170

مکتوب 11 : کشفوں اور اپنے قصور کو دیکھنے اور تمام اعمال و اقوال میں اپنے آپ کو قاصر اور تہمت زدہ جانے کا مقام حاصل ہونے اور شیخ ابوسعید ابوالخیر علیہ الرحمتہ کی کلام کے سر ظاہر ہونے کے بیان میں


مکتوب (11)، جلد 1

بعض کشفوں اور اپنے قصور کو دیکھنے اور تمام اعمال و اقوال میں اپنے آپ کو قاصر اور تہمت زدہ جانے کا مقام حاصل ہونے اور شیخ ابوسعید ابوالخیر علیہ الرحمتہ کی کلام کے سر ظاہر ہونے کے بیان میں کہ انہوں نے فرمایا ہے عین نہیں رہتا ہے اثر کہاں رہے اور بعض یاروں کے احوال کے بیان میں ۔ یہ بھی اپنے پیر بزرگوار کی خدمت میں لکھا ہے۔


حضور کے غلاموں میں سے عاجز غلام احمد کی یہ گزارش ہے کہ وہ مقام جہاں بندے نے پہلے اپنے آپ کو دیکھا تھا جب حضور کے بلند حکم کے موافق پھر اس کا ملا حظہ کیا، تینوں خلفائے رضی اللہ عنہم کا عبور اس مقام میں نظر آیا لیکن چونکہ وہاں اقامت و قرار نہ رکھتا تھا پہلی دفعہ نظر میں نہ آئے۔ چنانچه امامان اہل بیت میں سے سوائے امامین الشہیدین اور امام زین العابدین رضی اللہ عنہم جمعین کے اس مقام قرار وثبات نہیں رکھتے۔ لیکن عبور اس میں واقع ہوا ہے بڑی باریک نظر سے معلوم کر سکتے ہیں اور یہ کہ اول اپنے آپ کو اس مقام سے نامناسب دیکھا تھا یہ بے مناسبتی دو قسم کی ہے۔

ایک یہ کہ طریقوں میں کوئی طریقہ ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے بے مناسبتی طاری ہو جاتی ہے
اور جب اس کی طرف کوئی رستہ دکھا دیا جاتا ہے وہ بے مناسبتی دور ہو جاتی ہے۔ دوسری بے مناسبتی مطلق ہے جو کسی طرح دور ہونے کے قابل نہیں ہے اور وہ راہ جو اس مقام کی طرف پہنچانے والے ہیں صرف دو ہیں جو اپنا تیسرا نہیں رکھتے یعنی ان دورستوں کے سوا نظر میں اور رستہ ظاہر نہیں ہوتا۔


ایک یہ کہ اپنا نقص وقصور دیکھیں اور تمام نیک کاموں میں باوجود قدرت و جذب کے اپنی نیتوں کو قاصر و تہمت زدہ خیال کریں۔


دوسرا شیخ مکمل مجذوب کی صحبت جس نے سلوک کو تمام کیا ہو۔


اللہ تعالیٰ نے حضور کی مہربانی کی طفیل پہلا طریق استعداد کے موافق عنایت فرمایا ہے۔ نیک اعمال میں سے کوئی عمل وقوع میں نہیں آتا۔ مگر یہ کہ اپنے آپ کو اس عمل میں تہمت زدہ بنا تا ہے بلکہ جب تک کسی نہ کسی قسم کی تہمت نہ لگانے والا بے قرار و بے آرام رہتا ہے اور اپنے نزدیک ایسا جانتا ہے کہ کوئی عمل ایسا صادر نہیں ہوتا جو دائیں طرف کے فرشتوں کے قابل ہو اور جانتا ہے کہ دائیں طرف کا نامہ اعمال نیک عملوں سے خالی ہے اور اس کے لکھنے والے معطل و بیکار ہیں بھلا پھر درگاہ الہی کے لائق کیسے ہوگا اور ہر شخص کو جو جہان میں ہے حتی کہ کافر، فرنگ اور زندیق محمد کو اپنے سے کئی درجے بہتر جانتا ہے اور ان سب سے بدتر اپنے آپ کو خیال کرتا ہے اور جذبہ کی جہت اگر چه سیر الی اللہ کے تمام ہونے سے پوری ہوگئی تھی لیکن اس کے بعض لوازم اور متعلقات رہ گئے تھے جو اس فتنا کے ضمن میں جو مقام سیر الی اللہ کے مرکز میں واقع ہوئے تھے۔ پورے ہوئے اور اس فنا کے احوال پہلے عریضہ میں مفصل لکھے گئے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ حضرت خواجہ احرار قدس سرہ نے جو اس کام کے نہایت کو فنا کہا ہے اس سے ان کی مراد یہی فنا ہو جو تجلی ذات اور سیر فی اللہ کی تحقق کے بعد ثابت ہوئی ہے اور فنائے ارادی بھی اس فنا کی قسموں میں سے ہے ۔

هیچکس را تا نگردد و فنا نیست ره دربار گاه کبریا
ترجمہ
: جب تلک انساں نہ ہو جائے فنا تب تلک ہرگز نہیں ملتا خدا


اور اس مقام کے نا مناسب لوگ بھی جو دوگروہ ہیں ، نظر میں ہیں۔

ایک گروہ تو اس مقام کی طرف متوجہ ہے اور وہاں تک پہنچنے کا طریق تلاش کر رہا ہے اور دوسرا گر وہ اس مقام کی طرف کوئی التفات و توجہ نہیں رکھتا اور حضور کی توجہ اس مقام تک پہنچنے کے راستوں میں سے دوسرے طریق کی طرف زیادہ ظاہر ہوتی ہے اور اسی طریق کے ساتھ مناسبت معلوم ہوتی ہے چونکہ بندہ حضور کی جانب سے مامور ہے اس لئے حضور کے ارشاد کے موافق بعض امور میں جرات و گستاخی کی ۔ ورنہ



من ہماں احمد پارینه که هستم هستم
ترجمہ : میں ہوں احمد وہی پرانا غلام


دوسری عرض یہ ہے کہ دوسری دفعہ اس مقام کے ملاحظہ کے وقت اور بہت سے مقام ایک دوسرے کے اوپر ظاہر ہوئے ۔ نیاز و عاجزی سے توجہ کرنے کے بعد جب اس پہلے مقام سے اوپر کے مقام پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ حضرت ذی النورین رضی اللہ عنہ کا مقام ہے اور دوسرے خلفا ء کا بھی اس مقام میں عبور واقع ہوا ہے اور یہ مقام بھی تکمیل و ارشاد کا مقام ہے اور ایسے ہی اس مقام سے اوپر کے دو مقام بھی جن کا اب ذکر ہوتا ہے۔ تکمیل وارشاد کے مقام ہیں اور اس مقام کے اوپر ایک اور مقام نظر آیا جب اس مقام میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا مقام ہے اور دوسرے خلفاء کا بھی وہاں عبور واقع ہوا ہے اور اس مقام سے اوپر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مقام ظاہر ہوا۔ بندہ اس مقام پر بھی پہنچا اور اپنے مشائخ میں سے حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کو ہر مقام میں اپنے ساتھ ہمراہ پاتا تھا اور دوسرے خلفاء کا بھی اس مقام میں عبور واقع ہوا ہے۔ سوائے عبور اور مقام اور مرور اور ثبات کے کچھ فرق نہیں ہے اور اس مقام کے اوپر سوائے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے اور کوئی مقام معلوم نہیں ہوتا اور حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے مقام کے مقابل ایک اور نہایت عمدہ نورانی مقام کہ اس جیسا کبھی نظر میں نہ آیا تھا۔ ظاہر : وا اور وہ مقام اس مقام سے تھوڑا سا بلند تھا جس طرح کہ صفہ کہ سطح زمین سے ذرا بلند بناتے ہیں اور معلوم ہوا کہ وہ مقام محبوبیت کا مقام ہے اور وہ مقام رنگین اور منقش تھا اپنے آپ کو بھی اس مقام کے عکس سے رنگین معلوم کیا ۔

اس کے بعد اسی کیفیت میں اپنے آپ کو لطیف پایا اور ہوا یا بادل کے ٹکڑے کی طرح اطراف میں پھیل گیا اور بعض اطراف کو گھیر لیا اور حضرت خواجہ بزرگ خواجہ بہاؤالدین نقشبند قدس سره حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے مقام میں ہیں بندہ اپنے آپ کو اس کیفیت میں جو عرض کی گئی ہے اس مقام کے مقابل مقام میں پاتا ہے۔

عرض ہے کہ اس عمل یعنی ارشاد کے ساتھ مشغول ہونے کو ترک کرنا پسند نہیں ہوتا کیسے ترک کیا جائے جبکہ جہان گمراہی کے بھنور میں غرق ہوا جاتا ہے اور جو شخص اپنے آپ میں جہاں کو اس بھنور سے نکالنے کی طاقت پاتا ہے وہ کس طرح اپنے آپ کو معارف رکھ سکتا ہے ہر چند اور کام در پیش ہوں۔ اس امر میں مشغول ہونا ضروری اور پسندیدہ ہے لیکن اس شرط پر کہ بعض وسوسوں اور خواہشوں سے جو اس عمل کے اثناء میں ظاہر ہوتی ہیں تو بہ واستغفار کو لازم رکھا جائے۔ اسی طرح سے رضا میں داخل ہو جاتا ہے اور اس شرط کے لحاظ کے بغیر رضا میں داخل نہیں ہوتا اور نیچے ٹھہر جاتا ہے لیکن حضرت خواجہ نقشبند اور حضرت خواجہ علاؤالدین عطار قدس سرہما کے مادہ میں اس شرط کے ملاحظہ کے بغیر یہ عمل پسندیدہ ہے اور اس خاکسار کا عمل اب اس شرط کے ملاحظہ کے بغیر کبھی رضا میں داخل ہے اور کبھی نیچے ٹھہر جاتا ہے۔ دوسری عرض یہ ہے کہ نفحات میں حضرت شیخ ابوسعید ابوالخیر رحمتہ اللہ علیہ کی باتوں میں مذکور ہے کہ مین نہیں رہتا ہے اثر کہاں رہے۔ لا تُبقى وَلا تَذَرُ یہ خن اوّل اوّل نظر میں مشکل ہوا کیونکہ حضرت شیخ محی الدین عربی قدس سرہ اور ان کے تابعدار یہ کہتے ہیں کہ عین کا زائل ہونا جو اللہ تعالیٰ کے معلومات میں سے ایک معلوم ہے۔ محال ہے ورنہ علم جہالت سے بدل جاتا ہے اور جب عین زائل نہ ہو۔ اثر کہاں جائے گا اور اسی طرح یہ بات ذہن میں ثابت و برقرار ہوئی تھی۔ حضرت شیخ ابوسعید قدس سرہ کانن کچھ حل نہیں ہوتا تھا۔ پوری توجہ کے بعد حق تعالی نے اس سخن کا بھید ظاہر فرمایا اور ثابت ہو گیا کہ نہ مین رہتا ہے نہ اثر اور اپنے آپ میں بھی ان معنوں کو معلوم کر لیا اور کچھ مشکل نہ رہی اور اس معرفت کا مقام بھی نظر آیا۔
یہ مقام اس مقام سے جو حضرت شیخ اور ان کے تابعداروں نے بیان فرمایا ہے بہت بلند ہے۔ یہ دونوں بحثیں ایک دوسرے کے ساتھ کچھ مخالفت و جھگڑا نہیں رکھتیں۔ ایک الگ جگہ سے ہے اور دوسری الگ مقام سے مفصل عرض کرنا درازی کلام اور رنج کا باعث ہے۔ اور نیز جو کچھ حضرت شیخ ابوسعید ابوالخیر رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث (1) کے دوام کی نسبت فرمایا ہے وہ بھی ظاہر ہوا کہ حدیث کس چیز سے مراد ہے اور اس کا دوام کیا ہے اور اپنے آپ میں بھی اس حدیث کو دائمی معلوم کیا اگر چہ یہ شاذ و نادر ہے۔ اور دوسری یہ عرض ہے کہ کتاب کا دیکھنا ہر گز اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ مگر وہ کتاب جس میں ان بزرگ مشائخ کے کمالات اور مراتب کا ذکر لکھا ہوا ہے جو مقامات میں واقع ہوئے ہیں ۔ اس قسم کی کتاب کا مطالعہ اچھا لگتا ہے اور متقدمین مشائخ کے احوال بہت پسندیدہ ہیں ۔ حقائق اور معارف کی کتابیں اور خاص کر توحید کی باتوں اور مراتب کے تنزلات کو مطالعہ نہیں کر سکتا۔ اپنے آپ کو اس بارے میں حضرت شیخ علاؤ الدولہ رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ بہت مناسب پاتا ہے اور ذوق و حال میں اس مسئلہ میں شیخ موصوف کے ساتھ متفق ہے لیکن سابقہ علم انکار اور شدت تک آنے نہیں دیتا۔

اور یہ عرض ہے کہ کئی دفعہ بعض امراض کے دور کرنے کے لئے توجہ کی گئی اور اس کا اثر ظاہر ہوا اور ایسے ہی بعض مردوں کے احوال جو عالم برزخ میں ظاہر ہوئے تھے۔ ان کے رنج و تکالیف کے رفع کرنے کے لئے بھی توجہ کی گئی لیکن اب توجہ پر طاقت نہیں رہی کیونکہ اب فقیر کسی چیز پر اپنے آپ کو جمع نہیں کر سکتا۔ لوگوں کی طرف سے بعض تکلیفیں فقیر پرگزریں اور انہوں نے بہت ظلم و ستم کیے اور اس طرف کے بہت سے متعلقین کو ناحق ویران اور جلا وطن کر دیا لیکن فقیر کے دل پر کسی قسم کا غبار اور رنج نہیں آیا۔ چہ جائیکہ ان کے ساتھ برائی کرنے کا خیال دل میں گزرتا۔


بعض یار جنہوں نے مقام جذبہ سے شہود و معرفت حاصل کی ہے اور ابھی تک سلوک کی منزلوں میں قدم نہیں رکھا۔ ان کا تھوڑا تھوڑا حال عرض کرتا ہے ۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ جذ بہ کی جبت تمام ہو جانے کے بعد سلوک کی دولت سے مشرف فرمائے گا۔ شیخ نور اسی مقام میں بند ہے اور نقطہ فوق میں جو جذ بہ کے مقام میں ہے نہیں پہنچا۔ حرکات و سکنات میں تکلیف دیتا ہے اور وہ اس قباحت و برائی کو نہیں سمجھتا۔ بغیر ارادہ کے اس کا کام توقف میں پڑ جاتا ہے اور ایسے ہی اکثر یاروں کے کام کی رعایت نہ کرنے کی وجہ توقف میں پڑ جاتے ہیں ۔ ا اس بارے میں حیران ہے کہ اس طرف سے کوئی ارادہ ان کے توقف کا نہیں ہے۔ بلکہ ان کا ترقی کا ارادہ ہے۔ بلا ارادہ ان کے کاموں میں دیر واقع ہو جاتی ہے۔ ورنہ راہ تو بہت نزدیک ہے۔ مولانا معہود اخیر نقطے تک پہنچ گیا ہے اور اس نے جذبے کے کام کو پورا کر لیا ہے اور اس مقام کی برزخیت میں پہنچ گیا ہے اور فوق کو من وجہ نہایت تک پہنچایا ہے اول اول صفات کو بلکہ اس نور کو جس سے صفات قائم ہیں اس نے اپنے آپ سے جدا دیکھا اور اپنے آپ کو شیخ فانی معلوم کیا ۔ بعد ازاں صفات کو ذات سے جداد یکھا اور اس وید میں مقام جذ بہ کی احدیت تک پہنچ گیا اب اپنے آپ کو اور جہان کو ایسا گم کیا ہے کہ نہ احاطہ کا قائل ہے اور نہ معیت کا اور بطنوں کے بطن کی طرف ایسا متوجہ ہے کہ حیرت اور نادانی کے سوا اسے کچھ حاصل نہیں ۔


سید شاہ حسین بھی مقام جذبہ سے اخیر نقطہ تک پہنچ گیا ہے اور اس کا سر نطقہ تک پہنچ گیا ہے اور ایسے ہی صفات کو ذات سے جدا دیکھتا ہے لیکن خدا احد کو سب جگہ پاتا ہے اور ظہور سے محظوظ ہے اور ایسے ہی میں جعفر بھی اخیری نقطہ کے نزدیک پہنچ گیا ہے اور بہت شوق ولولہ اس سے ظاہر ہوتا ہے۔ شاہ حسین کے قریب قریب ہے اور دوسرے یاروں میں بھی فرق ظاہر ہو جاتا ہے۔ میاں شیخی اور شیخ عیسی اور شیخ کمال جذبہ میں نقطہ فوق تک پہنچ گئے ہیں اور شیخ کمال بھی نزول کی طرف متوجہ ہے اور شیخ ناگوری نقطہ فوق کی تہہ میں آیا ہوا ہے لیکن ابھی بہت سفر در پیش ہے

اور یہاں کے یاروں میں سے اب تک آٹھ یا نو بلکہ دس آدمی نقطہ فوق کی تہہ میں آئے ہوئے ہیں بعض نقطہ سے واصل ہو کر نزول کی طرف متوجہ ہیں بعض دوسرے یا قریب ہیں اور بعض بعید ۔ میاں شیخ مزمل اپنے آپ کو گم پاتا ہے اور صفات کو اصل سے دیکھتا ہے اور مطلق کو سب جگہ پاتا ہے اور اشیاء کو سراب کی طرح بے اعتبار جانتا ہے بلکہ ہیچ معلوم کرتا ہے۔

مولانا مذکور کے بارے میں ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا لوگوں کو تعلیم کے لئے اجازت دینا دل پسند ہے لیکن وہ اجازت جو جذ بہ کے مناسب ہے اگر چہ بعض امور باقی رہ گئے ہیں جن کا اس کو استفادہ کرنا ضروری تھا لیکن روانہ ہونے کی جلدی کی اور توقف نہ کیا۔ خدمت اقدس میں حاضر ہوتا ہے جس طرح اس کے کام کی بہتری سمجھیں گے حکم فرمائیں گے ۔ جو کچھ اس کمینہ کے علم میں تھا عرض کر دیا گیا ۔ وَالحُكْمُ عِندَ كُمُ ( اور حکم آپ ہی کا ہے )

خواجہ ضیاء الدین محمد چند روز تک یہاں رہا کچھ حضور و جمعیت حاصل کی تھی آخر اسباب معیشت کی کمی کی وجہ سے اپنے آپ کو خاطر جمع نہ رکھ سکا۔ اس واسطے لشکر کی طرف متوجہ ہوا اور مولانا شیر محمد کالڑ کا بھی ملازمت کی طرف متوجہ ہے۔ قدرے حضور و جمعیت رکھتا ہے بعض رکاوٹوں کی وجہ سے زیادہ ترقی نہ کر سکا۔ زیادہ لکھنا گستاخی ہے


بنده باید که حد خود داند

ترجمہ: چاہئے بندہ کو اپنی حد پہنچانے


عریضہ لکھنے کے بعد ایک ایسی کیفیت ظاہر ہوئی اور ایسا حال پیش آیا جس کا بیان تحریر میں نہیں آ سکتا اور اس حال میں فنائے ارادی ثابت ہوئی جیسا کہ پہلی مرادوں سے ارادے کا تعلق برطرف ہوا تھا۔ لیکن ارادہ اصل باقی تھا جیسا کہ عریضہ میں عرض کیا گیا تھا اب ارادہ بھی دور ہو گیا ہے اور اس وقت نہ مراد باقی رہی ہے اور نہ ارادہ۔ اور اس فنا کی صورت بھی نظر آئی اور بعض علوم جو اس مقام کے مناسب ہیں۔ فائض ہوئے چونکہ ان علوم کا باریکی اور پوشیدگی کی وجہ سے لکھنا دشوار تھا اس واسطے قلم کی باگ ان علوم کے لکھنے سے روک لی اور اس فنا کے ثابت ہونے اور علوم کے فیضان کے وقت وحدت کے پرے ایک خاص نظر ظاہر ہوئی ہے۔ اگر چہ یہ بات ثابت ہے کہ وحدت کے ماوراء کوئی نظر بلکہ کچھ نسبت نہیں ہے لیکن بندہ جو کچھ پاتا ہے عرض کرتا ہے اور جب تک یقینی طور پر ثابت نہیں ہوا لکھنے میں جرات نہیں کی اور اس مقام کی صورت وحدت کے پرے اس طرح دیکھتا ہے نہ اس کا ماوراء اور نہ کوئی ایسا مقام جو حقیقت کے طور پر جانے یا حق کو اس کے ماوراء جانے حیرانی اور نادانی اسی طرح صاف ہے اور اس دید سے کچھ فرق نہیں ہوا۔ میں نہیں جانتا

کہ کیا عرض کروں سب تناقض در تناقض ہے جو کہنے میں نہیں آتا اور حال بے شبہ ثابت ہے اَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَى اللهِ مِنْ جَمِيعِ مَا كَرِهَ الله قَوْلاً و فِعلاً خاطراً وناظراً ( الله سے سے میں بخشش مانگتا ہوں اور تو بہ کرتا ہوں ان تمام قول و فعل و ارادہ و نظر سے جس کو اللہ مکروہ جانتا ہے۔)

اور نیز اس وقت ایسا معلوم ہوا کہ پہلے جو کچھ فنائے صفات سے جانتا تھا حقیقت میں صفات کی خصوصیت اور ان کے مابہ الامتیاز کی فنا تھی جو وحدت کے ضمن میں مندرج ہوئی تھی اور خصوصیتیں دور ہو گئی تھیں ۔ اب اصل صفات بھی اگر چہ ایک دوسری میں ملتے رہنے کے طریق پر ہوں، برطرف ہوگئی ہے اور حاکم احدیت نے کسی چیز کو نہیں چھوڑا اور وہ تمیز جوعلم اجمالی یا تفصیلی کے مرتبہ سے حاصل ہوئی تھی نہ رہی اور تمام خارج پر آگئی ۔ اب كَانَ اللَّهُ وَلَمْ يَكُنْ مَعَهُ شَتی و هُوَ الآنَ كَمَا كَانَ ( اللہ تھا اور اس کے ساتھ کوئی چیز نہ تھی اور اب بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ تھا حال کے مطابق ہو گیا ہے اور پہلے اس حدیث کے مضمون کا صرف علم ہی تھا نہ کہ حل یعنی اب علم و حال دونوں جمع ہیں۔ امید ہے کہ صحت و غلط پر آگاہ فرمادیں گے۔


دوسرا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا قاسم علی کو مقام تکمیل سے حصہ حاصل ہے ایسے ہی یہاں کے بعض یاروں کو بھی اس مقام سے حصہ حاصل ہوا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ وَاللهُ سُبْحَانَهُ أَعْلَمُ بِحَقِيقَةِ الْحَالِ ( اور حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ) ۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا