124

مکتوب 12: اس بیان میں کہ فرشتے اگر چہ اصل کا مشاہدہ کرنے والے ہیں اور انسان کا شہود انفس کے آئینہ میں ہے


مکتوب 12

اس بیان میں کہ فرشتے اگر چہ اصل کا مشاہدہ کرنے والے ہیں اور انسان کا شہود انفس کے آئینہ میں ہے لیکن اس طرح دولت کو انسان میں جز کی طرح بنایا ہے اور اس کے ساتھ اس کو بقا بخشی ہے اور اس کے مناسب بیان میں معارف آگاہ برادر حقیقی میاں غلام محمد کی طرف صادر فرمایا ہے۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامُ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطفی ( اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔ )

ملائکہ کرام اصل کا مشاہدہ کرتے اور اسی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ گرفتاری رکھتے ہیں۔ ظلیت کی آمیزش ان کے حق میں مفقود ہے۔ انسان بیچارہ اس جہان میں دا سے بمشکل قدم باہر نکال سکتا ہے اور انفسی اور آفاقی آئینوں کے وسیلوں کے بغیر شہود دائمی بمشکل حاصل کر سکتا ہے۔ اصل تک پہنچنے کے بعد اصل کے انوار کی شعاعوں کا پر تو اس کے قلب کے آئینہ میں جلوہ گر کر کے پھر اس کو عالم کی طرف لوٹا دیتے ہیں اور ناقصوں کی تربیت اس کے حوالہ کرتے ہیں۔ اس رجوع میں اس کی اپنی بھی تربیت ہے اور دوسروں کی بھی کیونکہ اصلی انوار کا وہ پر تو جو اس کی جز کی طرح بنایا گیا ہے، رجوع کی مدت میں دوسرے اجزاء کو بھی اپنے رنگ پر لے آتا اور اپنے رنگ میں رنگ دیتا ہے جس طرح کہ دوسروں کو نقص سے کمال تک لے آتا ہے اور غیب کی شہادت کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور جب اس کی دعوت اور رجوع کی مدت تمام ہو جاتی ہے اور کتاب وقت مقررہ تک پہنچ جاتی ہے تو اس کو اپنے اصل کا شوق پیدا ہو جاتا ہے اور رفیق اعلیٰ کی ندا اس سے نکلتی ہے اور مختلف تعلقات سے آزاد ہو کر غیب سے شہادت کی طرف اسباب لے جاتا ہے

اور گوش سے آغوش تک معاملہ آ جاتا ہے۔ الموت جسر يوصل الحبيب الى الحَبِیب ( موت ایک پل ہے جو یار کو یار سے ملاتا ہے ) اس وقت صادق آتا ہے۔ جانا چاہئے کہ فرشتہ اگر چہ اصل کا مشاہد ہے اور انسان کا شہود انفس کے آئینہ میں ہے لیکن اس دولت کو انسان میں جز کی طرح بنایا ہوا ہے اور اس کے ساتھ اس کو بقا بخشی ہے اور اس کے ساتھ متفق ہوا ہے۔ برخلاف فرشتہ کے کہ اس دولت کو اس میں جزء کی طرح نہیں بنایا۔ باہر ہی میں نظارہ کرتا ہے اور بقاء وتحقق اس کے ساتھ حاصل نہیں کرتا۔ یہ انصباغ و تکون جو انسان کو اصلی رنگ سے میسر ہوا ہے، فرشتہ نہیں رکھتا اور وہ خصوصیت جو خا کیوں کو حاصل ہوئی ہے، قدسیوں کو حاصل نہیں کیونکہ اندر سے باہر تک بہت فرق ہے۔ اگر چہ اندرونی دولت جزو کی طرح ہوتی ہے اور بیرون دولت کل کی طرح لیکن اندر اندر ہے اور باہر باہر ۔ كَلَامُنَا إِشَارَةٌ وَ بَشَارَةٌ ( ہماری کلام اشارہ اور بشارت ہوتی ہے۔ اسی واسطے خواص بشر خواش ملک سے افضل ہو گئے اور ان کے ہوتے ہوئے خلافت کے مستحق بن گئے ۔ وَاللهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ لعَظیم اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت سے خاص کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے) بیت


ز میں زاده بر آسماں تاخته
زمین و زمان را پس انداخته


ترجمہ: زمیں زادہ گیا چڑھ آسماں پر
زمین و آسمان سے گزر کر


یه دولت انسان کو جزء ارضی کے باعث میسر ہوئی ہے اور قلب کو جو عرش اللہ کہتے ہیں ۔ عصر خاک ہی کی بدولت ہے جو کل کا جامع اور دائرہ امکان کا مرکز ہے۔ ہاں زمین کو اس کی پستی اور عاجزی کے باعث یہ سب رفعت و بلندی حاصل ہوئی ہے اور اس فروتنی نے اس کو بلند کر دیا ہے۔ من تَوَاضَعَ لِلَّهِ تَعَالَى رَفَعَهُ الله تَعَالَى ( جو اللہ تعالیٰ کے لیے تواضع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو بلند کرتا ہے ) جب انسان رجوع اور دعوت کی مدت کے تمام ہونے اور اصلی رنگ میں رنگے جانے کے بعد اصل کی طرف رجوع کرتا ہے اور جناب پاک کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس وقت جو خصوصیت اور انبساط جو اس کو میسر ہوتا ہے، یقین نہیں کہ دوسروں کو بھی حاصل ہوا اور وہ قرب و مرتبہ جو اس کو حاصل ہوتا ہے، کسی اور کو حاصل نہیں ہوتا کیونکہ وہ اصل میں ثانی ہو کر اس کے ساتھ قاء پیدا کر لیتا ہے اور اصل کے رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ کسی اور کی کیا مجال ہے کہ اس کے ساتھ را بری کرے کیونکہ دوسروں کا انصباغ یعنی اصل کے رنگ میں رنگا جانا اگر چہ تجر دوستنزہ کے اعتبار سے اتم و اکمل ہوتا ہے لیکن چونکہ خارج کا ہے اپنی کا حکم رکھتا ہے اور انسان کا انصباغ چونکہ درونی ہے۔ اس لیے ذاتی حکم رکھتا ہے۔ شَتَّانَ مَا بَيْنَهُمَا ( ان دونوں میں بہت فرق ہے۔)


یہ کمال انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے ساتھ کہ جن کو خاص بشر کہتے ہیں مخصوص ہے اور جس کسی کو چاہیں اپنی وراثت اور تبعیت کے طور پر اس دولت سے مشرف کرتے ہیں۔

یہ دولت انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے اصحاب کو ان کی صحبت کی برکت سے زیادہ تر حاصل تھی۔ اصحاب کرام کے سوا اور لوگ جن کو اس دولت سے مشرف فرماتے ہیں بہت کم بلکہ اس سے بھی کمتر ہیں۔


بیت: اگر پادشه بردر پیر زن
بیاید تو اے خواجہ سیلت مکن

ترجمہ: اگر بڑھیا کے در پر آئے سلطان
تو اے خواجہ نہ ہو ہرگز پریشان

رَبَّنَا اتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرُ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيءٍ قَدِيرُ بِحُرُمَةِ سَيّدِ الْمُرْسَلِينَ عَلَيْهِ الصَّلَوَاتُ وَالتَّحِيَّاتُ وَالتَّسْلِيمَاتُ اَكْمَلُهَا وَآتَمُّهَا (یا اللہ تو حضرت سید المرسلین صلى الله عليه وسلم کے طفیل ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر اور ہم کو بخش تو سب چیزوں پر قادر ہے )

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا