حقیقت محمدی ظہور اول کے متعلق مولانا حسن دہلوی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اللہ تعالی کیلئے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) حقیقت محمدی جو ظہور اول اورحقيقۃ الحقائق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسری حقائق کیا انبیاء کرام کی حقائق اور کیا ملائکہ عظام کی حقائق سب اس کے اظلال کی مانند ہیں اور وہ تمام حقائق کا اصل ہے۔ رسول اللہﷺنے فرمایا ہے۔ اول ماخلق الله نوری(سب سے اول خدا تعالی نے میرے نور کو پیدا کیا اور فرمایا ہے خلقت من نور الله والمؤمنون من نوری ( میں اللہ تعالی کے نور سے پیدا ہوا ہوں اور مومن میرے نور سے ) پس وہ حقیقت باقی تمام حقائق اور حق تعالی کے درمیان واسطہ ہے اور آنحضرت ﷺکے واسطہ کے بغیر کوئی مطلوب تک نہیں پہنچ سکتا۔ فهو نبی الأنبياء والمرسلين وارساله رحمة للعالمين عليه وعلى اله الصلوة والسلام ( وہ تمام انبیاء اور مرسلین کے نبی ہیں اور ان کا بھیجنا جہان کے لیے رحمت ہے) یہی وجہ ہے کہ انبیاءاولوالعزم با وجود اصالت کے ان کی تبعیت طلب کرتے رہے اور ان کی امت میں داخل ہونے کی آرزو کرتے رہے جیسے کہ حدیث میں وارد ہے۔
سوال: وہ کون سا کمال ہے جو حضور کی امت ہونے پر وابستہ ہے اور انبیاء کو دولت نبوت کے باوجود میسر نہیں ہوا۔
جواب: وہ کمال اس حقیقۃ الحقائق کے ساتھ واصل اور متحد ہونا ہے جو وراثت و تبعیت پر وابستہ ہے بلکہ حق تعالی کے کامل فضل پر موقوف ہے جو حضور کی امتوں میں سے اخص خواص کے نصیب ہے جب تک امت نہ ہوں اس دولت تک نہیں پہنچتے اور تو سط کا حجاب رفع نہیں ہوتا جو اتحاد کے وسیلہ سے میسر ہے۔ شاید اسی واسطے حق تعالی نے فرمایا ہے کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ (تم تمام امت میں سے بہتر ہو پس آنحضرت علیہ الصلوة والسلام جس طرح انبیاء کرام اور ملائکہ عظام کے ہر ایک فرد سے افضل ہیں اسی طرح کل ہونے کی حیثیت سے کل سے افضل ہیں اس لیے کہ اصل کو اپنے ظل پر فضیلت ہے اگر چہ اس ظل کے آگے اور ہزارہا ظل ہوں کیونکہ اس بارگاہ جل شانہ سے ظل تک فیوض کا پہنچنا اس اصل ہی کے واسطہ اور طفیل سے ہے ۔ فقیر نے اپنے رسالوں میں تحقیق کی ہے کہ اوپر کے نقطے کو نیچے کے تمام نقطوں پر جو اس کے ظلال کی طرح ہیں فضیلت ہے اور عارف کا اس اوپر کے نقطہ کو ( جو اصل کی طرح ہے )قطع کرنا نیچے کے تمام نقطوں کو ( جو اس کےظلال کی مانند ہیں ) قطع کرنے سے زیادہ درجہ رکھتا ہے۔
سوال: اس بیان سے لازم آتا ہے کہ اس امت کے خواص کو انبیاء پر فضیلت ہے۔ جواب: کوئی فضیلت لازم نہیں آتی۔ البتہ اس قدر ثابت ہے کہ اس امت کے خواص اس دولت میں انبیا کے شریک ہیں ۔ اس کے علاوہ اور بہت سے کمالات ہیں جن کے ساتھ انبیاء علیہم الصلوة والسلام کو زیادتی اور خصوصیت حاصل ہے۔ اس امت میں سے اخص خواص خواه کتنی ہی زیادہ ترقی کرے۔ اس کا سراس پیغمبر کے پاؤں تک بھی نہیں پہنچتا جو تمام پیغمبروں سے کم درجہ ہے پھر برابری اور زیادتی کی کیا گنجائش ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ (ہمارے مرسل بندوں کے لیے ہمارا وعدہ ہو چکا ہے کہ یہی لوگ فتح مند ہیں ) اگر امتوں میں سے کوئی فرد اپنے پیغمبر کے طفیل و تبعیت کے باعث بعض پیغمبروں سے اوپر چلا جائے تو خادمیت اور تبعیت کے طور پر ہوگا کیونکہ معلوم ہے کہ خادم کو مخدوم کے ہمسروں کے ساتھ خادمیت و تبعیت کے سوا اور کوئی نسبت نہیں۔ خادم وطفیلی ہر وقت طفیلی ہے جو کچھ آخر کار مراتب ظلال کے طے کرنے کے بعد اس فقیر پر منکشف ہوا ہے ۔ یہ ہے کہ حقیقت میں جوحقيقة الحقائق ہے۔ اس حب کا تعین اور ظہور ہے جو ظہورات کا مبدأ اور مخلوقات کی پیدائش کا منشاء ہے۔ جیسے کہ اس حدیث قدسی میں آیا ہے جو مشہور ہے۔ كُنْتُ كَنْزًا مَخْفِيًّا فَأَرَدْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ ( میں ایک پوشیده خزانہ تھا میں نے چاہا کہ پہنچانا جاؤں پس میں نے خلق کو پیدا کیا) اول اول دہ چیز جو اس پوشیدہ خزانہ سے میدان ظہور میں آئی یہی حب ہے جومخلوقات کی پیدائش کا سبب ہوئی ہے۔ اگر یہ حب نہ ہوتی تو ایجاد کا دروازہ نہ کھلتا اور عالم عدم میں راسخ اور مستمر رہتا۔ حدیث دی لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفْلَاكَ (اگر تو نہ ہوا تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا) کے ستر کو جو حضرت خاتم الرسل کے شان میں ہے اسی جگہ ڈھونڈنا چاہیئے اور وَلَوْلَاكَ لَمَا أَظْهَرْتُ الرَّبُوْبِيَّةَ اگر تو نہ ہوتا تو میں اپنی ربوبیت کو ظاہر نہ کرتا) کی حقیقت کو اس مقام میں طلب کرنا چاہیئے۔ سوال: فتوحات مکیہ والے نے تعین اول جو حقیقت محمدی ہے حضرت اجمال علم کو کہا ہے اور تم نے اپنے رسالوں میں تعین اول تعین وجودی کو کہا ہے اور اس کے مرکز کو جو اس کے تمام اجزا میں سے اشرف واسبق(سب سے پہلی) ہے۔ حقیقت محمد قرار دیا ہے اور حضرت اجمال علم کو اس تعین وجودی کا ظل سمجھا ہے اور یہاں لکھتے ہو کہ تعین اول حبی ہے اور وہ حقیقت محمدی ہے۔ ان اقوال کے درمیان موافقت کی وجہ کیا ہے؟
جواب: بسا اوقات شے کا ظل اپنے آپ کوشے کے اصل پر ظاہر کرتا ہے اور سالک کو اپنے ساتھ گرفتار کر لیتا ہے۔ پس وہ دونوں تعین تعین اول کے ظلال ہیں جو عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالی کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) کے وقت عارف تعین اول یعنی تعین حبی کے اصل کی طرح ظاہر ہوتا ہے۔
سوال: تعین وجودی کرتعین حبی کاظل کہنا کس طرح درست ہے۔ حالانکہ وجود کو حب پر سبقت ہے کیونکہ حب وجود کی فرع ہے۔
جواب: اس فقیر نے اپنے رسالوں میں تحقیق کی ہے کہ آنحضرت حق سبحانہ وتعالی بذات خود موجود ہے نہ کہ وجود کے ساتھ ۔ اسی طرح حق تعالی کی صفات ثمانیہ واجب الوجود کی ذات کے ساتھ موجود ہیں۔ نہ کہ وجود غیر کے ساتھ کیونکہ وجود بلکہ وجوب کو بھی اس مرتبہ میں گنجائش نہیں۔ کیونکہ وجوب وجود دونوں اعتبارات میں سے ہیں ۔ عالم کے ایجاد کے لیے پہلے جو اعتبار پیدا ہوا وہ حب ہے۔ بعد ازاں اعتبار وجود جو ایجاد کا مقدمہ ہے کیونکہ حضرت ذات جل شانہ اس حب اور اس وجود کے اعتبارات کے بغیر عالم اور عالم کی ایجاد سے مستغنی ہے۔ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ الله تعالی تمام جہانوں سے غنی ہے) اور تعین علمی اجمالی کو ان دونوں تعینوں کاظل کہنا اس اعتبار سے ہے کہ وہ دونوں تعین صفات کے ملاحظہ کے بغیر ذات تعالی کے اعتبار سے ہیں اور اس تعین میں صفت ملحوظ ہے جوذات عزشانہ کے لیے ظل کی طرح ہے۔ جاننا چاہے کہ تعین اول میں کہ تعین حبی ہے جب بڑی بار یک نظر سے دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس تعین کا مرکز حب ہے جو حقیقت محمدی ﷺ ہے اور اس کا محیط(جوصورت مثال میں دائرہ کی طرح ہے اس مرکز کےظل کی مانند ہے) خلت ہے جس کو حقیقت ابرا ہیمی کہتے ہیں ۔ پس جب اصل ہے اور خلت اس کے ظل کی طرح اور یہ مجموعہ مرکز ومحيط کہ ایک دائرہ ہے تعین اول ہے اور اس کے اجزاء میں نے اشرف اور اسبق جزویعنی مرکز کے نام سے کہ حب سے مراد ہے مسمی ہے اور نظر کشفی میں بھی اصالت کے اعتبار اور اس جزو کے غلبہ سے تعین حبی ظاہر ہوتا ہے چونکہ محيط دائرہ مرکز کے ظل کی طرح ہے اور اسی سے پیدا ہے اور وہ مرکز اس کا اصل ومنشا ہے اس لیے اگر اس محیط کو جو حب وخلت پرمشتمل ہے جو ایک ہی دائرہ کے مرکز ومحيط ہیں اور تعین ثانی نظرکشفی میں تعین وجودی ہے جو تعین اول کے ظل کی طرح ہے جیسے کہ گزر چکا چونکہ مرکز محیط کا اصل ہے اس لیے محیط کے لیے مطلوب تک پہنچنے میں مرکز کا واسطہ و وسیلہ ضروری ہے کیونکہ مطلوب تک پہنچنا مرکز ہی کی راہ سے ہے جو دائرہ کا اصل اور اجمال ہے اس بیان سے اس مناسبت و اتحاد کو جو حضرت حبیب اللہ علیہ الصلوة والسلام کو حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوة والسلام کے ساتھ ہے ۔ معلوم کرنا چاہیئے چونکہ ظل کے مطلوب تک پہنچنے میں اصل واسطہ و وسیلہ ہے۔ اس لیے حضرت خلیل الله علیہ الصلوة والسلام نے حضرت حبیب اللہ کا واسطہ و وسیلہ طلب کیا ہے اور یہ آرزو فرمائی ہے کہ ان کی امت میں داخل ہوجیسے کہ وارد ہے۔
سوال: جب معاملہ ایسا ہے تو پھر حضرت حبیب اللہ کو حضرت خلیل اللہ کی ملت کی متابعت کا امر کس لیے ہے اور آنحضرت ﷺنے اپنے اوپر صلوۃ وسلام کے بیان میں كَمَا صَلَّيْت اور كَمَا سَلَّمْت عَلَى إبْرَاهِيمَ کیوں فرمایا؟
جواب:شے کی حقیقت جس قدر زیادہ بلند اور تنزیہ کے زیادہ قریب ہوگی اسی قدر اس حقیقت کا مظہر عالم عناصر میں زیادہ پست اور صفات بشریت کے ساتھ زیادہ متلبس ہوگا ۔ پس اس مظہرکا عروج کی راہ سے اس حقیقت تک پہنچنا بہت مشکل ہے اور وہ خلت جو حضرت ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا ہوئی ہے۔ حقیقت ابرا ہیمی تک پہنچنے کے لیے جو حقیقت محمدی کے قریب وجوار میں واقع ہوئی ہے ۔ سیدهی شاہراہ ہے جیسے کہ گزر چکا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اسی راستہ سے وہاں تک پہنچے ہیں۔ اسی واسطے امر ہوا ہے کہ اس ملت کی متابعت کر کے حقیقت الحقائق تک وصول فرمائیں اور آنحضرت ﷺنے اسی واسطے کماصلیت فرمایا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پرصلوۃ وسلام وصول حقیقت کی دولت کے حاصل ہونے کے بعد ہے یا ہم یوں کہتے ہیں کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ فاضل(اعلی) کو مفضول (ادنی)کی متابعت کا حکم کرتے ہیں اور اس متابعت کے امر سے اس کی فضیلت میں کوئی قصور لازم نہیں آتا۔ اللہ تعالی نے نبی علیہ الصلوة والسلام کو فرمایا ہے۔ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ (امر میں ان سے مشورہ کر) اصحاب کے ساتھ مشوره کرنے کا حکم ان کی متابعت کے حکم سے خالی نہیں ۔ ورنہ مشورت کا کیا فائدہ ہے۔
جاننا چاہیئے کہ حضرت صدیق کی حقیقت یعنی اسماء الہی جل شانہ میں سے ان کا رب جو ان کا مبدا تعین ہے کسی امر کے توسط کے بغیر حقیقت محمد کاظل ہے۔ اس طرح پر کہ جو کچھ اس حقیقت میں موجود ہےاس ظل میں تبعیت و وراثت کے طورپر ثابت ہ اسی واسطے حضرت صد یق رضی اللہ عنہ ا اس امت کے وارثوں میں سے اکمل وافضل ہیں۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے۔ مَا صَبَّ اللَّه شَيْئًا فِي صَدْرِي إِلَّا وَصَبَّهُ فِي صَدْرِ أَبِي بَكْرٍ (جس چیز کو اللہ تعالی نے میرے سینے میں ڈالا میں نے اس چیز کو ابوبکر کے سینے میں بھی ڈالا ) اور یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ حقیقت اسرافیلی بھی یہی حقیقت محمدی ہے لیکن اصالت وظليت کے طریق پرنہیں جیسے کہ حضرت صدیق کی حقیقت اس حقیقت کاظل ہے۔ بلکہ یہاں دونوں اصالت رکھتی ہیں کوئی ظلیت در میان حائل نہیں ۔ فرق صرف کلیت اور جزئیت کا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺکل ہیں ۔ اسی واسطے وہ حقیقت آنحضرت ﷺکے نام سے مسمی ہے اور ملائکہ کرام کے حقائق اس حقیقت اسرافیلی سے پیدا ہوئے ہیں۔
سوال: عارف کو اپنی حقیقت سے جو اس اسم الہی جل شانہ سے مراد ہے جو اس کا رب ہے اس حقیقت تک پہنچنے کے بعدترقی جائز ہے یا نہیں۔
جواب :اس حقیقت تک پہنچنا مراتب سلوک کے طے کرنے کے بعد جو سیر الی اللہ کے تمام ہونے سے مراد ہے دوقسم پر ہے۔ ایک قسم وہ ہے کہ جس میں اس اسم کے ظلال میں سے اس ظل تک پہنچنا ہے جس نے اپنے آپ کو مظاہرو جو بیہ میں اپنی حقیقت کے طور پر ظاہر کیا ہے اور اصل کے رنگ پر نمایاں ہے۔ اس راستے میں یہ اشتباه بہت واقع ہوتا ہے اور سالک کے لیے بڑی بھاری گھاٹی ہے۔ محض فضل کے ساتھ اس گھاٹی سے خلاصی میسر ہوتی ہے اور شک نہیں کہ اس حقیقت نماظل سے ترقی جائز بلکہ واقع ہے اور اگر اپنی نفس حقیقت تک وصول واقع ہو جائے تو دوسرے کے طفیل و تبعیت کے بغیر اس سے ترقی کرنا جائز نہیں کیونکہ وہ حقیقت اس کے ذاتی استعداد کے مراتب کی نہایت ہے۔ ہاں اگرطفیل سے اس کو دوسری جقيقت تک جواس کی حقیقت کے اوپر ہے پہنچائیں تو جائز بلکہ واقع ہے یہ سیر گویا سیرقسری(خارج از ذات، جبری) ہے جو سیر طبیعی اور استعدادی کے ماسوا ہے۔ چنانچہ اس کا تھوڑا سا حال حقیقت محمدی کے حصول کے بیان میں پہلے گزر چکا ہے۔
سوال: حقیقت محمدی حقيقۃ الحقائق ہے اور ممکنات کی حقیقتوں میں سے کوئی حقیقت اس سے اوپرنہیں اس سے ترقی جائز ہے یانہیں ۔ تم نے اپنے رسالوں میں لکھا ہے کہ حقیقت محمدی سے ترقی واقع ہوئی ہے یہ معاملہ کیا ہے؟
. جواب: جائز نہیں کیونکہ اس مرتبہ کے اوپر مرتب لاتعین ہے جس کے ساتھ متعین کا وصول و الحاق محال ہے۔ وصول و الحاق بے تکیف کہنا صرف ایک زبانی بات ہے جس کے ساتھ حقیقت معاملہ تک پہنچنے سے پہلے تسلی کی جاتی ہے لیکن حقیقت معاملہ تک پہنچنے کے بعد وصول و الحاق کے نہ ہونے کا حکم کرنا لازم ہے کیونکہ وہاں تک کی آمیزش نہیں اور یہ جو میں نے لکھا ہے کہ حقیقت میں سے ترقی واقع ہوئی ۔ اس حقیقت سے مراد اس حقیقت کا ظل تھا جو حضرت اجماں علم سے مراد ہے جس کو وحدت سے تعبیر کرتے ہیں اس وقت ظل اپنے اصل کے ساتھ مشتبہ ہوا تھی جب اللہ تعالی کے محض فضل سے اس ظل اور باقی تمام ظلال سے خلاصی میسر ہوئی تو معلوم ہوا کہ حقیقت الحقائق سے ترقی واقع بلکہ جائز نہیں کیونکہ وہاں سے قدم اٹھنا اور آگے رکھنا وجوب میں جانا اور امکان سے نکلنا ہے جو عقلی اور شرعی طور پرمحال ہے۔
سوال: اس تحقیق سے لازم آتا ہے کہ حضرت خاتم الرسل ﷺکی بھی اس حقیقت سے ترقی واقع نہیں ہوئی ۔
جواب :آنحضرتﷺبھی باوجود اس قدر بلند شان اور جاہ و جلال کے ہمیشہ ممکن ہی ہیں اور ہرگز امکان سے نکل کر وجوب کے ساتھ نہ ملیں گے کیونکہ یہ امر الوہیت کے ساتھ حق ہونے کا موجب ہے۔تعالی الله أن يكون له ند و شریک( الله تعالی ہمسر اور شریک سے برتر ہے)
دع ما ادعته النصارى في نبيهم ترجمہ: چھوڑ دعوی جو نصاری نے کیا اپنے نبی میں۔
سوال: تحقیق سابق سے واضح ہوا کہ دوسروں کو بھی آنحضرت ﷺکے طفیل اور وراثت سے حقیقۃ الحقائق کے ساتھ وصول والحاق واتحاد ثابت ہے اور ان کے خاص کمال میں شرکت حاصل ہے۔ پھر اس کمال کے حاصل ہونے کی صورت میں جوحجاب کے رفع ہونے اور واسطہ کے دور ہونے پرمشتمل ہے اور تمام کمالات سے برتر ہے۔ تابع ومتبوع اور اصلی اور طفیلی کے درمیان کیا فرق ہے اور متبوع اور اصل میں کونسی زیادتی ہے جو تابع وطفیلی میں نہیں۔
جواب: اس حقیقت کے ساتھ دوسروں کا وصول و الحاق ایسا ہے جیسے خادم کا مخدوم کے ساتھ اورطفیلی کا اصل کے ساتھ ہے اگر واصل اخص خواص میں سے ہے جن کا وجود بہت ہی کم ہے تو خود خادم ہی ہے اور اگر انبیاء میں سے ہے تو وہ بھی طفیلی اور پس خوردہ کھانے والا ہے اس کو مخدوم کے ساتھ کیا شرکت ہے اور اس کے مقابلہ میں اس کی کونسی عزت و آبرو ہے ۔ طفیلی اگر چہ ہم نشین ہم لقمہ ہے لیکن پھر بھی طفیلی ہی ہے۔ خادم جومخدوم کی تبعیت سے بلند مکانوں میں جاتے ہیں اور خاص خاص کھانوں سے پس خوردہ کھاتے ہیں اور عزت و احترام پاتے ہیں یہ سب کچھ مخدوم کی بزرگی اور اس کی متابعت کی بلندی کے باعث ہے۔ گویا مخدوم کو اپنی ذاتی عزت کے باوجود ایک اور عزت خادموں کے الحاق کے باعث حاصل ہو جاتی ہے اور ان کی شان زیادہ بلند ہو جاتی ہے ۔ غور فرمائیں کہ حدیث نبوی ﷺ میں آیا ہے کہ مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً كَانَ لَهُ أَجْرُهَا وَمِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا (جس نے کوئی نیک سنت یا طریقہ جاری کیا اس کے لیے اس کا اجر ہے اور اس شخص کا اجر بھی ہے جس نے اس پر عمل کیا ) پس سنت حسنہ میں متبوع کے جس قدر زیادہ تابعدار ہوں گے ان کے اجروں کی مانند اسی قدر زیادہ اس کا اجر ہوگا اور اسی قدر اس کا مرتبہ زیادہ ہوگا۔ اس صورت میں تابع کو متبوع کے ساتھ کیا شر کت و مساوات ہوگی۔ سنیئے سنیئے جائز ہے کہ بہت سے لوگ ایک مقام میں ہوں اور ایک ہی دولت میں شریک ہوں لیکن ان میں سے ہر ایک کے ساتھ جدا جدا معاملہ ہو اور ایک کو دوسرے سے اطلاع نہ ہو۔ ازواج مطہرات بہشت میں آنحضرت ﷺکے ساتھ ایک ہی مقام میں ہوں گی اور ایک ہی طعام وشراب سے تناول فرمائیں گی لیکن وہ معاملہ جو آنحضرت ﷺکے ساتھ ہوگا ان کے ساتھ نہ ہوگا اور وہ لذت و سرور جو آنحضرت ﷺکو حاصل ہوگا ان کو نہ ہو گا اگر وہاں ان کو آنحضرت ﷺکے ساتھ تمام امور میں شرکت ہوتو آنحضرت ﷺکی افضیلت کی طرح ان کی افضیلت بھی سب پر لازم آئے گی کیونکہ وہاں کی فضیلت اللہ تعالی کے نزدیک کثرت ثواب کے لحاظ سے ہے۔
سوال:یہ تعین اول جوتعین حبی اور حقیقت محمدی ہےممکن ہے یا واجب اور حادث ہے یا قدیم۔ صاحب فصوص نے تعین اول کو حقیقت محمدی کہا ہے اور اس کو وحدت سے تعبیر کیا ہے۔ اسی طرح تعین ثانی کو واحد بیت کہا ہے اور اعیان ثابتہ جن کو حقائق ممکنات کہتے ہیں اس مرتبہ میں ثابت کیے ہیں اور ان دونوں تعینوں کو تعین وجوبی کہتا ہے اور قدیم جانتا ہے اور باقی تین تنزلوں کو جوروحی و مثالی وجسدی ہیں ۔ تعین امکانی کہتا ہے تمہارا اعتقاد اس مسئلہ میں کیا ہے؟
جواب : اس فقیر کے نزدیک کوئی تعین ومتعین نہیں وہ کون ساتعین ہے جو لاتعین کو تعین کرے یہ الفاظ حضرت شیخ محی الدین قدس سرہ کے مذاق کے موافق ہیں۔ اس فقیر کی عبارت میں اگر اس قسم کے الفاظ واقع ہوں تو صنعت و مشاکلت کی قسم سے جاننے چاہئیں۔ بہر حال میں کہتا ہوں کہ وہ تعین تعین امکانی اور مخلوق و حادث ہے۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ نُورِي (سب سے اول اللہ نے میرےنور کو پیدا کیا اور دوسری حدیثوں میں اس نور کے پیدا ہونے کے وقت کا تعین بھی آیا ہے چنانچہ فرمایا ہے کہ قبل خلق السموات بألفي عام آسمانوں کے پیدا ہونے سے پہلے دو ہزار برس) جو چیز مخلوق اور عدم کے ساتھ مسبوق ہے وہ ممکن و حادث ہے جب حقیقۃ الحقائق جو تمام حقائق سے اسبق واول ہے ۔ مخلوق ممکن ہوئی تو دوسری حقیقتیں بطریق اولی مخلوق ہوں گی اور ان میں حدوث و امکان ہوگا ۔ تعجب ہے کہ شیخ قدس سرہ حقیقت محمدی بلکہ تمام ممکنات کی حقائق کے لیے جن کو اس نے اعیان ثابتہ (ممکنہ حقائق) کہا ہے وجوب کا حکم کس طرح کرتا ہے اور کیونکر قدیم جانتا ہے اور پیمبر علیہ الصلوة والسلام کے قول کے برخلاف کرتا ہےممکن بمع اپنے تمام اجزاء کےممکن ہے اور اپنی صورت و حقیقت میں ممکن ہے ممکن کی حقیقت کے لیے تعین وجوبی کیسے ہوسکتا ہے ممکن کی حقیقت بھی ممکن ہی ہونی چاہیئے کیونکہ ممکن مخلوق ہے اور حق تعالی اس کا خالق ہے جب واجب اورممکن کے درمیان تمیز نہیں کرتا اور خود فرماتا ہے کہ ان دونوں میں کوئی تمیز نہیں تو اگر واجب کوممکن اور ممکن کو واجب کہ دے تو کیا ڈر ہے اور اگر اس کو معاف و معذور فرمائیں تو کمال کرم و عضو ہے ۔ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا يااللہ تو ہمارے بھول چوک پر ہمارا مواخذہ نہ کر)
سوال: تم نے اپنے رسالوں میں واجب اورممکن کے درمیان اصالت و ظلیت کی نسبت ثابت کی ہے اور ممکن کو واجب کاظل کہا ہے نیز واجب تعالی کو اصالت کے طور پرممکن کی حقیقت کہ اس کا ظل ہے لکھا ہے اور بہت سے معارف اس پر مترتب کیے ہیں اگر اس اعتبار سے شخ قدس سره بھی واجب تعالی کو ممکن کی حقیقت کہہ ہے تو کیا ڈر ہے اور کیوں ملامت کا باعث ہے؟
جواب: اس قسم کے علوم جو واجب اور ممکن کے درمیان کسی قسم کی نسبت کو ثابت کرتے ہیں شرع میں ان کے ثبوت کے لیےکچھ وارد نہیں ہوا سب سکر یہ معارف میں سے ہیں اور حقیقت معاملہ تک نہ پہنچنے کا باعث ہیں۔
ممکن چه بود که ظل واجب باشد نہیں ہوتا ہے ممکن ظل واجب
اور واجب تعالی کا کیوں ظل ہو کیونکہ ظل سےمثل کے پیدا ہونے کا وہم گزرتا ہے اور اصل میں کمال لطافت کے نہ ہونے کا شک پیدا ہوتا ہے جب حضرت محمد رسول اللہ کا کمال لطافت کے باعث سایہ وظل نہ تھا تو خدائے محمد کا سایہ وظل کس طرح ہو سکے ۔ خارج میں بالذات و بالا ستقلال حضر ت ذات تعالی اور اس کی صفات ثمانیہ حقیقیہ ہی موجود ہیں۔ باقی سب کچھ حق تعالی کی ایجاد سے موجود ہوا ہے اور ممکن ومخلوق وحادث ہے کوئی مخلوق اپنے خالق کا ظل نہیں اور اس نسبت کے سوا کہ جس کی نسبت شرع وارد ہے یعنی مخلوقیت کے سوا اور کوئی نسبت خالق تعالی کے ساتھ نہیں رکھتا۔ عالم کے ظل ہونے کا یہ علم سالک کو راستہ میں بہت کام آتا ہے اور اس کو کھینچ کر اصل کی طرف لے جاتا ہے اور جب کمال عنایت سے ظلال کے منازل کو طے کر کے اصل تک پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالی کے فضل سے معلوم کر لیتا ہے کہ یہ اصل بھی ظل کا حکم رکھتا ہے اور مطلوب ہونے کے لائق نہیں ہے کیونکہ اس پر امکان کا داغ لگا ہے اور مطلوب ادراک کے احاطہ اور وصل و اتصال سے ماوراء ہے
رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام میں بھلائی ہمارے نصیب کر)
فصل
فضائل مآب و کمالات اکتساب مولانا حسن کشمیری دہلوی نے (خدا اس کے احوال کو اچھا کرے اور اس کی امیدوں کو پورا کرے) ایک رسالہ فقیر کو بھیجا تھا جس میں چند سوال درج تھے جن کاحل مطلوب تھا چونکہ ان کا حل بہت سے اسرار کے ظاہر کرنے پرمشتمل تھا۔ اس لیے بعض موانع کے باعث فقیران کے جواب میں جرات نہ کر سکتا تھا اورلیت و لعل میں گزارتا تھا چونکہ فقیر پر مشار الیہ کے بہت حقوق ہیں کیونکہ انہی کے حسن دلالت سے ولایت پناہ طریق اندراج النہایت في البدایت کے حادی(حدی خوان) و ہادی قدس سرہ کی دولت حضور سے مشرف ہوا ہے اور اس طریق میں الف با کاسبق انہی سے لیا ہے اور انہی کی خدمت میں بے اندازہ فیوض و برکات کا استفادہ کیا ہے۔ اس لیے بعض سوالوں کاحل جواس رسالہ کے علوم کے مناسب ہے اس رسالہ کے ذیل میں درج کیا ہے۔ والله سبحانه الهادي إلى سبيل الرشاد (اللہ تعالی ہی سیدھے راستے کی ہدایت دینے والا ہے ) آپ نے پوچھا تھا کہ جب کمالات صوری و معنوی ظاہری و باطنی علمی وعملی اور دینی و اخروی جس قدر کہ نوع بشر میں ممکن ہیں سب حضرت خیرالبشر علیہ الصلوۃ والسلام میں بالفعل حاصل ومتمکن ہیں جیسے کہ حدیث نفیس أنا سَيَّدُ وَلَدِ آدمَ يومَ القيامةِ ولا فَخْرَ آدَمُ فَمَنْ دُونَهُ تَحْتَ لِوَائِي، وَلا فَخْرَ، يَوْمُ الْقِيَامَةِ فعلمت علم الأولين والآخرين اولاد آدم کا سردار ہوں اور کوئی فخر نہیں اور آدم اور ان کے سوا سب قیامت کے دن میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے مجھے تمام اولین و آخرین کا علم دیا گیا ہے ) وغیرہ سے سمجھا جاتا ہے اور جو کچھ کسی چیز پر مشروط یا کسی وقت پر موقوف ہوگا وہ بھی بہت اچھی وجہ سے جلوہ گر ہو گا تو پھر اس صورت میں آنحضرت ﷺکا حزن وغم جو دوام و کثرت کے ساتھ معروف وموصوف ہے کیوں ہے اور اس کا سبب کیا ہے؟ کیونکہ حزن و اندوہ کسی ایک چیز کے گم ہونے کے باعث ہوتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے میرے مخدوم و مکرم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے جاہ و جلال اور خدا تعالی کی عنایت پر جو آنحضرت ﷺکے حال خیر مال کو شامل ہے نظر کرنے کے اعتبار سے اس حضرت خاتمیت سے حزن و اندوہ کا بعید نظر آنا اور کمال کاگم ہونا مسلم ومستحسن ہے اور جب آنحضرت ﷺکی عبدیت اورعجز و بشریت پرنظر کی جائے اور حق تعالی کی عزت و جلال اور کبریا اور ذاتی استغنا کا ملاحظہ کیا جائے تو آنحضرت ﷺکے حق میں بھی اللہ تعالی کے بے نہایت کمالات میں سے کسی کمال کا گم ہونا اور حزن کا حاصل ہونا کچھ بعید نہیں معلوم ہوتا ہے بلکہ بندگی کے حال کے لائق ہے آیت کریمہ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا اور آیت کریمہ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ دونوں اس بات پر گواہ عادل ہیں اور سب کےحق میں فقدان ثابت کرتی ہیں ہاں سچ ہے ممکن خواہ کتنا ہی بلند در جوں تک پہنچ جائے پھر بھی واجب کی حقیقت کو نہیں پا سکتا اور حادث قد یم کونہیں گھیر سکتا اور متناہی غیر متناہی کا احاطہ نہیں کر سکتا اور یہ جو آپ نے لکھا ہے کہ جو کمال نوع بشر میں ممکن ہیں حضرت خاتمیت میں با لفعل حاصل ہیں ہاں کل پرفضلی کلی آنحضرت ﷺکے ساتھ ہی مخصوص ہے لیکن بعض کمال ایسے ہوتے ہیں جو جزئی فضیلت کی طرف راجع ہوتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ انبیاء کرام اور ملائکہ عظام میں سے بعض کے ساتھ مخصوص ہوں اور آنحضرت ﷺکی کلی فضیلت میں کچھ کمی نہ کریں ۔ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ امتوں کے افراد میں بعض کمالات ایسے ہوتے ہیں جن پر انبیا علیہم الصلوة والسلام رشک کرتے ہیں حالانکہ انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کو امتوں کے تمام افراد پرفضل کلی ہے۔ نیز حدیث میں آیا ہے
کہ شہداء فی سبیل اللہ چند چیزوں سے انبیاء پر زیادتی رکھتے ہیں شہداء کوغسل کی حاجت نہیں اور انبیاء کوغسل دینا چاہیئے ۔ شہداء پر نماز جنازہ نہیں آئی ہے کہ امام شافعی کا مذہب ہے اور انبیاء علیہم السلام پر نماز جنازہ ادا کرنی چاہیئے ۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ شہداء کو مردہ نہ جانو کہ وہ زندہ ہیں اور انبیاء کو مردہ فرمایا ہے یہ سب جزئی فضائل ہیں جو انبیاعلیہم السلام کے فضل کلی میں قصور پیدا نہیں کرتے۔ پس ہوسکتا ہے کہ ان فضائل جزئیہ میں سے بعض کے گم ہونے کے باعث آنحضرت ﷺپر حزن و اندوہ طاری ہوتا کہ ان فضائل کی استعداد کے حاصل ہونے اور وہاں تک پہنچنے کا باعث ہو۔ مثلا نبوت کے ساتھ درجہ شہادت بھی جمع ہو جائے اور اگر ہم مان بھی لیں کہ انسان کے تمام افراد کےتمام کمالات اس حضرت علیہ الصلوة والسلام میں بالفعل حاصل ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت ﷺ کی ہمت بلند ہے اس واسطے ان کمالات پر کفایت نہیں کرتے اور هل من مزید کہتے ہوئے بلندی و برتری کا شوق ظاہر فرماتے ہیں اور چونکہ ذوق کے کمالات حصول بشری کے امکان سے خارج ہیں اس لیےدائمی غم و اندوه نقد وقت ہے۔ اس بحث کی تحقیق والله سبحانه أعلم بحقيقة الحال
حقیقت حال کو اللہ تعالی بہتر جانتا ہے ) یہ ہے کہ طریقت و حقیقت و قربت ومعرفت میں کام کا مدار فناء پر اور صفات بشریت اور احکام امکان کے دور ہوجانے پر ہے بیت
پچ کس را تا نگردداوفنا نیست ره در بار گاہ کبریا
ترجمہ بیت جب تک انسان نہ ہو جائےفنا تب تک اس کو نہیں ملتا خدا
جس قدر بھی صفت بشر یت با تی ہے اسی قدر راستہ کا حجاب ہے اور صفات بشریت کا بالکل دور ہو جاناکل میں ممکن نہیں ۔ خواہ خواص ہوں ۔ خواہ اخصص خواص ۔ شیخ عطا فرماتے ہیں۔ بیت
نمے بینی کے شا ہے چوں پیمبر نیابد فقرکل تورنج کم بر
ترجمہ: بیت نہ پایافقرکل جبکہ پیمبر ملا تجھ کو نہیں مگر کچھ نہ غم کر
فقرکل سے مراد صفات بشریت و امکان کا بالکل دور ہو جانا ہے جس کا حاصل ہونا متصور نہیں کیونکہ اس سے قلب حقائق یعنی حقیقتوں کا بدلنا لازم آتا ہے اس لیے کہ ممکن اگر ترقی کرنے گا تو اپنے مکان سے نکل کر واجب ہو جائے گا اور یہ محال عقلی اور شرعی ہے اور یہ جو کسی بزرگ نے کہا ہے کہ بیت
چو ممکن گردا مکان برفشاند بجز واجب درو چیز ے نماند
ترجمہ: بیت ہواممکن سے جس دم دور امکان تو واجب ہوگیا بالکل وہ انسان
تشبیہ تمثیل پرمحمول ہے نہ تحقیق وتقریر پر کہ یہ غیر واقع ہے ایک عزیز فرماتا ہے۔ بیت سیاه روئی نہ ممکن در دو عالم جدا ہر گز نشد واللہ اعلم
ترجمہ: بیت سیاه روی ممکن کی ہوئی نہ دور رہادونوں جہانوں میں یہ بے نور
سوال: امکان کے احکام و آثار کا باقی رہنا مقام قاب قوسین میں ظاہر ہے جہاں امکان کی قوس اور وجوب کی قوس بر پا ہے لیکن مقام او ادنی میں جو بالاصالت آنحضرت ﷺکے ساتھ مخصوص ہے امکان کے احکام کا باقی رہنا کس طرح ہے۔
جواب: جس چیز سے جواب و امکان میں تمیز ہوسکتی ہے وہ عدم ہے جو امکان کے ایک طرف ہے کیونکہ امکان کی دوسری طرف کہ وجود ہے وجوب و امکان کے درمیان قدر مشترک ہے مقام اوادنی میں اس عدم کے احکام زائل ہو جاتے ہیں اور قوسین کی امتیاز دور ہوتی دکھائی دیتی ہے نہ یہ کہ امکان بالکل رفع ہو جاتا ہے اور وجوب میں منقلب ہو جاتا ہے کیونکہ یہ محال ہے جیسے کہ گزر چکا اس قدر ہے کہ مقام قاب قوسین میں ظلمانی حجابوں سے جو عدم کے آثار میں سے ہیں باہر نہیں ہو سکتے اور مقام او ادنی میں جو حجاب ہیں وہ نورانی ہیں اور امکان کی طرف وجود کی راہ سے آئے ہیں اس بزرگ کے بیت کے معنی کو جو اوپر گزر چکا ہے اسی توجیہ پرمحمول کر سکتے ہیں اور گرد امکان کے دور ہونے سے عدم کے احکام کا وجود جو سراسر کدورت ہے دور ہونا مراد لے سکتے ہیں۔
سوال: جب امکان کی طرف عدم زائل ہوگئی اور وہ جو وجوب و امکان میں تمیز کا باعث تھا مرتفع ہو گیا اور وجود کے سوا جو امکان کی دوسری طرف ہے اور وجوب و امکان کے درمیان قدر مشترک ہے وہاں کچھ نہ رہا تو لازم آیا کہ امکان اپنی حقیقت سے نکل کر وجوب کے ساتھ جو وجودصرف ہے ملحق ہو گیا اور حقیقت کا بدلنا لازم آیا اور اس بزرگ کے مذکورہ بالا بیت کے معنی کے موافق واجب کے سوا اس میں کچھ نہ رہا اور وہ بیت حقیقت پرمحمول ہوا۔
جواب: یہ وجود جوممکن کی طرف میں ثابت ہے اس وجود کا ظل ہے جو وجوب میں ہے نہ کہ اس وجود کا عین اور یہ وجوب جوممکن میں طرف عدم کے زائل ہونے سے پیدا ہوا ہے وجوب بالغیر ہے جوممکن کی ایک قسم ہے نہ کہ وجوب بالذات تا کہ قلب حقیقت لازم آئے کیونکہ یہ عدم ذات ممکن کی راہ سے رفع نہیں ہوا تا کہ واجب بالذات ہو اور محال لازم آئے بلکہ ممکن میں اس عدم کا ارتفاع ممکن کی ذات پر حضرت واجب کے وجود اور حضرت وجوب تعالی کے غلبہ کے باعث ہے لیکن اس وجوب سے جو مصرعہ سابق میں واقع ہوا ہے وجوب ذاتی ظاہر ہوتا ہے نہ کہ وجوب بالغیر اور وجود کو وجوب و امکان کے درمیان قدر مشترک کہنا اشتراک لفظی کی قسم سے ہے نہ کہ معنی اشتراک کی قسم سے اگر چہ اس کو کلی مشکک کہتے ہیں کیونکہ ممکن کے وجود کو واجب تعالی کے وجود کے ساتھ درحقیقت کوئی شرکت نہیں تا کہ کلی اور جزئی ہونا متصور ہو۔
سوال :فنا و بقا جو صوفیاء نے کہا ہے اور اس کو ولایت سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے کیا معنی ہیں جب صفات بشریت کا دور ہو جانا متصور نہیں تو پھر فنا کی کیا گنجائش ہے۔
جواب: وہ فنا جو ولایت میں معتبر ہے وہ شعور شہود(مشاہدہ) کے اعتبار سے ہے جو ماسوائے حق کے نسیان سے مراد ہے نہ کہ ماسوی کے ارتفاع سے حاصل کلام یہ کہ اس فنا کا صاحب سکر(مستی) کےغلبوں میں اشیاء کے عدم شعور کو عدم اشیاء خیال کرتا ہے اور اس کو ماسوی کارفع ہوناسمجھتا ہے اور اس سے تسلی پاتا ہے اور اگر محض فضل سے اس کو ترقی دے کر صحو کی دولت سے مشرف فرمائیں اور صاحب تمیز کریں تو جان لیتا ہے کہ وہ فناء اشیاء کا نسیان تھانہ اشیاء کا معدوم ہونا اور اس نسیان سے اگر زائل ہوئی ہے تو اشیاء کی گرفتاری ہی زائل ہوگئی ہے جو ثابت و برقرار اور مذموم تھی۔ نہ کہ نفس اشیاء کیونکہ اشیاء اپنی اسی صرافت پر قائم اور موجود ہیں اور اس کی نفی اور معدوم کرنے سے منتفی نہیں ہوسکتیں۔
سیاسی از حبشی کے رود که خودرنگ است ترجمہ : سیاہی دورحبشی سے نہیں ہوتی کہ ہے اصلی
اور جب فضل سےیہ دید اوریہ تمیز عطا ہوئی تو تسلی دور ہوگئی اور اس کی جگہ حزن و اندوه و بے آرامی آگئی اور جان لیا کہ اس کی بود او(اس کا ہونا) ایک ایسا مریض ہے جو اس کی کوشش و اہتمام سے نابود نہیں ہوتا اور معلوم کیا کہ مور کے دونوں پاؤں کی طرح کہ ہمیشہ کے لیے اس کے جانکاه ہیں ۔ امکان کانقص اور حدوث کا قصور ہمیشہ کیلئے اس کے جانکاہ ہیں میں عجب معاملہ ہے کہ عارف جوں جوں زیادہ بلند ہوتا جاتا ہے اور زیادہ زیادہ تر قیات وعروجات(عروج سے مراد سالک کا حق تعالی کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) کرتا جاتا ہے۔ توں توں دید نقص اس میں اسی قدر زیادہ ہوتی جاتی ہے اورقصور زیادہ تر اس کی نظر میں آتا جاتا ہے اور بے آرام ہوتا جاتا ہے اور اس کا حال اس رسن تاب یعنی رسی بٹنے والے شاگرد کی طرح ہو جاتا ہے جس نے اپنے استاد کو کہا کہ میں جس قدر زیادہ کام کرتا ہوں اس قدر زیادہ دور ہوتا جاتا ہوں ۔ شاید اسی واسطے آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے کہ ياليت رب محمد لم يخلق محمدا ( کاش محمدکا رب محمد کو پیدا نہ کرتا ) نیز فرمایا ہے۔ مَا أُوذِيَ نَبِيٌّ مِثْلَ مَا أُوذِيتَ (جیسی مجھے ایذاپہنچتی ہےویسی کسی نبی کو نہیں پہنچی) شاید اس ایذا سے مراد نقص وقصور کا دیکھنا ہے جو کمال حزن و اندوہ کا موجب ہے کیونکہ اور دوسری ایذائیں دوسرے پیغمبروں کو زیادہ
تر پہنچی ہیں ۔ حضرت نوح علی نبینا علیہ الصلوة والسلام نو سو پچاس سال تک اپنی قوم میں رہ کر دعوت کرتے رہے اور طرح طرح کی ایذائیں برداشت کرتے رہے ۔ لکھا ہے کہ ان کی قوم کے لوگ دعوت کے وقت اس قدر پتھر ان کو مارتے تھے کہ بے ہوش کر گر پڑتے تھے اور پتھروں کے نیچے دب جاتے تھے جب ہوش میں آتے تو پھر دعوت کرنے لگ جاتے اور قوم کے لوگ وہی معاملہ ان کے ساتھ کرتے إلى أن يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ (یہاں تک کہ لکھا ہوا اپنے وقت تک پہنچ گیا جاننا چاہیئے کہ یہ نقص وقصور کا دیکھنا دوری کے سبب سے نہیں بلکہ قرب وحضوری
کے باعث ہے کیونکہ صاف اور شفاف جگہ میں تھوڑی سی کدورت بھی بہت نظر آتی ہے اور سیاه و مکدر جگہ میں بہت سی کدورت بھی تھوڑی دکھائی دیتی ہے اور یہ جو پہلے کہا گیا ہے کہ قرب و معرفت کے کام کا مدارفنا پر ہے اس لیے ہے کہ سالک جب تک اپنے آپ سے فانی نہ ہو جائے اور بشریت و امکان کی صفات سے بالکل خالی نہ ہو جائے مطلوب تک نہیں پہنچتا کیونکہ مطلوب کے ساتھ اس کا جمع ہونا دونقیضوں کے جمع ہونے کی قسم سے ہے اس لیے کہ امکان میں عدم کا ثبوت ضروری ہے اور وجوب میں عدم کا سلب ضروری ہے اور جب تک مطلوب تک نہ پہنچے مطلوب کے کمالات سے کیا پاسکتا ہے اور اس کے کمالات کو اپنے کمالات کی مانند جاننے کے سوا کیا سمجھ سکتا ہے۔ لا يدرك الشيء إلا بما يضادہ ویغائره (ہر شے اپنی ضد اور غیر سے معلوم ہوتی ہے) معقول والوں کا مقررہ قضیہ ہےوہ لڑ کا جوابھی لذت جماع تک نہیں پہنچا ہے اگر جماع کی لذت کا کمال بیا ن کرے تو اس کو شیرین بیان کرے گا نہ کڑ وا اور اس کی شیرینی کو بھی مصری و قند کی شیرینی کی طرح جانے گا کیونکہ اس کو اس کے سوا اور کچھ معلوم ہی نہیں اور یہ کمال اس کا کمال نہیں بلکہ ایسا کمال ہے جو اس لڑکے کا اپنا بنایا ہوا اور اختراع کیا ہوا ہے جو درحقیقت اس کی طرف راجع ہے نہ کہ اس کے ساتھ متصف ہے۔ پس سالک مطلوب کے جتلانے کے بغیر جو کچھ اپنی طرف سے مطلوب کی نسبت کہے گا وہ گویا اپنی نسبت ہی کہا ہوگا اور جو کچھ اس کی تعریف کرے گا اپنی ہی تعریف کی ہوگی اس جگہ ایک عارف فرماتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آیت کریمہ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ کوئی چیز نہیں جو اس کی تسبیح اور حمد نہ بیان کرتی ہو)میں حمد کی ضمیرشے کی طرف راجع ہو یعنی کوئی چیزتسبیح و تقدیس وستائش نہیں کرتی مگر اپنی شاید حضرت بسطامی قدس سرہ نے اسی واسطے سبحانی کہا ہوتا کہ تسبیح کا اعادہ اس کی اپنی طرف ہو کیا اچھا کہنا ہے ۔ ابیات
اے شدہ ہم در جمال خویشتن می پرستی ہم خیال خویشتن
قسم خلقان زانجمال و زاں کمال ہست گر برہم نہی مشت خیال
گرز معشوقت خیالے در سراست نیست معشوق آں خیال دیگر است
ترجمہ ابیات اے کہ تو ہے سر بسرمحوجمال ہے فقط تیرا ہی اپنا یہ خیال یار کا اصلی ہے جو حسن و کمال پاسکے مخلوق ہے یونہی خیال
گرتیرے سر میں ہے دلبر کا خیال وہ نہیں معشوق ہے تیرا خیال
صاحب فصوص فرماتا ہے۔ والتجلی من الذات لا يكون إلا بصورة المتجلى له لأنه ما رای سوی صورته في مر ۃ الحق و مارئ الحق ولا يمكن أن یراه (تجلی ذات متجلی لہ کی صورت پر ہوتی ہے کیونکہ وہ ان کے آئینے میں اپنی ہی صورت کو دیکھتا ہے نہ کہ حق کو اور نہ ہی اس کو دیکھ سکتا ہے )رویت کے عدم امکان کو مبالغہ کے رو سے کہا ہے نہ تحقیق کی روسے کیونکہ رویت دنیا میں جائز ہے اور آخرت میں واقع ہے چونکہ سالک کا کلی طور پر فانی ہوناممتنع اور محال ہے اور اس کے بغیر مطلوب کا وصول و اتصال ممنوع ہے اور معرفت بغیر وصول کے ناممکن ہے اس لیے معرفت سےعجز لازم آیا اور معرفت سے عاجز ہونا عین معرفت ہوا۔ کوئی یہ نہ کہے کہ معرفت سے عاجز ہونا جو معرفت کی نقیض ہے معرفت کس طرح ہے کیونکہ معرفت سے عاجز ہونا معرفت ہی ہے۔ بأنه لا يعرف (اس طرح پر کہ وہ پہچانا نہیں جاتا ) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ الْعَجْزُ عَنْ دَرْكِ الْإِدْرَاكِ إِدْرَاكٌ کے پانے سے عاجز ہونا ادراک ہے) الْحَمد لله الَّذِي لم يَجْعَل لِلْخلقِ سَبِيلا إِلَى مَعْرفَته إِلَّا بِالْعَجزِ عَن مَعْرفَته ( پاک ہے وہ ذات جس نے معرفت سے عاجزی کے سوا کوئی راستہ خلق کو اپنی طرف نہیں بتایا ) ایک بزرگ فرماتا ہے۔ بیت
سبحان خالقے کہ صفاتش زکبریا بر خاک عجزمے فگند عقل انبیاء
وہ پاک ذات اکبر جس کی صفات اکبر پیغمبروں کی عقلیں عاجز ہیں جن سے یکسر
جب انبیاء علیہم الصلوة والسلام صفات کبریا کی معرفت میں عاجز ہیں اور ملائکہ کرام علی نینا وعلیہم الصلوة والسلام سُبْحَانَكَ مَا عَرَفْنَاكَ حَقَّ مَعْرِفَتِكَ پاک ہے تو ہم نے تجھے نہیں پہچانا جیسے کہ حق ہے)کہیں اور حضرت صدیق اکبر جو اس امت خَيْرُ الْأُمَمِ کے رئیس و سردار ہیں ۔ عاجزی کا اقرار کریں تو پھر اور کون ہے جو معرفت کا دم مارے۔ سوائے اس کے کہ اپنے جہل مرکب کو معرفت خیال کرے اور غیرحق کوحق پہنچانے یہ معرفت سے عاجز ہونا مراتب عروج کے نہایات کی نہایت اور مدارج قرب کا منتہا ہے جب تک سالک اخیر نقطہ تک نہ پہنچے اور تجلیات وظہورات کے مراتب کو طے نہ کرے او راس وصل و اتصال کو جس پر مدتوں تک خوش تھا عین فصل و انفصال خیال نہ کرے اس عجز کی دولت سے مشرف نہیں ہوتا اور خدا تعالی کی ناشناسی سے خلاص نہیں ہوتا اورحق اور غیرحق میں تمیز نہیں کر سکتا۔
سوال: پھر خدا کی معرفت کا وجوب کس معنی سے ہے؟
جواب: معرفت کا وجوب اس معنی سے ہے کہ ذات و صفات کی معرفت میں جو کچھ شریعت نے فرمایا ہے اس کا پہچاننا واجب ہے اور جو معرفت شریعت کے بغیر حاصل ہوتی ہے اس کو خدا کی معرفت کہنا دلیری ہے اور ظن وتخمین سے حق پرحکم کرنا ہے۔ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ( کیا تم اللہ تعالی پر وہ کہتے ہو جو نہیں جانتے ) امت کے چراغ روشن اور اماموں کے امام حضرت امام اعظم کو فی رضی اللہ عنہ نے شاید اسی واسطے فرمایا ہے۔ سُبْحَانَك مَا عَبَدْنَاك حَقَّ عِبَادَتِك، وَلَكِنْ عَرَفْنَاك حَقَّ مَعْرِفَتِك ( پاک ہے تو ہم سے تیری عبادت کا حق ادا نہیں ہوا لیکن تجھے پہچان لیا جو تیرے پہچاننے کا حق تھا ) اگر چہ یہ قول اکثر لوگوں کو گراں معلوم ہوتا ہے لیکن بہتر توجیہ کے قابل ہے کیونکہ حق تعالی کی معرفت یہ ہے کہ حق تعالی کو ان تمام چیزوں کے ساتھ کہ جن کو شریعت نے بیان کیا ہے یعنی کمالات و تنزیبات و تقدیسات کے ساتھ پہنچانا جائے کیونکہ ان کے سوا معرفت کی کوئی ایسی چیز نہیں جو حق معرفت کی مانع ہو۔
سوال: اس معرفت میں عوام وخواص شریک ہیں بلکہ مساوات رکھتے ہیں اور لازم آتا ہے کہ عام مومنوں کی معرفت خواص انبیا کی معرفت کی مانند ہو کیونکہ یہ حق معرفت سب کو حاصل ہے یہ مسئلہ بھی اسی مسئلہ کی طرح ہے جو امام اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ الْإِيمَانَ لَا يَزِيدُ وَلَا يَنْقُصُ ایمان نہ کم ہوتا ہے نہ زیادہ ) اس عبارت سے بھی لازم آتا ہے کہ عام مومنوں کا ایمان انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے ایمان کی طرح ہوگا۔
جواب : اس شبہ قویہ کا حل ایک دقیقه پرمبنی ہے جس پراس فقیر نے محض فضل و کرم سے ہد ایت پائی ہے وہ دقیقہ یہ ہے کہ معرفت کا حق یہ ہے کہ ان معارف شرعیہ سے عارف کی معرفت سے عجز لاحق ہو ۔ مثلا شریعت میں آیا ہے کہ حق تعالی کیلئے علم کی صفت ثابت ہے اوروہ علم بھی ذات واجب تعالی کی طرح بیچون وبیچگون ہے اور ہمارے ادراک کے احاطہ سے باہر ہے اگر اس علم کو سالک اپنے علم کے قیاس پر پہچانے تو یہ اس کی پہچان نہیں بلکہ اپنےمجعول ومخترع ( بنایا ہوا اورگھڑا ہوا) کی پہچان ہے نہ کہ حق تعالی کے علم کی معرفت جوحق تعالی کے کمال کی صفت ہے۔ پس اس صورت میں جب نفس معرفت حاصل نہیں تو حق معرفت کب حاصل ہوگا اور اگر اس کا معاملہ قیاس وتخمین سے عاجز ی میں آجائے اور وجدان و حال سے معلوم کرے کہ اس کونہیں پہچان سکتا اور جان لے کہ اس صفت کمال کے ثبوت پر ایمان لانے کے سوا کچھ حاصل نہیں تو اس وقت معرفت بھی حاصل ہوگی اور حق معرفت بھی پس جب عوام کو حق معرفت میں خواص کے ساتھ شرکت نہ ہوئی تو پھر مساوات کی کیا گنجائش ہے۔
سوال: جب حق معرفت نفس معرفت ہے تو پھر چاہیئے کہ عوام کونفس معرفت بھی حاصل نہ ہو جب حق معرفت حاصل نہیں۔
جواب: معرفت کی ایک صورت ہے اور ایک حقیقت وہ معرفت جو عین حق معرفت ہے معرفت کی حقیقت ہے جو معرفت سے عجز پر وابستہ ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ اس عجز کی حد تک نہ پہنچے اور صفات امکان کے قیاس کی آمیزش سے خالی نہ ہو جیسے کہ گزر چکا۔ یہ اللہ تعالی کا کمال فضل ہے کہ معرفت کی صورت کا بھی نفس ایمان میں اعتبار کیا ہے اور نجات کو اس پر وابستہ کیا ہے جیسے کہ ایمان کی صورت کو بھی معتبر رکھا ہے اور جنت میں داخل ہونا اس پر مرتب کیا ہے۔ صورت ایمان میں صورت معرفت کافی ہے اور حقیقت ایمان میں حقیقت معرفت سے چارہ نہیں۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایمان کے بھی دو فرد ہیں صورت وحقیقت جو عوام کا حصہ ہے وہ صورت ہے اور جو خواص کو عطا ہوا ہے وہ حقیقت ہے پس عوام کا ایمان انبیاء کے ایمان کی طرح نہ ہوا جواخص خواص ہیں کیونکہ وہ ایمان اور ہے اور یہ ایمان اور دونوں میں کوئی مماثلت و مشابہت نہیں اور حقیقت ایمان میں چونکہ معرفت کا عجزحاصل ہے اور بانه لا یعرفوہ نہیں پہچانا جاتا ) کی معرفت موجود ہے اس لیے اس میں کمی و زیادتی مفقود ہے کیونکہ سلب معرفت کی معرفت میں درجات کے تفاوت کا احتمال نہیں وہ ثبوت ہے جس میں درجات کا تفاوت ہے پس ثابت ہوا کہ حقیقت ایمان میں کمی بیشی نہیں ہوتی وَاللَّهُ سُبحَانَه أَعْلَمُ بِحَقِيقَةِ الْحَالِ (اللہ تعالی ہی حقیقت حال کو جانتا ہے)۔
سوال: اس تقریر سے لازم آتا ہے کہ صوفیاء کے علوم و معارف کشفی اعتبار سے ساقط ہیں اور حق تعالی کی معرفت ان پروابستہ نہیں کیونکہ حق معرفت علوم شرعیہ سے حاصل ہوا اور کوئی معرفت نہ رہی جس کو صوفياء تلاش سے حاصل کریں ۔ پس حق تعالی کی معرفت میں صوفیاء کے لیے علماء پرکوئی زیادتی ثابت نہ ہوئی۔
جواب: صوفیاء کے کشفی علوم و معارف اس عجز کے اسباب ومعدات ہیں جو صوفياء میں سے منتہیوں کو نہایت النہایت میں میسر ہوتا ہے کہ بزرگواران کشفیہ معارف کےزینوں کے ذریعے اس عجز کی دولت سے مشرف ہوتے ہیں۔ پس ان بزرگواروں کے معارف معتبر ہوں گے کیونکہ معرفت کے حاصل ہونے کا وسیلہ اور ایمان حقیقی تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں۔
سوال: جب معرفت سے عجز ثابت ہوا اور کمال عجز میں منحصر ہوا تو پھر صوفیاء نے جو مراتب سہ گانہ اعتبار کیے ہیں ان کا کیا مطلب ہے اورعلم الیقین اور عین الیقین اور حق الیقین سے کیا مراد ہوگی۔
جواب : اس مسئلہ میں فقیر قوم(صوفیہ) کے ساتھ اختلاف رکھتا ہے ان بزرگواروں نے ان تینوں مرتبوں کو حق تعالی کی ذات کی نسبت اعتبار کیا ہے اور علم الیقین اور عین الیقین اور حق الیقین کو اس بارگاہ جل شانہ میں ثابت کیا ہے اور اس کی مثال اس طرح بیان کی ہے کہ آگ کے اس علم کو جو دھوئیں کے استدلال سے حاصل ہوتا ہے ۔ علم الیقین کہا ہے اور آگ کے دیکھنے کو عین الیقین تصور کیا ہے اور آگ کے ساتھ متحقق ہونا حق الیقین لیکن اس فقیر نے ان تینوں مرتبوں کو ان آیات ونشانات میں جوحق تعالی کی ذات پر دلالت کرنے والے ہیں اعتبار کیا ہے اور علم و عین وحق دلالت کرنے والے نشانات میں کہا ہے نہ مدلول میں کیونکہ وہ علم وعین وحق دھوئیں کی نسبت جانا ہے نہ آگ کی نسبت کیونکہ دھوئیں کا علم جو استدلال سے حاصل ہوا ہے وہ دھوئیں کا ہی علم الیقین ہے جوآگ کومستلزم ہے اور اگر دھوئیں کو دیکھا ہے اور اس سے آگ کے ہونے پر استدلال کیا ہے تو یہ بھی دھوئیں کا عین الیقین ہے اور اگر دھوئیں کے ساتھ متحقق ہوا ہے اور اس سے آگ پراستدلال کیا ہے تو یہ بھی دھوئیں کا حق الیقین ہے۔ یہ استدلال پہلے سے زیادہ کامل ہے کیونکہ وہ استدلال آفاق سے ہے اور یہ انفس سے کہ دھوئیں کے ساتھ متحقق ہوا ہے نیز عین الیقین میں دھواں واسطہ ہے اور حق الیقین میں واسطہ نہیں بلکہ وہی نسبت جو دھوئیں کو آگ کے ساتھ ہے اس کو بھی وہی نسبت حاصل ہو جاتی ہے اور قرب کے اعلی درجات تک پہنچا دیتی ہے جو علم و عین وحق کے ماوراء ہیں کوئی یہ نہ کہے کہ جب واسطہ مرتفع ہوگیا تو رویت ثابت ہوگئی جو عین الیقین ہے کیونکہ میں کہتا ہوں کہ رویت کےمتحقق ہونے میں صرف واسطہ کا دور ہو جانا کفایت نہیں کرتا اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جن کا وجود مفقود ہے جب یقین کے تمام مراتب آیات و نشانات کی طرف راجع ہوئے اور کوئی معرفت نہ رہی جو مدلول کی طرف راجع ہوتو بے شک مدلول کی معرفت سے عجز لازم آیا اور سلب معرفت کے سوا وہاں کوئی معرفت متحقق و ثابت نہ ہوئی اور اگر یقین کے ان تینوں مراتب کو آیات و دلائل کی طرف راجع نہ کیا جائے اور مدلول کی طرف راجع ہوں تو اس معرفت سے کس طرح عجز متصور ہوگا اور سلب معرفت کے کیا معنی ہوں گے۔