مکتوب 13
اس بیان میں کہ علماء ظاہر کے نصیب کیا ہے اور صوفیا علیہ کے حصہ میں کیا آیا ہے اور علماء راخین جو انبیاء کے وارث ہیں، ان کے نصیب میں کیا ہے، مرزا شمس الدین کی طرف اس کے خط کے جواب میں لکھا ہے:
حمد و صلوۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد واضح ہو کہ آپ کا مبارک خط جواز روئے کرم صادر فرمایا تھا۔ برادر عزیز شیخ محمد طاہر نے پہنچایا اور خوش وقت کیا۔ آپ نے لکھا تھا کہ ملاقات کے حاصل ہونے تک ایسے مکتوبات کے ساتھ جو نصیحتوں سے پر ہوں، یاد فرماتے رہیں۔
میرے مخدوم مكرم النَّصِيحَةُ هي الدِّينُ وَمَتَابَعَةُ سَيِّدُ الْمُرْسَلِينَ عَلَيْهِ مِنَ الصَّلَوَاتِ أَفْضَلُهَا وَمِنِ التَّحِيَّاتِ أَكْمَلُهَا (یعنی سب سے اعلیٰ نصیحت یہی ہے کہ حضرتسید المرسلین صلى الله عليه وسلم کا دین اور متابعت اختیار کریں) سید المرسلین کے دین اور متابعت سے علماء ظاہر کا نصیب عقائد درست کرنے بعد شرائع و احکام کا علم اور اس کے موافق عمل ہے اور صوفیا علیہ کا نصیب بمعہ اس چیز کے جو علماء رکھتے ہیں، احوال و مواجید اور علوم و معارف ہیں اور علماء راخین کا نصیب جو انبیاء کے وارث ہیں ، بمعہ اس
چیز کے جو عالم رکھتے ہیں اور بمعہ اس چیز کے جس کے ساتھ صوفیہ ممتاز ہیں، وہ اسرار و دقائق ہیں جن کی نسبت متشابہات قرآنی میں رمز و اشارہ ہو چکا ہے اور تاویل کے طور پر درج ہو چکے ہیں۔ یہی لوگ متابعت میں کامل اور وراثت کے مستحق ہیں۔ یہ لوگ وراثت و تبعیت کے طور پر انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کی خاص دولت میں شریک اور بارگاہ کے محرم ہیں۔
اسی واسطے عُلَمَاءُ أُمَّتِى كَانَبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيل (میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے پیغمبروں کی طرح ہیں ) کی شرافت کرامت سے مشرف ہوئے ہیں۔ پس آپ کو بھی لازم ہے کہ علم و عمل و حال و وجد کی رو سے حضرت سید المرسلین اور حبیب رب العالمین علیہ وعلى جميع الانبیاء والمرسلين و الملا ملته المقربین واہل طاعتہ اجمعین کی متابعت بجالائیں تا کہ اس وراثت کے حاصل ہونے کا ذریعہ ہو جو نہایت اعلیٰ درجہ کی سعادت ہے۔ والسلام۔