121

مکتوب 14 : ان واقعات کے حاصل ہونے کے بیان میں جو اثنائے راہ میں ظاہر ہوئے تھے


مکتوب (14)

ان واقعات کے حاصل ہونے کے بیان میں جو اثنائے راہ میں ظاہر ہوئے تھے ۔ اور بعض مستر شدوں یعنی طالبوں کے احوال کے بیان میں اپنے پیر بزرگوار قدس سرہ کی طرف لکھا ہے ۔:-

کمترین خادم عرض کرتا ہے کہ وہ تجلیات جو مراتب کونی میں ظاہر ہوئی تھیں ۔ ان میں سے بعض کا بیان سابقہ عریضہ میں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد مرتبہ وجوب جو صفات کلیہ کا جامع ہے ظاہر ہوا۔ اور بدصورت سیاہ رنگ عورت کی صورت میں متمثل ہوا اور اس کے بعد مراتبہ احدیث در از قد مرد کی صورت میں کہ بار یک دیوار پر کھڑا ہے جلوہ گر ہوا اور یہ دونوں تجلئیں حقانیت کے طور پر ظاہر ہوئیں۔ برخلاف پہلی تجلیوں کے کہ وہ اس طور پر ظاہر نہ ہوئی تھیں اور اسی اثناء میں موت کی خواہش پیدا ہوئی اور ایسا نظر آیا کہ گویا میں شخص ہوں جو دریائے محیط کے کنارے پر کھڑا ہے ۔ اس ارادے پر کہ اپنے آپ کو دریا میں ڈالے لیکن پیچھے سے اس کو رسی کے ساتھ ایسا مضبوط باندھا ہے کہ وہ دریا میں جا نہیں سکتا اور اس رسی سے مراد میں اپنے بدن عصری کے تعلقات سمجھتا تھا۔ اور آرزو کرتا تھا کہ وہ رسی ٹوٹ جائے اور نیز ایک ایسی خاص کیفیت طاری ہوئی کہ اس وقت بطریق ذوق معلوم ہوا کہ دل کی کوئی خواہش حق تعالیٰ کے سوا ہی نہیں رہی۔ اس کے بعد صفات کلیہ وجو بیہ کہ جنہوں نے با اعتبار محلوں اور مظہروں کے مختلف خصوصیتیں پیدا کی تھیں نظر آئیں۔ اس کے بعد وہ خصوصیتیں سب کی سب اپنے اپنے محلوں اور مظہروں سے گر گئیں اور باقی نہ رہیں ۔ مگر کلیہ وجوبیہ کے طور پر اور خصوصیتوں سے ان کے الگ ہونے کی صورت بھی نظر آئی اور اس وقت معلوم ہوا کہ اب تو نے حقیقی طور پر صفات کو اصل کے ساتھ جان لیا اور خصوصیات سے الگ ہونے سے پہلے صفات کو اصل سے جاننا کچھ معنی نہیں رکھتا تھا۔ مگر یہ کہ جواز کے طریق پر ہو جیسا کہ تجلی صوری والوں کا حال ہے اور فنا حقیقی اس وقت ثابت ہوگئی۔ اس حالت کے ثابت ہونے کے بعد صفات جو اپنے آپ میں اور اپنے غیر میں تھیں ایک ہی طرز پر پائیں اور محل و جگہ کی تمیز اٹھ گئی۔ اس وقت شرک خفی کی کئی قسم کے باریک امور سے خلاصی میسر ہوئی اور اس وقت تک نہ عرش رہا اور نہ فرش نہ زمان نہ مکان نہ جہات نہ حدود ۔ اگر بالفرض کئی سال تک فکر کروں ہرگز علم میں نہ آئے کہ جہاں کا ایک ذرہ بھی پیدا ہوا ہے۔اس کے بعد اپنا تعین اور اپنی وجہ خاص بھی نظر آئی اور اپنے تعین کو اس پھٹے ہوئے پرانے کپڑے کی طرح معلوم کیا جس کو کسی شخص نے پہنا ہوا ہو اور اس شخص کو میں نے اپنی وجہ خاص جانا لیکن حقانیت کے طور پر متصور نہ ہوا۔
اس کے بعد اس شخص کے اوپر نزدیک ہی پوست رقیق نظر آیا اور اپنے آپ کو اس پوست کا عین معلوم کیا اور اس تعین کے جامہ کو اپنے سے بیگانہ دیکھا اور وہ نور جو اس پوست میں تھا دکھائی دیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ نور نظر سے غائب ہو گیا اور یہ پوست اور جامہ بھی نظر سے دور ہو گئے اور وہی پہلی جہالت رہ گئی۔ اس واقع مذکورہ کی تعبیر جس طرح علم میں آتی ہے عرض کرتا ہے تا کہ اس کی صحت و غلطی معلوم ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ یہ صورت مذکورہ مین ثابتہ ہے جو وجوب و امکان کے درمیان بمنزلہ برزخ کے ہے جس کی دونوں طرفین ایک دوسری سے جدا ہوئی ہیں اور کمال فرق کے ساتھ متحقق ہیں اور وہ پوست جو اس پرانے کپڑے اور نور کے درمیان واقع ہوا ہے۔ وجود اور عدم کے درمیان برزخ ہے اور اپنے آپ کو جو آخر کا روہی پوست معلوم کیا۔ برزخیت میں پہنچنے کی طرف اشارہ ہے اور پہلے بھی واقعات میں اپنے آپ کو وجود اور عدم کے درمیان برزخ معلوم کرتا تھا لیکن ظاہر اوہ آفاق کی نسبت سے تھا اور اب نفس کی طرف نظر ہے اور ایک اور فرق بھی اس وقت ظاہر ہوا تھا

لیکن لکھنے کے وقت بھول گیا جو کچھ ہمیشہ حاصل ہے حیرت و نادانی ہے اور کبھی کبھی اسی طرح عجیب وغریب حال ظاہر ہوتے ہیں اور دور ہو جاتے ہیں اور ان کی معرفت رہ جاتی ہے اور بعض واقعات کی تعبیر میں عاجز رہ جاتا ہے اور اگر کچھ میں آتا ہ تو اس پر بھروسہ نہیں کرتا۔ اسی واسطے عریضوں کے ارسال کرنے میں گستاخی کرتا ہے تا کہ حضور کے جتلانے سے کسی امر کا یقینی علم حاصل ہو جائے ۔ امید ہے کہ حضور کی بلند توجہوں سے دنیائے کمیٹی کے تعلقات کی گرفتاری سے نجات میسر ہو جاۓ گی ورنہ کام بہت مشکل ہے۔

بے عنایات حق و خاصان حق
گر ملک باشد سیاه هستش ورق

ترجمہ: اہل حق اور حق تعالیٰ کی عنایت کے سوا
ہے عمل نامہ سیاہ گر چہ فرشتہ ہی ہوا

شیخ عبداللہ نیازی کا بیٹا شیخ طہ جو سر ہند کے مشہور مشائخ میں سے ہے اور حاجی عبدالعزیز اس سے واقف ہے۔ قدم بوسی اور نیازمندی عرض کرتا ہے۔ اس کو اس طریقہ علیہ میں داخل ہونے کی خواہش پیدا ہوئی اور بڑے صدق و نیاز سے التجا کرتا ہے میں نے اس کو کہا ہے کہ استخارہ کرے۔ بظاہر مناسبت رکھتا ہے اور جن یاروں نے یہاں کی ذکر کی تعلیم حاصل کی ہے اکثر ان میں سے طریق رابطہ میں مشغول ہیں اور بعض ان میں سے واقعات میں دیکھ کر رابطہ حاصل کر کے ہمراہ آتے ہیں اور بش دہلی سے واپس آنے سے پہلے رابطہ رکھتے تھے اور اوّل حضور و استغراق میں جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض صفات کو اصل نے دیکھتے ہیں اور بعض نہیں دیکھتے لیکن کوئی بھی تو حید اور انوار اور کشوف کے راہ پر نہیں جاتا۔


ملا قاسم علی اور ملا مود و د محمد اور عبدالمومن ظاہر امقام جذبہ سے نقطۂ فوق تک پہنچے ہوئے ہیں لیکن ملا قاسم علی نزول کی طرف توجہ رکھتا ہے اور ان دونوں کی نسبت معلوم نہیں کہ نزول کی طرف آئیں اور شیخ نور بھی نقطہ کے نزدیک ہے لیکن ابھی تک وہاں نہیں پہنچا۔


ملاعبد الرحمن بھی نقطہ کے نزدیک ہے لیکن ابھی تھوڑی سی مسافت درمیان ہے۔ ملا عبدالہادی نے حضور میں استغراق حاصل کیا ہے اور نیز کہتا ہے کہ پاک مطلق یعنی اللہ تعالیٰ کو اشیاء میں تنزیہی صفت سے دیکھتا ہوں اور افعال کو اس سے جانتا ہوں ۔حضور کی دولت ہے جو طالبوں اور مستعدوں کو پہنچ رہی ہے اور اس کمینہ کو اس کے پہنچانے میں کچھ حصہ نہیں۔

من ہماں احمد احمد پارینه که هستم هستم
ترجمہ
: میں ہوں احمد وہی پرانا غلام

حضور نے ایک دن واقعات میں سے کسی واقع میں فرمایا تھا کہ اگر خاکسار میں محبوبیت کے معنی نہ ہوتے تو مقصود تک پہنچنے میں بہت تو قف واقع ہوتا اور اس نعمت کو بھی جو خاکسار کی محبوبیت کو حضور کی عنایت کے ساتھ ہے بیان فرمایا تھا۔ اس بات سے بڑی بھاری امید لگ رہی ہے اور یہ جرات و گستاخی بھی اسی وجہ سے ہے۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا