مکتوب (13)
رستہ کی لمبائی اور علوم حقیقت کو علوم شریعت کے ساتھ مطابق کرنے کے بیان میں اپنے پیر بزرگوار کی خدمت میں لکھا ہے:-
کمترین بندہ احمد عرض کرتا ہے۔ افسوس ہزار افسوس ! یہ راستہ کس قدر نہایت اور لمبا ہے ۔ ! سیر اس جلدی سے اور واردات و عنایات اس کثرت سے، اس وجہ سے مشائخ عظام نے فرمایا ہے کہ سیر الی اللہ پنجاہ ہزار سال کا رستہ ہے ۔ تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالروحُ إِلَيهِ فِي يَومٍ كَان مِقْدَارُهُ خَمُييسُنَ اَلْفَ سَنَةٍ ( چڑھیں گے اس کی طرف فرشتے اور روح اس دن میں جس کا طول پچاس ہزار برس ہے ) اس میں شاید انہی معنوں کی طرف اشارہ ہے۔ جب کام نا امیدی تک پہنچ گیا اور امیدیں منقطع ہو گئیں – هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثِ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا يَنشُرُ رَحْمَتهُ ( خدا تعالیٰ وہ ذات پاک ہے جو نا اُمیدی کے بعد بارش نازل فرماتا اور رحمت عام پھیلاتا ہے ) یعنی خداوند تعالی مددگار ہوا۔ چند روز ہوئے ہیں کہ اشیاء میں سیر واقع ہوا ہے اور طالبوں اور مریدوں نے پھر ہجوم کیا ہے ۔ ان کا کام شروع کیا گیا ہے لیکن ابھی اپنے آپ کو اس مقام کے قابل نہیں پاتا۔ لیکن لوگوں کے اصرار سے مروت وحیات کے باعث کچھ نہیں کہتا اور مسئلہ توحید میں جو پہلے متردد تھا۔ جیسا کہ کئی دفعہ عرض کیا گیا تھا اور افعال وصفات کو اصل سے جانتا تھا جب اصل حقیقت معلوم ہوئی وہ تر در دور ہو گیا اور ہمہ از وست والا پلہ ہمہ اوست کے مقولہ سے غالب معلوم کیا اور اس میں کمال زیادہ دیکھا اور افعال و صفات کو بھی اور ہی رنگ میں معلوم کیا۔ سب کو ایک ایک کر کے دکھایا اور اوپر کوگزر کر ایا اور شک وشبہ بالکل دور ہو گیا اور تمام کشفی علوم ظاہر شریعت کے مطابق ہو گئے اور ظاہر شریعت سے سر مو مخالفت نہ دیکھی اور یہ جو بعض صوفیہ کشفوں کو ظاہر شریعت کے مخالف بیان کرتے ہیں ۔ یاسہم سے ہے یا سکر کی وجہ سے ۔ باطن ظاہر کے کچھ مخالف نہیں ہے ۔ اثنائے راہ میں سالک کو مخالفت نظر آتی ہے اور تو جیہ اور جمع کی طرف محتاج ہوتا ہے لیکن منتہی حقیقی باطن کو ظاہر شریعت کے موافق معلوم کرتا ہے۔
علماء اور ان بزرگواروں کے درمیان اسی قدر فرق ہے کہ علماء از روسے دلیل اور علم کے جالا لیتے ہیں اور یہ بزرگوار روے کشف اور ذوق کے پالیتے ہیں اور ان کی صحت حال پر اس مطابقت سے بڑھ کر مدلل دلیل اور کونسی ہے۔ يَغِيقُ صَدْرِئ وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِی شامل حال ہے۔ میں نہیں جانتا کیا عرض کروں ۔ بعض احوال کے لکھنے کی توفیق نہیں رکھتا اور خطوں میں بھی ان کے لکھنے کی گنجائش نہیں ۔ شاید اس میں کوئی حکمت ہوگی۔ اس ہجر کے مارے محروم کو غریب پروری کی تو سے محروم نہ رکھیں اور راہ میں نہ چھوڑیں ۔
این سخن راچوں تو مبدا بوده
گرفزوں گرد و تو اش افزوده
ترجمہ: اس سخن کی جب ہے تجھ سے ابتداء
گر زیادہ ہو تو پھر ڈر کیا
زیادہ گستاخی معاف نہیں۔
بنده باید که حد خود داند