شیخ امام ابوالحسن اشعری نے کہا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت باقی امت پر قطعی اور یقینی ہے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اپنی خلافت اور مملکت کے زمانہ میں ان کے تابعداروں کے جم غفیر کے تواتر سے ثابت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تمام امت سے افضل ہیں ۔ پھر امام ذہبی نے کہا ہے کہ اس حدیث کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسی (۸۰) آدمیوں سے زیادہ نے روایت کیا ہے اور ایک جماعت کو گن کر بتلایا ہے۔ پھر فرمایا ہے کہ خدارا فضیوں کا برا کرے۔ یہ کیسے جاہل ہیں اور امام بخاری نے اپنی کتاب میں جو کتاب اللہ کے بعد تمام کتابوں سے صحیح ہے، حضرت علی سے اس طرح روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد تمام لوگوں سے بہتر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ۔ پھر فرمایا کہ ایک اور شخص تو ان کے بیٹے محمد بن حنیفہ نے عرض کیا کہ پھر آپ ۔ تو حضرت علی نے فرمایا کہ میں تو ایک مسلمان آدمی ہوں ۔ اس قسم کی اور بھی بہت سی روایتیں حضرت علی اور اکابر صحابہ اور تابعین سے مشہور ہیں جن سے سوائے جاہل یا متعصب کے اور کوئی انکار نہیں کرتا۔ اس بے انصاف کو کہنا چاہئے کہ ہم کو پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام اصحاب کے ساتھ محبت رکھنے کا امر ہے اور ان کے ساتھ بغض رکھنے وایذا دینے کی ممانعت ہے۔ حضرت ختمین آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کے بزرگ صحابہ اور قریبیوں میں سے ہیں۔ ان کے ساتھ محبت و مودت اور بھی زیادہ بہتر ومناسب ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ لا أَسْتَلَكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِى الْقُرُبى ( کہ یا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کہ تم سے میں قریبیوں کی محبت کے سوا اور کوئی اجر نہیں مانگتا ) اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا اللهُ اللهُ فِي
أَصْحَابِي لَا تَتَّخِذُوهُمْ عَرْضًا مِنْ بَعْدِى فَمَنْ اَحَبَّهُمْ فَيُحِبُى أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَيُغْضَى أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ اذَا هُمْ فَقَدْ أَذَانِى وَمَنْ أَذَانِي فَقَدْ أَذَى اللَّهِ وَمَنْ اذَى اللَّهِ فَيُوْشَكَ أَنْ يَأْخُذَ (میرے اصحاب کے بارہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میرے بعد میرے اصحاب کو نشانہ کو بناؤ۔ جس نے ان کو دوست رکھا، اس نے میری دوستی کے سبب ان کو دوست رکھا اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کے باعث ان سے بغض رکھا جس نے ان کو ایزادی، اس نے مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذا دی، اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی، وہ ضرور اس کا مواخذہ کرے گا ) اس قسم کا بد بودار پھول ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک معلوم نہیں کہ ہندوستان میں کھلا ہو عجب نہیں کہ اس معاملہ سے تمام شہر متہم ہو جائے بلکہ تمام ہندوستان سے اعتماد دور ہو جائے۔
سلطان وقت کہ خدا اس کو اسلام کے دشمنوں پر مدد اور غلبہ دے۔ اہل سنت اور حنفی المذہب ہے۔ اس کے زمانہ میں اس قسم کی بدعت کا ظاہر کرنا بڑی جرأت اور دلیری کا کام ہے بلکہ در حقیقت بادشاہ کے ساتھ مقابلہ کرنا اور اولی الامر کی اطاعت سے نکلنا ہے۔ پھر بڑی تعجب کی بات ہے کہ اس مقام کے بزرگ اور رئیس لوگ اس واقعہ میں خاموش ر ہیں اور سستی اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ اہل کتاب کی مذمت میں فرماتات – لولا يَنهَا هُمُ الرَّيَّا نِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الأثم وأكلهمُ السَّحْتُ لِبَئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ ان کے علماء اور خدا پرست لوگ ان کو ان کی بری باتوں و رشوت و سود کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے ۔ واقعی بہت بری بات ہے۔ اللہ تعالیٰ اور فرماتا ہے کہ کانُو الايْتَنَا هَوْنَ عَنْ مُنكَرٍ فَعَلُوهُ لِبَئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ایک دوسرے کو برے فعل کے کرنے سے منع نہ کرتے تھے ۔ واقعی بہت برا کرتے تھے ۔ اس قسم کے واقعات میں تغافل وستی کرنا گو یا بدعتیوں کو دلیر کرنا اور دین میں رخنہ ڈالنا ہے۔ یہ ستی اور غفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ مہدو (۱) یہ جماعت کے لوگ کھلم کھلا اہل حق کو اپنے باطل طریق کی طرف دعوت کرتے اور موقع پا کر بھیڑئیے کی طرح ریوڑ سے ایک دو کو لے جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ کیا تکلیف دی جائے اس وحشت انگیز خبر کو سن کر مجھ میں ایک شورشی پیدا ہوگئی اور میری فاروقی رگ بھڑک اٹھی۔ اس لیے چند کلے لکھے گئے ، امید ہے کہ معاف فرما ئیں گے۔
وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَ عَلى سَائِرِ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالْتَزَمَ مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفَى عَلَيْهِ وَ عَلَى الِهِ الصَّلَوتُ والتَّسْلِيمَاتُ والتَّحِيَّاتُ وَالْبَرَكَاتُ (سلام ہو آپ پر اوران بزرگواروں پر جنہوں نے ہدایت اختیار کی اور حضرت محمد مصطفے صلى الله عليه وسلم کی متابعت کو لازم پکڑا