232

مکتوب 1 : ان حالات کے بیان میں جو اسم ظاہر سے مناسبت رکھتے ہیں


مکتوب : 1 ، جلد : 1

ان حالات کے بیان میں جو اسم ظاہر سے مناسبت رکھتے ہیں اور توحید کی ایک خاص قسم کے ظہور اور ان عروجات کے بیان میں جو عرش پر واقع ہوئی ہے اور درجات بہشت اور بعض اہل اللہ کے مراتب کے ظہور میں اپنے پیر بزرگوار کی طرف لکھا ہے اور وہ شیخ کامل دوسروں کو کامل کرنے والے کمال ولایت کے درجوں تک پہنچانے والے ایسے راستہ کی طرف ہدایت کرنے والے جس کی ابتداء میں انتہا مندرج ہے۔ پسندیدہ دین کی تائید کرنے والے ہمارے شیخ اور امام محمد باقی باللہ نقشبندی احراری ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے بھید کو پاک کرے اور ایسے اعلیٰ درجہ تک ان کو پہنچائے جس کی وہ آرزو رکھتے ہیں۔

حضور کے غلاموں میں سے کمترین غلام احمد خدمت عالی میں عرض کرتا ہے اور حضور کے حکم شریف کے موافق گستاخی کرتا ہے اور اپنے حالِ پریشان حضور کے پیش کرتا ہے کہ اثنائے راہ ( راہ سلوک) میں حق تعالٰی اسم ظاہر کی تجلی سے اس قدر جلوہ گر ہوا کہ تمام اشیاء میں خاص تجلی کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ظاہر ہوا۔ خاص کر عورتوں کے لباس میں بلکہ ان کے اجزاء اور اعضاء میں جدا جدا ظاہر ہوا اور میں اس گروہ کا اس قدر مطیع ہوا کہ کیا عرض کروں اور میں اس تابعداری میں بے اختیار تھا جو ظہور اس لباس میں تھا وہ کسی اور جگہ نہ تھا۔ وہ عمدہ عمدہ خصوصیتیں اور عجیب عجیب خوبیاں جو اس لباس میں ظاہر ہوئی کسی اور مظہر سے ظاہر نہ ہوئیں۔ میں ان سب کے آگے پگھل کر پانی پانی ہوا جاتا تھا اور ایسے ہی ہر کھانے پینے پہنے کی چیز میں الگ الگ جلوہ گر ہوا جو لطافت اور خوبی کہ لذیذ پر تکلف کھانے میں تھی وہ کسی اور کھانے میں نہ تھی اور میٹھے پانی سے لے کر پھیکے اور کڑوے پانی تک بھی یہی فرق تھا بلکہ ہر لذیذ اور شیریں چیزیں درجات کے اختلاف کے بموجب جدا جدا ایک کامل خصوصیت تھی۔ بندہ اس تجلی کی خصوصیتوں کو بذریعہ تحریر عرض نہیں کر سکتا اگر خدمت اقدس میں حاضر ہوتا تو شاید عرض کر سکتا لیکن ان تجلیات کے وقت رفیق اعلیٰ (یعنی خداوند تعالیٰ) کی آرزو رکھتا تھا اور حتی المقدور ان کی طرف متوجہ نہ ہوتا تھا لیکن مغلوب تھا اور کوئی چارہ نہ جانتا اسی حالت میں معلوم ہوا کہ یہ تجلی اس تنزیہی نسبت کے مخالف نہیں ہے اور باطن ویسے ہی اس تنزیہی نسبت میں گرفتار ہے اور ظاہر کی طرف بالکل متوجہ نہیں ہے اور ظاہر کو جو اس نسبت تنزیہی سے خالی اور بیکار تھا اس تجلی سے مشرف فرمایا ہے اور واقعی میں نے ایسا ہی معلوم کر لیا کہ باطن ہرگز کجی نظر میں مبتلا نہیں ہے اور تمام معلومات اور ظہورات سے روگردان ہے اور ظاہر کو جو کثرت اور دوئی کی طرف متوجہ تھا، ان تجلیات کی سعادت بخشی ہے کچھ مدت کے بعد یہ تجلیات پوشیدہ ہو گئیں اور وہی حیرانی اور نادانی کی نسبت طاری ہو گئی ۔ وَصَارَتْ تِلْكَ التَّجَلِيَاتُ كَانْ لَّم يَكُنُ شَيْئاً مَّذْكُورًا (اور یہ سب تجلیات اس طرح پوشیدہ ہو گئیں گویا کہ کچھ بھی نہ تھیں ) اور اس کے بعد ایک خاص فنا ظاہر ہوئی اور بیشک وہ تعین علمی جو تعین ذاتی کے عود کے بعد پیدا ہوئی تھی ، وہ اس فنا میں گم ہوگی اور انانیت اور نفسانیت کا کوئی اثر نہ رہا۔ اس وقت اسلام حقیقی کے آثار اور شرک خفی کے دور ہونے کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں اور ایسے ہی اعمال کو کوتاہ دیکھنا اور نیتوں اور ارادوں کو تہمت زدہ جانا ظہور میں آنے لگا۔ غرض عبودیت اور نیستی کے بعض نشان اس کے بعد ظاہر ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضور کی توجہ کی برکت سے بندگی کی حقیقت تک پہنچائے اور عرض پر بہت دفعہ عروج واقع ہوئے ہیں۔
پہلی مرتبہ : جو عروج واقع ہوا اور سفر طے کرنے کے بعد جب عرش پر پہنچا، عرش کے نیچے بہشت مشاہدہ میں آیا۔ اس وقت دل میں گزرا کہ وہاں بعض آدمیوں کے مقامات کا مشاہدہ کروں ۔ جب اس طرف متوجہ ہوا ان کے مقامات نظر آئے اور ان شخصوں کو بھی ان کے درجوں کے اختلاف کے موافق مکان اور مرتبہ اور شوق و ذوق کے لحاظ سے ان مقاموں میں دیکھا ۔

دوسری مرتبہ : پھر عروج واقع ہوا۔ بڑے بڑے مشائخ اور امامانِ اہلبیت اور خلفائے راشدین کے مقامات اور حضرت رسالت پناہ ﷺ کا خاص مقام اور ایسے ہی درجہ بدرجہ تمام نبیوں اور رسولوں کے مقام اور مقربین فرشتوں کے مقامات عرش کے اوپر مشاہدہ میں آئے اور عرش پر اس قدر عروج واقع ہوا کہ مرکز زمین سے لے کر عرش یا اس سے کچھ کم تک اور حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کے مقام تک ختم ہوا اور اس مقام کے اوپر بلکہ اسی مقام میں تھوڑی سی بلندی میں چند مشائخ مثل شیخ معروف کرخی علیہ الرحمۃ اور شیخ ابوسعید خر از علیہ الرحمہ تھے اور باقی مشائخ میں سے بعض اس مقام کے نیچے مقام رکھتے تھے اور بعض مشائخ اس مقام میں تھے لیکن ذرا نیچے مثل شیخ علاؤالدین سمنانی اور شیخ نجم الدین کبری کے اور اس مقام کے اوپر امامانِ اہلبیت اور ان کے اوپر خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین تھے اور تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے مقامات آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے مقام سے ایک طرف علیحدہ تھے اور ایسے ہی ملائکہ مقربین صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین کے مقامات اس مقام سے دوسری طرف جدا تھے لیکن آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا مقام تمام مقامات سے بلند و برتر تھا۔ وَاللهُ سُبْحَانَهُ أَعْلَمُ بِحَقَائِقِ الْأُمُورِ كُلَّها ( اور حقیقت حال کو پورے طور پر اللہ تعالیٰ ہی جاننے والا ہے ) اور جب چاہتا ہوں، اللہ تعالیٰ کی عنایت سے عروج واقع ہو جاتا ہے اور بعض اوقات بے ارادہ بھی واقع ہو جاتا ہے اور کچھ اور ہی دیکھا جاتا ہے اور بعض عروجوں کے نتیجے بھی مترتب ہوتے ہیں اور اکثر چیزیں بھول جاتی ہیں اور ہر چند چاہتا ہوں کہ بعض حالات کو لکھ لوں تا کہ عریضہ لکھتے وقت یاد آ جاویں لیکن نہیں ہو سکتا کیونکہ نظر میں حقیر اور
بیچ دکھائی دیتے ہیں ان کا لکھنا تو کجا۔ ان سے تو بہ ہی کرنا مناسب ہے۔

عریضہ لکھتے وقت بعض چیزیں یاد نہیں ۔ عریضہ ختم کرنے تک یاد نہ رہیں تا کہ لکھی جاتیں اس واسطے زیادہ گستاخی نہ کی۔

ملاقاسم علی کا حال بہتر ہے اس پر استہلاک اور استغراق (یعنی فنا ) کا غلبہ ہے اور اس نے
جذبہ کے تمام مقامات سے اوپر قدم رکھا ہے اور صفات کو جو اول اصل سے دیکھتا تھا، اب با وجود اس کے صفات کو اپنے سے جداد یکھتا ہے اور اپنے آپ کو محض خالی پاتا ہے بلکہ اس نور کو بھی کہ جس کے ساتھ صفات قائم ہیں، اپنے سے جدا د یکھتا ہے اور اپنے آپ کو اس نور سے الگ پاتا ہے اور دوسرے یاروں کے حال بھی دن بدن بہتری اور ترقی میں ہیں۔ دوسرے عریضہ میں انشاء اللہ العزیز مفصل عرض کیا جائے گا۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا