122

مکتوب 1 : مسئلہ وحدت وجود میں شیخ محی الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ کے مذہب کے بیان میں جو حضرت ایشان سلمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مختار ہے


مکتوب 1

مسئلہ وحدت وجود میں شیخ محی الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ کے مذہب کے بیان میں جو حضرت ایشان سلمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مختار ہے۔ شیخ عبدالعزیز جونپوری کی طرف صادر فرمایا:

اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جس نے امکان کو وجوب کا آئینہ اور عدم کو وجود کا مظہر بنایا و جوب اور ہ جود اگر چہ حق تعالی کے کمال کی دو صفتیں ہیں لیکن حق تعالی تمام اسماء وصفات اور تمام شیون و اعتبارات اور ظہور وبطون اور بروز و کمون اور تمام تجلیات و ظہورات اور تمام مشاہدات دم کا شفات اور تمام محسوس و معقول اور تمام موہوم و تخیل سے وراء اورا ثم وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے

گویم با تو از مرغے نشانه
که با عنقا بود هم آشیانه

ز عنقا هست نامی پیش مردم
ز مرغ من بود آن نام ہم گم

ترجمہ: کیوں کیا مرغ کا تجھ سے نشانہ
جو عنقا سے رہے ہم آشیانہ

مگر ہے نام عنقا سب کو معلوم
مرے ہے مرغ کا بھی نام معدوم

کسی حمد کرنے والے کا حمد اس کی ذات بلند کی پاک بارگاہ تک نہیں پہنچتا بلکہ اس کی عزت و جلال کے پردوں سے ورے ہی درے رہ جاتا ہے۔ اس ذات پاک نے اپنی تعریف آپ ہی کہی ہے اور اپنا حمد آپ ہی بیان کیا ہے۔ وہ ذات پاک آپ ہی حامد اور آپ ہی محمود ہے۔ تمام مخلوقات محمد مقصود کے ادا کرنے سے عاجز ہیں کیونکر نہ ہوں ۔ جب کہ وہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم بھی اس کی حمد سے عاجز ہیں ۔ جو قیامت کے دن لواء حمد کے اٹھانے والے ہیں۔ جس کے نیچے حضرت آدم اور تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام ہوں گے ۔ وہ رسول ظہور میں تمام مخلوقات میں سے افضل و اکمل اور مرتبہ میں سب سے زیادہ قریب اور سب سے زیادہ حسن و جمال و کمال کے جامع ہیں۔ ان کا قد رسب سے زیادہ بلند اور ان کی شان و شرف سب سے عظیم، ان کا دین سب سے مضبوط اور اور ان کی ملت سب سے زیادہ راست اور درست ہے۔ حسب میں سب سے زیادہ کریم اور نسب میں سب سے زیادہ شریف اور خاندان میں سب سے معزز اور بزرگ ۔ اگر اللہ تعالیٰ کو ان کا پیدا کرنا منظور نہ ہوتا تو خلقت کو پیدا نہ کرتا اور نہ ہی اپنی ربوبیت کو ظاہر فرما تا۔ وہ نبی تھے جبکہ آدم علیہ السلام ابھی پانی اور مٹی میں تھے ( یعنی پیدا نہ ہوئے تھے ) قیامت کے دن وہ تمام نبیوں کے امام اور خطیب اور ان کی شفاعت کرنے والے ہوں گے۔ انہوں نے اپنے حق میں یوں فرمایا ہے کہ قیامت کے دن ہم ہی پیچھے چلنے والے ہوں گے اور ہم ہی آگے جانے والے ہیں ۔ میں یہ بات فخر سے نہیں کہتا ( بلکہ اظہار حقیقت ہے ) اور میں ہی اللہ تعالیٰ کا حبیب اور خاتم النبین ہوں لیکن مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ جب قیامت کے دن لوگ قبروں سے نکلیں گے۔ سب سے اوّل میں ہی نکلوں گا اور جب وہ گروہ در گروہ جائیں گے تو ان کا ہانکنے والا میں ہی ہوں گا اور جب وہ خاموش کیے جائیں گے تو ان کی طرف سے خطیب اور کلام کرنے والا میں ہی ہوں گا اور جب وہ بند کیے جائیں گے تو ان کی شفاعت میں ہی کروں گا اور جب وہ رحمت و کرامت سے نا امید ہوں گے تو میں ہی ان کو خوشخبری دوں گا۔ اس دن تمام کنجیاں میرے ہی ہاتھ میں ہوں گی۔ ان پر اور ان کے تمام بھائی نبیوں اور مرسلوں اور ملائکہ مقربین اور تمام اہل اطاعت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوۃ وسلام و تحیتہ وبرکت نازل ہو جو ان کی شان بلند کے لائق ہے جس قدر کہ ذکر کرنے والے اس کا ذکر کریں اور غافل اس کے ذکر سے غافل رہیں۔


حمد وصلوٰۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد واضح ہو کہ آپ کا صحیفہ شریفہ جو اس فقیر کے نام لکھا ہوا تھا، ا میرے عزیز بھائی شیخ محمد طاہر نے پہنچایا اور بہت خوش کیا۔ چونکہ آپ کا صحیفہ کشف و شهود والوں کے حقائق و معارف سے بھرا ہوا تھا ، دو بالا خوشی حاصل ہوئی ۔ جَزَاكُمُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ. فقیر بھی آپ کے صحیفہ کی موافقت کر کے اس بلند گروہ کے ذوق و مذاق کی چند باتیں ان چند کلموں میں تحریر کر کے آپ کو تکلیف دیتا ہے۔ میرے مخدوم آپ کو معلوم ہے کہ وجود ہر خیر و کمال کا مبداء اور عدم ہر نقص و شرارت کا منشاء ہے۔ وجود واجب جل شانہ کے لیے ثابت ہے اور عدم ممکن کے نصیب ہے تا کہ تمام خیر و کمال حق تعالیٰ کی طرف عائد ہو اور تمام شرو نقص ممکن کی طرف راجع ہو۔ ممکن کے لیے وجود ثابت کرنا اور تمام خیر و کمال کو اس کی طرف راجع کرنا در حقیقت اللہ تعالیٰ کے مُلک و ملک میں اس کو شریک بنانا ہے۔

اسی طرح ممکن کو واجب تعالیٰ کا عین کہنا اور ممکن کے صفات و افعال کو حق تعالیٰ کے صفات و افعال کا عین بنانا بڑی بے ادبی اور حق تعالیٰ کے اسماء و صفات میں الحاد و شرک ہے۔ بیچارہ کمینہ خاکروب جو ذاتی نقص وخبث سے لتھڑا ہوا ہے، کیا مجال رکھتا ہے کہ اپنے آپ کو اس عظیم الشان بادشاہ کا عین تصور کرے جو تمام خیرات و کمال کا مبداء ہے یا اپنی بری یا زمیمہ صفات و افعال کو اس کی عمدہ اور جمیلہ صفات و افعال کا عین خیال کرے۔ علماء ظاہر نے ممکن کے لیے وجود ثابت کیا ہے اور واجب تعالیٰ کے وجود اور ممکن کے وجود کو وجود کے افراد مطلق سے سمجھا ہے یعنی قاعدہ تشکیک کے موافق واجب تعالیٰ کے وجود کو اولی و اقدام کہا ہے۔ حالانکہ یہ بات ممکن کو واجب تعالیٰ کے ساتھ ان کمالات و فضائل میں جو وجود سے پیدا ہوتے ہیں ،شریک بنانے کا باعث ہے ۔ تَعَالَى اللهُ عَنْ ذَلِكَ عَلُوا كَبِيراً (اللہ تعالیٰ اس بات سے بہت برتر اور بزرگ ہے ) حدیث قدسی میں آیا ہے ۔ الْكِبْرِياءُ رِدَائِي وَالْعَظْمَةُ ازارِی (بڑائی میری چادر اور عظمت میرا ازار ہے ) اگر علماء ظاہر اس دقیقہ سے واقف ہوتے تو ہر گز ممکن کے لیے وجود ثابت نہ کرتے اور خیر و کمال جو اس بارگاہ کے ساتھ مخصوص ہے، وجود کے اختصاص کے اعتبار سے ممکن کے لیے ثابت نہ کرتے ۔ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ( اللہ تو ہماری بھول چوک پر مواخذہ نہ کچھو ۔ ) اکثر صوفیاء اور خاص کر ان میں سے اکثر متاخرین نے ممکن کو واجب تعالی کا عین جانا ہے اور اس کے صفات و افعال کو حق تعالیٰ کے صفات و افعال کا عین خیال کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔

همسایه و همنشین و همراه همه اوست
در دلق گداؤ اطلس شه همه اوست

در انجمن فرق و نهانخانه جمع
باللہ ہمہ اوست ثم بالله اوست

ترجمہ: ہمسایہ و ہمنشین و ہمرہ ہے وہی
گدا و سلطان و فقیر و شہ ہے وہی

انجمن میں فرق و نہانخانہ میں جمع
بخدا سب وہی باللہ ہے وہی

یہ بزرگوار اگر چہ وجود کے شریک کرنے سے پر ہیز کرتے ہیں اور دوئی سے بھاگتے ہیں لیکن غیر وجود کو وجود جانتے اور نقائص کو کمالات سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ذاتی نقص وشرارت کی چیز میں نہیں ہے۔ اگر ہے تو نسی اور اضافی ہے۔ مثلا زہر قاتل انسان کی نسبت شرارت رکھتا ہے کیونکہ ان کی زندگی کو دور کرتا ہے لیکن اس حیوان کی نسبت جو اس زہر میں مخلوق ہے، آب حیات اور تریاق نافع ہے۔ اس امر میں ان کا مقتداء ان کا اپنا کشف و شہود ہے۔ جس قدر کہ ان کو معلوم ہوا ہے۔ انہوں نے ظاہر کر دیا ہے۔ اللَّهُمَّ اَرِنَا حَقَائِقَ الاشْيَاءِ كَمَا هِی (یا اللہ و ہم کو اشیاء کی دیا۔ حقیقتیں جیسی کہ وہ ہیں ، دکھا) اس بارے میں جو کچھ اس فقیر پر ظاہر کیا گیا ہے، مفصل بیان کرتا ہے۔ پہلے شیخ محی الدین ابن عربی کا جو متاخرین صوفیاء کا امام و مقتدا ہے۔ اس مسئلہ میں جو مذہب ہے، وہ بیان کرتا ہے۔ بعد ازاں جو کچھ کشف میں آیا ہے، تحریر کرتا ہے تا کہ دونوں مذہبوں کے درمیان پورے طور پر فرق ظاہر ہو جائے اور وقت کے باعث ایک دوسرے کے ساتھ ملے جلے نہ رہیں۔

شیخ محی الدین اور اس کے تابعین فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ کے اسماء وصفات حق تعالیٰ کی عین ذات ہیں نیز ایک دوسرے کے عین ہیں۔ مثلاً علم و قدرت جس طرح حق تعالیٰ کی ذات کے عین ہیں ، اسی طرح ایک دوسرے کے بھی عین ہیں اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس مقام میں تعدد و تکثر کا کوئی نام ونشان نہیں ہے اور نہ ہی کسی قسم کا تمائز وتائین ہے۔ حاصل کلام یہ کہ ان اسماء وصفات اور شیون واعتبارات نے حضرت علم میں اجمالی اور تفصیلی طور پر تمائز و تباین پیدا کیا ہے۔ اگر تمیز جمالی ہے تو اس کو تعین اول سے تعبیر کرتے ہیں اور اگر تفصیلی ہے تو اس کو تعیین ثانی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ تعین اول کو وحدت کہتے ہیں اور اسی کو حقیقت محمدی جانتے ہیں اور تعین ثانی کو احد بیت کہتے ہیں اور اس کو تمام ممکنات کے حقائق سمجھتے ہیں اور ان حقائق ممکنات کو اعیان ثابتہ جانتے ہیں۔ یہ دو عین علمی جن کو وحدت اور واحدیت کہتے ہیں ، مرتبہ وجوب میں ثابت کرتے ہیں

اور کہتے ہیں کہ ان اعیان نے وجود خارجی کی بو نہیں پائی اور خارج میں احدیت مجردہ کے سوا کچھ موجود نہیں ہے۔ یہ کثرت جو دکھائی دیتی ہے، ان اعیان ثابتہ کا عکس ہے جو ظاہر وجود کے آئینہ میں جس کے سوا خارج میں کچھ موجود نہیں منعکس ہوا ہے اور وجود تخیلی پیدا کیا ہے جس طرح کہ آئینہ میں کسی شخص کی صورت منعکس ہو کر آئینہ میں وجود تخیلی پیدا کر لے۔اس عکس کا وجود خیال کے سوا کچھ ثابت نہیں اور نہ ہی آئینے میں کسی شے نے حلول کیا ہے اور نہ ہی اس آئینے پر کوئی چیز منقش ہوئی ہے۔ ر تو ۔ اگر کچھ منقش ہے تو تخیل میں ہے جو صرف آئینہ میں وہمی طور پر ظاہر ہے۔ یہ تخیل اور میتو ہم عکس چونکہ صنعت خداوندی ہونے کے باعث بڑا استحکام اور اثبات رکھتا ہے، اس لیے وہم و تخیل کے اٹھنے سے اٹھ نہیں سکتا اور ثواب و عذاب ابدی اس پر مترتب ہے ۔ یہ کثرت جو خارج میں نمودار ہے، تین قسموں میں منقسم ہے۔ قسم اول تعیین روحی ہے اور قسم دوم تین مثالی اور قسم سوم تعین جسدی ہے جو عالم شہادت سے تعلق رکھتا ہے۔ ان تینوں تعینوں کو تعینات خارجیہ کہتے ہیں اور مرتبہ امکان میں ثابت کرتے ہیں ۔ تنزلات خمسہ بھی انہی تعینات پنجگانہ سے مراد ہے۔ ان تنزلات خمسہ کو حضرات خمس بھی کہتے ہیں۔ چونکہ حق تعالیٰ کی ذات اور اس کے اسماء وصفات کے سوا جو عین ذات ہیں، ان کے نزدیک خارج کا علم ثابت نہیں ہوا اور انہوں نے صورت علمیہ کو اس صورت کا عین سمجھا ہے،

نہ اس کا شبہ ومثال اور ایسے ہی اعیان ثابتہ کی صورت منعکسہ کو جو ظاہر وجود کے آئینہ میں نمودار ہوئی ہے۔ ان اعیان کا عین تصور کیا ہے۔ نہ اس کی شبہ و مانند ۔ اس لیے اتحاد کا حکم کیا ہے اور ہمہ اوست کہا ہے ۔

یہ ہے شیخ محی الدین کے مذہب کا بیان مسئلہ وحدت وجود میں اجمالی طور پر اور یہی وہ علوم ہیں

جن کو شیخ خاتم الولایت کے ساتھ مخصوص جانتا ہے اور کہتا ہے کہ خاتم النبوۃ ان علوم کو خاتم الولایت سے اخذ کرتا ہے اور جن کی توجیہ میں خصوص کے شارحین بڑے تکلفات کرتے ہیں ۔ حاصل کلام یہ کہ شیخ سے پہلے اس گروہ میں سے کسی نے ان علوم و اسرار کے ساتھ زبان نہیں کھولی اور اس حدیث کو کسی نے اس طرح بیان نہیں کیا۔ اگر چہ توحید و اتحاد کی باتیں سکر کے ملبوں میں ان سے ظاہر ہوئی ہیں اور انا الحق اور سبحانی کہا ہے لیکن اتحاد کی وجہ اور توحید کا موجب کسی نے معلوم نہیں کیا۔ پس شیخ ہی اس گروہ میں سے متقدمین کی برہان اور متاخرین کی حجت ہے لیکن ابھی اس مسئلہ میں بہت سے وقائع پوشیدہ رہ گئے ہیں اور اس بارہ میں کئی قسم کے پوشیدہ اسرار ظاہر نہیں ہوئے جن کے ظاہر کرنے اور لکھنے کی توفیق اس فقیر کو حاصل ہوئی ہے۔ واللهُ يُحقُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِى السَّبِيلَ ( اللہ تعالیٰ حق ثابت فرماتا ہے اور وہی سیدھے راستہ کی ہدایت دیتا ہے ) میرے مخدوم واجب الوجود جل شانہ کے صفات ثمانیہ جو اہل حق شکر اللہ تعالیٰ سعیہم کے نزدیک خارج میں موجود ہیں، حق تعالیٰ کی ذات سے خارج میں متمیز ہیں اور وہ تمیز بھی ذات و صفات کی طرح بیچون و بیچکون ہے۔ اسی طرح صفات بھی تمیز بچونی کے ساتھ ایک دوسرے سے متمیز ہیں بلکہ تمیز بیچونی حضرت ذات تعالی کے مرتبہ میں بھی ثابت ہے ۔ لأنّهُ الْوَاسِعُ بالوسع الْمَجْهُولِ الكَيْفِيَّة ( کیونکہ وہ ایسی وسعت کے ساتھ واسع یعنی اشیاء کو گھیر نے والا ہے جس کی کیفیت معلوم نہیں) وہ تمیز جو ہمارے نہم اور اور اک میں آسکے۔ اس جناب پاک سے مسلوب ہے کیونکہ تبعض اور تجزی ( بعض بعض اور جزو جزو ہونا ) اس جگہ متصور نہیں اور تحلیل و ترکیب کا اس بارگاہ میں دخل نہیں اور حال محل ہونے کی وہاں گنجائش نہیں ۔ غرض یہ کہ جو ممکن کے صفات و اعراض ہیں ، سب اس جناب پاک سے مسلوب ہیں۔ لیسَ كَمِثْلِهِ شَيءٍ فِي الدَّاتِ ولا شی فِي الصَّفَاتِ وَلَا فِي الأفعال ( ذات و صفات و افعال میں کوئی اس کی مانند نہیں ) اس بیچونی تمیز اور بے کیفی وسعت کے باوجود حق تعالیٰ کے اسماء وہ غات نے خانہ علم میں بھی تفصیل و تمیز پیدا کی ہے اور منعکس ہوئے ہیں اور ہر صفت واسم متمیزہ کے لیے مرتبہ علم میں ایک مقابل اور نقیض ہے۔ مثلاً مرتبہ علم میں صفت علم کا مقابل اور نقیض عدم علم ہے جس کو بہل سے تعبیر کیا جاتا ہے اور صفت قدرت کے مقابل مجز ہے جس کو عدم قدرت کہتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس۔ ان عدمات متقابلہ نے حق تعالیٰ کے حکم میں تفصیل و تمیز پیدا کی ہے اور اپنے متقابلہ اسماء وصفات کے آئینے اور ان سے عکس کے مظہر بن گئی ہیں ۔

فقیر کے نزدیک وہ عدمات بمعہ اسماء وصفات کے عکسوں کے حقائق ممکنات ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ عدمات ان ماہیات کے اصول و مواد کی طرح ہیں اور وہ عکوس ان مواد میں حلول کی ہوئی صورتوں کی طرح۔ پس شیخ محی الدین کے نزدیک ممکنات کے حقائق وہ اسماء وصفات کی نقیضیں ہیں بمعہ اسماء وصفات کے عکسوں کے جو خانہ علم میں ان عدمات کے آمینوں میں ظاہر ہوئی ہیں اور ایک دوسرے سے باہم مل گئی ہیں۔ قادر مختار جل شانہ نے جب چاہا کہ ان ماہیات ممتزجہ میں سے کی ماہیت کو وجود ظلمی کے ساتھ جو حضرت وجود کا پر تو ہے، متصف کر کے موجود خارجی بنائے تو اس ماہیت ممتزجہ پر حضرت وجود کا پر تو ڈال کر اس کو آثار خارجہ کا مبدا بنایا۔ پس ممکن کا وجود علم و خارج میں اس کی باقی صفات کی طرح حضرت وجود اور اس کی کمالات تابع کا پر تو ہے ۔ مثلا ممکن کا علم واجب الوجود کے علم کا پر تو اور کل ہے جو اپنے مقابل میں منعکس ہوا ہے اور ممکن کی قدرت بھی ایک کل ہے جو عجز میں جو اس کے مقابل ہے، منعکس ہوئی ہے۔ اسی طرح ممکن کا وجود حضرت وجود کامل ہے جو عدم کے آئینہ میں جو اس کے مقابل ہے منعکس ہوا ہے۔
نیا دردم از خانه چیزی نخست تو دادی همه چیز و من چیز تست ترجمہ نہیں لایا میں کوئی چیز گھر سے مرا جو کچھ کہ ہے بخشا ہے تو نے لیکن فقیر کے نزدیک شے کاطل شے کا عین نہیں بلکہ اس کا شبہ و مثال ہے اور ایک کا دوسرے پر حمل کرنا ممتنع اور محال ہے۔ پس فقیر کے نزدیک ممکن واجب کا عین نہ ہوگا اور ممکن کا واجب پر حمل کرنا ثابت نہیں ہوگا کیونکہ ممکن کی حقیقت عدم ہے اور وہ کس جو اسماء وصفات سے اس عدم میں عکس ہوا ہے وہ ان اسماء وصفات کا شبہ ومثال ہے نہ کہ ان کا عین ۔ پس ہمہ اوست کہنا درست نہیں ہوگا بلکہ ہمہ از اوست کہنا درست ہوگا کیونکہ ممکن کا ذاتی وجود عدم ہے جو شرارت و نقص وخبث کا مبدء ہے اور جو کمالات از قسم وجود اوراس کی توابع وغیرہ کے ممکن میں پائی جاتی ہیں ۔ سب اس بارگاہ جل شانہ سے حاصل کی ہوئی ہیں اور حق تعالیٰ کے کمالات ذاتیہ کا پر تو ہیں۔ پس حق تعالیٰ ہی زمین و آسمان کا نور ہے اور اس کے ماسواء ظلمت ہی ظلمت ہے کیونکر نہ ہو جبکہ عدم تمام ظلموں سے برتر اور بڑھ کر ہے۔ اس مبحث کی تحقیق کما حقہ اس مکتوب میں جوفرزند اعظم مرحوم کے نام وجود کی حقیقت اور ماہیات ممکنات کی تحقیق میں لکھا ہے

تحریر ہو چکی ہیں ۔ وہاں سے طلب فرمالیں ۔ پس شیخ محی الدین کے نزدیک عالم سب کا سب ان اسماء وصفات سے مراد ہے جنہوں نے خانہ علم میں تمیز پیدا کر کے ظاہر وجود کے آئینہ میں نمود و نمائش حاصل کی ہے اور فقیر کے نزدیک عالم ان عدمات سے مراد ہے جن میں حق تعالیٰ کے اسماء وصفات خانہ علم میں منعکس ہوئی ہیں اور وہ عدمات بمعہ ان عکسوں کے حق تعالیٰ کے ایجاد سے وجود ظلی کے ساتھ خارج میں موجود ہوئی ہیں۔ پس عالم میں خبث ذاتی اور شرارت جبلی ظاہر اور پیدا ہے اور سب خیر و کمال حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کی طرف راجع ہے۔ آیت کریمہ مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِک (جو تجھے بھلائی پہنچے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو تجھے برائی پہنچے وہ تیرے اپنے نفس سے ہے ) اس معرفت کی تائید کرتی ہے۔ اللَّهُ سُبْحَانَهُ الْمُلْهِمُ. پس اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ عالم وجود ظلی کے ساتھ خارج میں موجود ہے جس طرح کہ حق تعالٰی وجود اصلی کے ساتھ بذات خود خارج میں موجود ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ عالم کا یہ خارج بھی وجود و صفات کی طرح حق تعالیٰ کے وجود کے خارج کا حل ہے۔ پس عالم کو حق تعالیٰ کا عین نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی ایک کو دوسرے پر حمل کر سکتے ہیں۔ شخص کے ظل کو شخص کا عین نہیں کہہ سکتے ۔ لِوُجُودِ التَّغَائِرِ بَيْنَهُمَا فِي الْخَارِجِ لَانَّ الْإِثْنَيْنِ مُتَغَايران ) کیونکہ خارج میں دونوں ایک دوسرے کے متغائر ہیں۔ اس لیے کہ دو چیزیں ایک دوسرے کی متفائر ہوتی ہیں) اور اگر کوئی آدمی شخص کے ظل کو شخص کا عین کہے تو تسامح اور تجوز کے طریق پر ہوگا جو اس بحث سے خارج ہے۔

اگر کہیں کہ شیخ محی الدین اور اس کے تابعین بھی عالم کو حق تعالیٰ کا ظل جانتے ہیں ۔ پھر فرق کیا ہوا تو میں کہتا ہوں کہ یہ لوگ اس ظلی وجود کو صرف وہم ہی میں خیال کرتے ہیں اور وجود خارجی کی بو تک بھی اس کے حق میں تجویز نہیں کرتے ۔ غرض کثرت موہومہ کو وحدت وجود کے ظل سے تعبیر کرتے ہیں اور خارج میں واحد تعالیٰ ہی کو موجود جانتے ہیں ۔ شَتَّانَ مَا بَيْنَهُمَا ( ان دونوں میں بہت فرق ہے ) پس ظل کے اصل پر حمل کرنے اور نہ کرنے کا باعث ظل کے لیے وجود خارجی کا ثابت کرنا اور نہ کرنا ہے۔ یہ لوگ چونکہ ظل کے لیے وجود خارجی ثابت نہیں کرتے ، اس لیے اصل پر محمول کرتے ہیں اور یہ فقیر چونکہ کل کو خارج میں موجود جانتا ہے، اس لیے اصل پر حمل کرنے کی جرات نہیں کرتا۔ ظل سے وجود اصلی کے نفی کرنے میں فقیر اور یہ لوگ شریک ہیں اور وجود ظلی کے ثابت کرنے میں بھی متفق ہیں لیکن یہ فقیر وجود ظلی خارج میں ثابت کرتا ہے اور یہ لوگ وجود ظلی کو وہم و بخیل ہی میں سمجھتے ہیں اور خارج میں احدیت مجردہ کے سوا کچھ موجود نہیں جانتے اور صفات ثمانیہ جن کا وجود اہل سنت و جماعت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی آراء کے موافق خارج میں ثابت ہوا ہے ، ان کو بھی علم کے سوا ثابت نہیں کرتے ۔ علماء ظاہر اور انہوں نے اعتدال اور میانہ روی کے دو طرفوں یعنی افراط و تفریط کو اختیار فرمایا ہے اور متوسطہ اس فقیر کو نصیب ہوا ہے جس کی توفیق اس فقیر کو دی گئی ہے۔ اگر یہ لوگ بھی اس خارج کا ظل معلوم کرتے تو عالم کے وجود خارجی کا انکار نہ کرتے اور وہم و خیل پر کفایت نہ فرماتے اور واجب الوجود کی صفات کے وجود خارجی کا انکار نہ کرتے اور اگر علما ، ظاہر بھی اس سر سے واقف ہوتے تو ہرگز ممکن کے لیے وجود اصلی ثابت نہ کرتے اور وجود ظلی پر کفایت کرتے اور یہ جو فقیر نے بعض مکتوبات میں لکھا ہے کہ ممکن پر وجود کا اطلاق کرنا حقیقت کے طور پر موجود ہے نہ کہ مجاز کے طور پر اس تحقیق کے منافی نہیں کیونکہ ممکن خارج میں وجود ظلی کے ساتھ حقیقت کے طور پر موجود ہے نہ کہ تو ہم وخیل کے طور پر جیسے کہ انہوں نے خیال کیا ہے۔

:سوال: صاحب فتوحات مکیہ نے اعیان ثابتہ کو وجود اور عدم کے درمیان برزخ کہا ہے ۔ پس عدم اس کے طور پر بھی حقائق ممکنات میں داخل ہوا۔ پھر اس تحقیق اور اس قول کے درمیان کیا فرق ہوا۔

جواب: برزخ اس اعتبار سے کہا ہے کہ صور علمیہ کی دو جہتیں ہیں۔ ایک جہت وہ ہے جو ثبوت عملی کے باعث وجود سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری جہت وہ ہے جو عدم خارجی کے سبب عدم سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ اس کے نزدیک اعیان ثابتہ کو وجود خارجی کی بوتک نہیں پہنچی اور وہ عدم جو اس تحقیق میں درج ہوا ہے اور ہی حقیقت رکھتا ہے۔ ایسے ہی بعض بزرگوں کی عبارتوں میں ممکن پر عدم کا اطلاق ہوا ہے۔ اس سے مراد معدوم خارجی ہے نہ وہ عدم جس کی تحقیق او پر ہو چکی ہے۔ حق تعالی ان اسماء وصفات سے جنہوں نے علم میں تفصیل و تمیز پائی ہے اور عدمات کے آئینوں میں منعکس ہو کر ممکنات کے حقائق ہو گئے ہیں ۔ وراء الورا ہے۔ پس عالم کو حق تعالیٰ کے ساتھ کسی قسم کی مناسبت نہیں ۔ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِي عَنِ الْعَالَمِينَ ( الله تعالی تمام اہل جہان سے غنی ہے ) حق تعالیٰ کو عالم کا مین کہنا اور اس کے ساتھ متحد جاننا بلکہ نسبت دینا بھی اس فقیر پر بہت گراں اور دشوار ہے۔


آں ایشا نندو من چنینیم یارب
:ترجمہ وہ ایسے ہیں، میں ایسا ہوں خدایا


سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَسَلَام عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِله
رَبِّ الْعَالَمِينَ ( تیرا رب اس توصیف سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ، پاک اور بزرگ ہے اور مرسلین
پر سلام ہو اور اللہ رب العالمین کی حمد ہے ) والسلام عليكم وعلى من لديكم لَّدَيْكُمْ

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا