125

مکتوب 10: اس بیان میں کہ جوظہور ہوتا ہے ، ظلیت کی آمیزش کے بغیر نہیں ہوتا


مکتوب 10

اس بیان میں کہ جوظہور ہوتا ہے ، ظلیت کی آمیزش کے بغیر نہیں ہوتا۔ برخلاف اس ظہور کے جو عرش پر واقع ہو اور جب قلب اپنی نہایت کمال تک پئی جاتا ہے تو انوار عرش سے نور اقتباس کر لیتا ہے۔ حقائق آگاہ برادر حقیقی میاں محمد مودود کی طرف صادر کیا ہے۔

شیخ بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر عرش اور جو کچھ عرش میں ہے ،سب عارف کے دل کے گوشہ میں رکھ دیں تو عارف کو قلب کی فراخی کے باعث کچھ محسوس نہ ہو ۔ شیخ جنید رحمتہ اللہ علیہ اس بات کی تائید کرتے ہیں اور دلیل کے ساتھ ثابت کرتے اور کہتے ہیں کہ جب حادث قدیم کے ساتھ مل جاتا ہے تو اس کا اپنا اثر کچھ باقی نہیں رہتا یعنی عرش ، مافیها حادث ہے اور عارف کا قلب جو انوار قدم کے ظہور کا محل ہے، جب اس حادث کو اس قلب کے ساتھ ملنے کا اتفاق ہوتا ہے تو مضمحل اور متلاشی یعنی فانی و نا چیز ہو جاتا ہے۔ پھر کس طرح محسوس ہو سکے۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ جب صوفیہ کے رئیس یعنی سلطان العارفین اور سید الطا أفہ اس طرح کہیں اور عرش مجید کا قلب عارف کے مقابلہ میں کچھ اعتبار نہ کریں اور عرش کو انوار قدم کے ظہورات سے خالی جان کر حادث کہہ دیں اور قلب کو انوار قدم کے ظہورات کے باعث قدیم بیان کریں تو پھر اوروں کا کیا ذکر ہے۔

اس فقیر کے نزدیک جو جذبات الہی سے تربیت یافتہ ہے، یہ ہے کہ عارف کا قلب جب اپنی خاص استعداد کے موافق نہایت النہایت تک پہنچ جاتا ہے اور وہ کمال حاصل کر لیتا ہے جس سے بڑھ کر اور کمال متصور نہیں تو اس بات کی قابلیت پیدا کر لیتا ہے کہ انوار عرشی کے ظہور کے بے نہایت لمعات میں سے ایک لمعہ اس پر فائض ہو ۔ اس لمعہ کو ان لمعات کے ساتھ وہ نسبت ہوتی ہے جو قطرے کو دریائے محیط کے ساتھ ہوتی ہے بلکہ اس سے بھی کم ہوتی ہے ۔ عرش وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ عظیم فرماتا ہے اور جس پر استواء کا سر ثابت کرتا ہے۔ قلب عارف کو جامعیت کے باعث تشبیہ اور تمثیل کے طور پر عرش اللہ کہتے ہیں یعنی جس طرح عرش مجید عالم کبیر میں عالم خلق اور عالم امر کے درمیان برزخ ہے اور خلق و امر کی دونوں طرفوں کا جامع ہے۔ اسی طرح قلب بھی عالم صغیر میں عالم خلق اور عالم امر کے درمیان برزخ ہے اور اس عالم کے خلق و امر کی دونوں طرفوں کا جامع ہے۔ پس قلب کو بھی تشبیہ کے طور پر عرش کہہ سکتے ہیں ۔


جانا چاہئے اور غور سے سنا چاہئے کہ انوار قدم کے ظہور کی قابلیت جو ظلیت کی ملاوٹ سے منزہ اور مبرا ہے، وہ عرش مجید کے ساتھ مخصوص ہے۔ یہ قابلیت عرش مجید کے سوا نہ عالم خلق رکھتا ہے اور نہ عالم امر نہ عالم کبیر نہ عالم صغیر ۔ عارف کامل کا قلب بھی جامعیت اور برزخیت کے تعلق کے باعث ان انوار سے نور اقتباس کر لیتا ہے اور دریا سے ایک چلو بھر لیتا ہے۔ عرش اور کامل معرفت والے عارف کے دل کے سوا اور جس قدر ظہور ہیں، سب پر ظلیت کا کیا ہے ان کے ہمیں ا صل کی بو نہیں ۔ بایزید رحمہ اللہ علیہا اگر سکر کے باعث اس طرح کہ دیں تو مناسب ہے لیکن جنید علیہ الرحمہ سے جو سو کا مدعی ہے، اس قسم کی کلام کا صادر ہونا نہایت ہی ناخوش اور نا مناسب ہے لیکن کیا کریں۔ وہ حقیقت معاملہ سے واقف ہی نہیں ہوئے اور دریائے ظلیت کے بھنور سے کنارہ تک نہیں پہنچے ۔

یہ بات اگر چرا اکثر خلق کی نظر میں آج بعید اور عجیب دکھائی دیتی ہے لیکن آج کے آگے کل نزدیک ہے ۔ جلدی نہ کریں۔ أَتَى امْرُ اللهِ فَلا تَسْتَعْجِلُوهُ (اللہ تعالیٰ کا امر آ گیا ہے۔ جلدی نہ کرو ) سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَشْرِكُون ( اللہ تعالیٰ شرک کی باتوں سے پاک ہے ) والسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالْتَزَمَ متابعة المُصْطَفَى عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ الصَّلَواتُ وَالتَسْلِيمَاتُ الْعَلَىٰ وَعَلَى جَمِيعِ الأنبياء والمُرْسَلِينَ وَعَلَى الْمَلَئِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ وَعَلَىٰ سَائِرِ الصَّالِحِينَ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ اجْمَعِينَ (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی اور حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم کی متابعت کو لازم پکڑا۔ )

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا