آپ کا نام نامی احمد لقب بدرالدین کنیت ابوالبرکات منصف خزینته الرحمة قیوم زمان مجد دالف ثانی اور عرف امام ربانی محبوب صمدانی- مذہب آپ کا حنفی ہے۔ طریقہ آپ کا مجددیہ – جامع کمالات۔ جميع طرق قادریہ سہروردیہ- کبرویہ قلندریہ مداریہ نقشبندیہ چشتیہ نظامیہ صابریہ ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی کا نسب
آپ کا نسب عالی ۲۷ واسطوں سے امیر المومنین سید نا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے
اس طرح متصل ہے۔ ۱- حضرت شیخ احمد بن مخدوم ۲ – عبد الاحد بن ۳- شیخ زین العابدین بن ۴- شیخ عبدالحئی بن -۵- شیخ حبیب اللہ بن ۶ – امام رفیع الدین ربانی قلعہ سرہند شریف بنے۔ شیخ نصیر الدین بن – شیخ سلیمان بن ۹ – شیخ یوسف بن ۱۰ شیخ اسحاق بن 11 شیخ عبدالله بن ۱۲ – شیخ شعیب بن ۱۳ – شیخ احمد بن ۱۴ – شیخ یوسف بن ۱۵- شیخ شہاب الدین معروف به فرخ شاہ کا بلی بن ۱۶- شیخ نصیر الدین بن ۱۷- شیخ محمود بن ۱۸- شیخ سلمان بن ۱۹- شیخ مسعود بن ۲۰ – شیخ عبدالله واعظ اصغر بن ۲۱ – شیخ عبد الله واعظ اکبر بن ۲۲ – شیخ ابوالفتح بن ۲۳ – شیخ اسحاق بن ۲۴ – شیخ ابراہیم بن ۲۵ – شیخ ناصر بن -۲۶ – شیخ عبدالله بن ۲۷- سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ۲۹ نقیل بن ۳۰ – عبد العزی بن ۳۱ – رباح بن ۳۲ – عبد الله بن ۳۳- قرط بن ۳۴- زراح بن ۳۵ – عدی بن ۳۶- کعب بن ۳۷-لوی۔
کعب کا نسب حضرت ابونا آدم علیہ السلام تک بتوسط ۴۰ واسطوں کے منتہی ہوتا ہے اور آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا نسب مبارک کے واسطوں سے کعب تک اس طرح منتہی ہوتا ہے۔ محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدالمناف بن قصی بن کلاب بن مرة بن کعب ۔
کعب کا زمانہ ظہور آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے ۵۲۰ سال پہلے اور رفع حضرت عیسی علیہ السلام سے ۷۵ سال بعد تھا۔ کعب کی یہ عادت تھی کہ ہمیشہ قریش کو جمع کر کے وعظ اور پسند کیا کرتے اور اپنے فصیح و بلیغ نظموں سے ان کو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ظہور کا مشتاق بناتے تھے۔ منجملہ ان کا ایک شعر یہ بھی ہے۔
فَيُخْبِرُ أَخْبَارًا صُدُوقًا خَبِيرَهَا
عَلَى غَفْلَةِ يَأْتِي النَّبِيُّ مُحَمَّدٌ
ترجمہ: غفلت میں ہی رہ جائیں گے اور نبی محمدﷺ آ جائیں گے اور ایسی سچی خبریں سنائیں گے جن سے ان کی سچائی کی تصدیق ہوگی۔
آپ کے خاندانی
آپ کے جملہ بزرگ چرخ ولایت د عرفان کے آفتاب برج ہدایت ایمان کے ماہتاب تھے۔ چنانچہ امیر المومنین حضرت فاروق اعظم خلیفہ رسول اللہ ہیں اور عبداللہ جلیل القدر صحابی ہیں جن کی شادی حضرت فاطمہ بنت امام حسن رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔
بقول ابو جعفر محدث آپ کی اولاد داخل سادات ہے ۔ شیخ ناصر اور ابراہیم تا بعین اسحاق اور ابراہیم تبع تابعین سے ہیں۔ واعظ اصغر تک یہ خاندان ملک حجاز میں ہی رہا۔ شیخ مسعود خلفائے عباسیہ کے اصرار سے دارالخلافہ بغداد شریف میں آکر مقیم ہوئے ۔ شیخ سلیمان نے اپنے خاندانی علوم تحصیل کر کے حضرت سری سقطی سے بھی بغداد کہنہ میں خلافت پائی۔اس سلسلہ کا نام سری سقطیہ ہے۔
فرخ شاہ کابلی کے حالات
آپ حضرت فرید الدین مسعود گنج شکر علیہ الرحمہ کے بھی جد اعلیٰ ہیں۔ یعنی فرید الدین بن شیخ جمال الدین سلیمان بن قاضی شعیب بن محمد احمد بن محمد یوسف بن شیخ محمد بن فرخ شاہ آ اعاظم وزرائے سلاطین کابل سے تھے۔ مسلمان حکمرانوں میں آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہندوستان پر حملہ کیا ہے بت خانے منہدم کئے مسجدیں تعمیر کرائیں، بت پرستوں کو ذلیل اور کفار ومشرکین کو تہ و تیغ کیا۔ سرکش، جوگیوں رکھیوں کو قتل کیا۔ اس کے بعد آپ نے مختلف ممالک ایران توران بدخشان اور خراسان کو مسخر کیا۔ تخت گاہ کابل میں افغانوں اور مغلوں میں زمینداری تقسیم کی اور مستحکم حدود قائم کئے جواب ۱۳۳۱ء تک حسب حال برقرار ہیں۔ آخر العمر آپ نے امارت ترک فرما کے ایک درہ میں جو شہر کا بل سے تھوڑے فاصلہ پر تھا۔ عزلت اختیار فرمائی۔اب وه درہ فرخ شاہ کے نام سے مشہور ہے۔
شیخ یوسف اپنے والد بزرگوار حضرت فرخ شاہ کا بلی کے بعد جانشین ہوئے اور آخر عمر میں انہوں نے بھی سب جاہ و جلال دنیاوی ترک کر دیا اور گوشہ نشین ہو گئے تھے ۔ احمد بن یوسف بن فرخ شاہ نے علاوہ تعلیم خاندانی حضرت شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی سے بھی خلافت پائی۔ ان کے بعد ان کے فرزند شیخ شعیب خلیفہ و جانشین ہوئے ۔ ان کے بعد ان کے فرزند شیخ عبداللہ جانشین ہوئے اور انہوں نے حضرت بہاءالدین زکریا سے بھی خلافت پائی۔ بعدۂ خلافت خاندانی تلاش سہروردیہ یکے بعد دیگرے خاندان ہی میں منتقل ہوتی رہی حتی کہ حضرت امام رفیع الدین علیہ الرحمۃ خلیفہ ہوئے۔
امام رفیع الدین علیہ الرحمہ کے حالات
آپ جامع علوم ظاہر و باطن تھے اپنے والد ماجد کے خلیفہ اتم ہوئے ۔ بعدہ بہت سے مشائخ کبار سے استفادہ کیا، جن کی تعداد قریب (۴۰۰) کے کتب تواریخ میں درج ہے۔ بالآ خر آپ بمقام اوچ علاقہ ملتان میں سید جلال الدین بخاری مخدوم جہانیاں کے خلیفہ اکمل ہوئے اور بلحاظ تقدس مخدوم صاحب نے آپ ہی کو اپنا امام نماز مقرر فرمایا۔ ایک روز کا اقعہ ہے کہ آپ کے ایک صاحبزادہ صاحب کسی بلندی پر کچھ گا رہے تھے راہ سے کوئی عورت جارہی تھی ۔ آواز سن کر متاثر ہوئی اور گر گئی۔ اس کا پاؤں ٹوٹ گیا جب آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ لڑکے کی گردن کیوں نہیں ٹوٹی ۔ فورا ہی لڑکا اوپر سے زمین پر گرا اور گردن ٹوٹ کر مر گیا۔
تعمیر قلعہ و بناء شہر سر ہند
صحیح لفظ یہ سہر ند مرکب ( سہر شیر اور رند جنگل ) سے تھا۔ کثرت استعمال سے سر ہند ہو گیا۔ یہ نام رکھنے کی وجہ تواریخ میں اس طرح لکھی ہے کہ کبھی اس مقام پر ایک وحشت ناک جنگل شیروں کا موطن تھا۔ ایک روز فیروز شاہ خلجی کے عہد میں اس جنگل میں سے عمال شاہی خزانہ کو لا ہور سے دہلی لے جارہے تھے ۔ ان میں سے ایک شخص عارف وصاحب دل تھا۔ اس نے وہاں چشم باطن سے ایک نور تحت الٹرکی سے فوق العرش تک محیط ملاحظہ کیا اور خیال کیا کہ کیا عجب ہے یہاں سے کوئی بزرگ جلیل القدر ظاہر ہوں۔ پس جب یہ صاحب دل دہلی پہنچے تو بادشاہ کے پیر مخدوم جہانیاں سے جو وہاں آئے ہوئے تھے اس کا تذکرہ کیا ان پر ان کا بہت بڑا اثر ہوا۔ انہوں نے بادشاہ سے کہا کہ ہمارے سلسلہ میں سینہ بسینہ یہ وصیت چلی آتی ہے کہ ہندوستان میں زمانہ رسالت سے ایک ہزار سال بعد ایک بزرگ وحید امت پیدا ہو گا جو امام وقت مجد د اسلام اور فیضان ولایت و نبوت سے مالا مال ہوگا اور اولیاء سابقین کی سب نعمتیں اس کو حاصل ہوں گی۔ اس کے ظہور کا مقام آج فلاں جنگل میں معلوم ہوا ہے وہاں کچھ آبادی بھی ہو جائے تو بہتر ہے۔ بادشاہ نے اپنے وزیر خواجہ فت اللہ کو بطور خاص اس کام کی سربراہی کی خدمت سپر دفرمائی۔ وہ فی الفور کئی ہزار آدمی ہمراہ لے کر اس جنگل میں تشریف لے گئے اور ایک مرتفع مقام پسند کر کے قلعہ کی بنیاد رکھی اور تعمیر میں مصروف ہوئے مگر جس قدر تعمیر کا حصہ دن کو تیار ہوتا تھا۔ رات کو سب گر جاتا تھا۔ ہر چند اس کا تجسس کیا گیا۔ سبب دریافت نہ ہوا۔ بادشاہ کو اطلاع دی۔ بادشاہ نے مخدوم صاحب کی خدمت میں عرض کر ایا۔ آپ نے اپنے خلیفہ امام نماز رفیع الدین کو جو وزیر موصوف کے برادر خرد تھے۔ اس کام کی سربراہی کیلئے مامور فرمایا اور وہاں کی قطبیت اور ولایت دیکر روانہ کیا۔ انہوں نے بر سر موقع پہنچ کر اپنے طور باطن سے اس کا سبب دریافت کیا تو یہ معلوم ہوا کہ شاہی پیادوں نے شاہ شرف بوعلی قلندر کو بیگار میں پکڑ کر کام میں لگا رکھا ہے وہ رات کو اثر ڈال کر کل عمارت گرا دیتے ہیں ۔ آپ نے قلندر صاحب سے بہت معذرت کی اور ان کا اعزاز کیا تو قلندر صاحب نے فرمایا کہ میں آپ کے بلوانے کیلئے ایسا کرتا تھا۔ اب اللہ نے آپ کو ایک وحید امت کی ولادت کیلئے یہاں بھیجا ہے جو تمام روئے زمین سے کفر و شرک کی ظلمت کو دور کرے گا پھر ان دونوں صاحبوں نے مل کر ۷۶۰ ھ میں بسم اللہ کہہ کر قلعہ کی بنیادرکھ دی جو تھوڑی مدت میں تیار ہو گیا شہر آباد اور پر رونق ہوا۔
سر ہند مگو که رشک چین است
خلدیست بریں کہ بر زمین ست
سرہند شریف میں شاہجہان بادشاہ نے جو حضرت امام ربانی مجددالف ثانی اور آپ کی اولاد کا مرید اور نہایت معتقد تھا۔ ۱۰۴۴ھ میں ایک عالیشان محل اور باغ تعمیر کرایا۔ ۱۰۷۷ھ تک شہر کی آبادی اور ترقی رہی۔ بعدہ جب سلطان اور نگزیب تسخیر ممالک دکن میں مصروف ہو گیا۔ یہاں سکھوں نے موقع پر شہر کو لوٹ مار کر کے اجاڑ دیا۔ شہر سر ہند کا یہ خراب تاریخ ویرانی ہے۔ اب کچھ کچھ آبادی باقی ہے۔ ہر سال ۲۶ صفر سے ۲۸ صفر تک حضرت امام ربانی قدس سرہ العزیز کا عرس ہوتا ہے۔ ہزار ہا برگزیدہ بزرگ جمع ہو کر فیض حاصل کرتے ہیں۔ اس عرس میں شرع شریف کی پابندی ملحوظ رکھی جاتی ہے۔ صبح شام صرف کلام اللہ شریف کا ختم ہوتا ہے۔ بعض صاحب نعتیہ عمدہ عمدہ قصیدے بھی پڑھتے ہیں۔ یہ شہر دہلی کے شمال و مغرب میں ۳۷ فرسنگ اور لاہور سے بجانب مشرق ۳۳ فرسنگ اور کابل سے ۲۵ فرسنگ واقع ہے
آپ کے والد ماجد اور حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی علیہ الرحمۃ سے بیعت
قدوة العارفين مخدوم عبد الاحد قدس سرہ آپ کے والد ماجد اور پیر طریقت ہیں ۔ معین عالم شباب میں آپ کو جاذ بہ الہی و عشق خداوندی سے حضرت قطب العالم شیخ عبد القدوس گنگوہی علیہ الرحمہ چشتی کی خدمت میں پہنچایا۔ ان سے بیعت کی تلقین اذکار اور اولا دضروری پائے ۔ آپ کے آستانہ عالیہ پر قیام کر کے کسب سلوک کی درخواست کی ۔ شیخ نے یہ ارشاد فرمایا کہ پہلے آپ علوم دینیہ حاصل کریں۔ بعدہ اس علم کے حاصل کرنے کیلئے کمر ہمت باندھیں تو مناسب ہے کہ درویش بے علم مثل طعام بے نمک کے ہے۔ تب آپ نے عرض کیا مجھے اپنی زیست کا اعتبار نہیں ہے۔ انہوں نے فرمایا اس کا وقت ابھی بہت دور ہے۔ اللہ پاک کو آپ سے ایک خاص کام لینا ہے۔ آپ کی پیشانی میں ایک ولی برحق کا نور جلوہ گر ہے۔ اس کا ظہور ہونا ضروری ہے اگر میں زندہ رہا تو اس کو وسیلہ قرب الہی گردانوں گا۔ اس کے بعد آپ نے شیخ کی کبرسنی کی طرف خیال کیا۔ فورا ہی شیخ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں خود تمہارے علوم دینیہ کی تکمیل کرنے کے وقت تک بقید حیات نہ رہا تو ہمارا صاحبزادہ موجود ہے۔ آپ یہ مصرعہ پڑھتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوئے ۔
صبرے نیم تا کرم او چها کند
آپ تحصیل علوم دینیہ سے فارغ ہونے نہ پائے تھے کہ شیخ کے وصال کی خبر ملی بہت حسرت یمیل تحصیل علم آپ مختلف شہروں کی سیاحت کرتے ہوئے کئی سال کے بعد شیخ و افسوس کیا۔ پھر بعد قدس سرة العزیز کے آستانہ پر حاضر ہوئے۔
جناب مخدوم کی حضرت صاحبزادہ شیخ رکن الدین سے خلافت
صاحبزاده شیخ رکن الدین قدس سرہ العزیز سجادہ نشین کی حضرت شیخ قدس سرہ جناب مخدوم کی تعلیم کے متعلق ہدایت فرما گئے تھے۔ انہوں نے اس کے بموجب آپ کا کمال اعزاز کیا۔ بہت سے جلد فوائد اور برکات سے بہرہ یاب کر کے ۹۷۹ھ میں آپ کو طریقہ قادریہ اور چشتیہ صابریہ کا خرقہ خلافت عنایت فرمائی۔ فصیح و بلیغ عربی عبارات میں خلافت نامہ عطا کیا۔ اس موقع پر تیمنا اس کے شروع کا ایک شعر نقل کیا جاتا ہے۔
بشرىٰ لَقَدْ اَنْجَزَ الْإِقْبَالُ مَا وَعَدَا
وَكَوْكَبُ الْمَجْدِ بالأفق العلى صَعَدَا
ترجمه منظوم : بشری ترا که دولت و اقبال رو نمود
انجاز وعده کر دو نقابے زرخ کشور
در آسمان رکھتے شمے بر آمده
نور لے ازاں بتافتہ اندر جہاں نمود
جناب مخدوم کی حضرت شاہ کمال کیتلی قادری سے خلافت
شاہ صاحب اکثر قصبہ پائل میں سرہند شریف سے جو چار فرسنگ پر ہے، مقیم رہتے تھے ۔ حضرت مخدوم نے وہیں ان کی خدمت میں حاضر رہ کر سلوک طریقہ قادریہ طے کیا اور فوائد و بركات بالخصوص نسبت فردیت حاصل کی ۔
حضرت امام ربانی قدس سرہ العزیز نے شاہ صاحب کی نسبت اپنی کتاب مبدء ومعاد میں الفاظ صاحب جذبات قویہ و خوارق عظیمہ تحریر فرمائے ہیں۔ آپ بحالت جذبہ رات دن جنگل و بیابانوں میں پھرا کرتے تھے ۔ جب رات ہو جاتی تھی۔ اکثر صحرالق و دق میں شہر ظاہر ہو جاتا ۔ آپ وہاں چلے جاتے۔ اس شہر کے باشندے آپ کی خدمت کرتے ۔ کھلاتے پلاتے آرام سے رکھتے ۔ جب صبح ہوتی وہ شہر نظروں سے غائب اور باشندے ندارد ہو جاتے ۔
حضرت امام ربانی قدس سرہ العزیز یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہم کو جب خاندان قادریہ کے مشائخ کا کشف ہوتا ہے تو بعد حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ کے شاہ صاحب جیسا کوئی بزرگ نظر نہیں آتا۔ بتاریخ ۱۹ جمادی الثانی ۹۲۱ بهمر ۸۰ سال شاہ صاحب نے وصال فرمایا۔ قصبہ کیحقل مضافات سرہند شریف میں دفن ہوئے۔
جناب مخدوم کا بعض شیوخ سے استفادہ
آپ نے کابل سے بنگالہ تک سیاحت فرمائی۔ شہر رہتاس میں حضرت شیخ الہ داد سے اور جو نپور میں حضرت سید علی قوام نظامی اور دیگر مشائخ کرام سے استفادہ فرمایا۔
جناب مخدوم کی خوارق و کرامات
اکثر آدمی آپ سے فرماتے تھے کہ ہم نے آپ سے مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ یا بغداد شریف میں ملاقات کی تھی ۔ آپ انکسار کر کے فرماتے ۔ بھائی میں تو وہاں کبھی نہیں گیا۔ ایک مرتبہ کا واقع ہے کہ رات کو کوئی شخص اتفاقا آپ کے حجرہ میں چلا گیا اور آپ کے ہر عضو کو علیحدہ علیحدہ پڑا ہوا پایا۔ باہر نکلا اوروں سے بیان کیا۔ لوگ اندر گئے دیکھا تو آپ کو ذکر و شغل میں مصروف زیب مسند پایا۔ آپ سے واقعہ عرض کیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا اس کا ذکر کسی سے نہ آنے پائے۔
جناب مخدوم صاحب کی تصانیف
علم شریعت و طریقت میں کئی رسالے آپ کے تصنیف ہیں۔ ان میں سے اسرار شہد اور کنو الحقائق مشہور ہیں۔ ان کے دیکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو کچھ اسرار و حقائق آپ ان میں لکھتے ہیں سب الہامی ہیں ۔
جناب مخدوم کے عقائد اور ان کی تعلیم
آپ اصول و فروعا حضرت شیخ اکبر رضی اللہ عنہ کے متبع اور انہیں کے عقائد کے مقلد تھے اور ان کے کلام کے دقائق اور اسرار کے بیان میں آپ ید طولیٰ رکھتے تھے ۔ کتاب تصوف میں سے عوارف المعارف و فصوص الحکم اور مواقع النجوم و دیگر تصانیف شیخ نہایت ہی عمدگی سے آپ پڑھاتے تھے ۔ مسئلہ وحدۃ الوجود کی تفہیم وجودی طریقہ سے کرتے اور فرماتے تھے کہ ہمارا حال و مشرب یہ ہے کہ جو کچھ نظر آ رہا ہے۔ واحد حقیقی ہے کہ بعنوان کثرت نمودار ہوا ہے اور اپنے شیخ گنگوہی علیہ الرحمہ کا واقعہ بیان فرماتے تھے کہ آپ نے ایک روز ارشاد فرمایا کہ اس عالم میں رویت و مشاہدہ حق سبحانہ تعالیٰ سے خواہ وہ بچشم تر ہو یا سر بلا ایقان فائدہ نہیں ۔ آپ سے حضرت امام ربانی قدس سرہ نے ایقان کے معنی دریافت کئے تو فرمایا کہ ” اتحاد یعنی شاہد و مشہود میں اعتباری انشتیت بھی باقی نہ رہے۔ قال شیخ عبداللہ بلیانی سہر وردی المتوفی نے 697 ھ
(نظم)
حقیقت جز خدا دیدن روانیست
که بیشک روا عالم جز خدا نیست
نے گویم که عالم او شده نه
که این نسبت باد کردن ردا نیست
نه او عالم شدد نے عالم او شد
ہمہ را این چنیں دیدن خطا نیست
آپ ارشاد فرماتے تھے کہ امور خلاف شرع اور بدعات سے مجھے کو دلی نفرت ہے کسی درویش کو جب خلاف شرع پاتا ہوں۔ اس کی صحبت ترک کر دیتا ہوں۔ جب مجھ پر کسی امر کا انکشاف ہوتا ہے تو قرآن وحدیث و شاہد عدول کے روبرو اس کو پیش کرتا ہوں۔ اگر ان سے مطابقت ہو جاتی ہے تو قبول کر لیتا ہوں ورنہ رد کر دیتا ہوں۔
جناب مخدوم کے مریدین و تلامذہ
آپ کے ہزاروں مرید اور صد ہا شاگرد تھے۔ علم شریعت اور طریقت کی تعلیم جاری تھی ۔ قدوة المشائخ شیخ میرک لاہوری مصنف و سفینۃ الاولیاء وغیرہ استاد ظاہر و باطن شاہزادہ داراشکوہ آپ کے مرید اور تلمیذ تھے ۔ بعض اوقات لوگوں سے ایسے ایسے اسرار و معارف عالمیہ بیان فرماتے تھے کہ بڑے بڑے علماء فحول اس کے سمجھنے میں حیران و ششدر رہ جاتے اور بہت ہی غور و خوض کے بعد سمجھتے تھے ۔
(نظم)
ارباب بقا زنده بجان دگراند
بیرون زدوکون و در جہانے دگراند
پے بزبان حال ایشاں بزد
ابن طائفه گویا بزبان دگراند
جناب مخدوم کی وفات
جب آپ کا اخیر وقت ہوا۔ آپ نے کئی مرتبہ ارشاد فرمایا ۔ ” بات وہی ہے جو شیخ بزرگوار شیخ عبد القدوس) نے فرمائی تھی۔ آپ کے صاحبزادہ حضرت امام ربانی قدس سرہ العزیز حاضر تھے ۔ انہوں نے آپ سے دریافت فرمایا کہ حضور وہ کیا بات ہے۔ فرمایا حقیقت حق سبحانہ تعالیٰ ہستی مطلق ہے لیکن لباس کو یہ مجوبوں کی آنکھ پر ڈال کر انہیں دور ومہجور رکھتا ہے آپ نے عرض کیا کہ مجھ کو کچھ وصیت فرمائیے ۔ فرمایا بس تمہیں یہی وصیت کرتا ہوں اور میں محبت اہلبیت میں سر شاد ہوں اور نعمت کے دریا میں مستغرق ہوں۔
الہی بحق بنی فاطمه
کہ بر قول ایماں کنی خاتمہ
تاریخ ۱۷ رجب ۰۰۷اه بعمر ۸۰ سال وصال فرمایا۔ مزار شریف سرہند میں بجانب شمال ایک میل پر واقع ہے۔
جناب مخدوم کی اولاد
آپ کی شادی ایک بزرگ زادی سے بمقام سکندن جواب ضلع بلند شہر میں ایک قصبہ ہے ہوئی تھی۔ ان کے بطن سے سات صاحبزادے تولد ہوئے ۔
(۱) شیخ شاہ محمد: انہوں نے حضرت مخدوم سے ظاہری و باطنی تعلیم وخلافت پائی۔
(۲) شیخ مسعود : یہ حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ کے مرید ہوئے۔
(۳) آپ کا نام اور کوئی کیفیت معلوم نہ ہوسکی۔
(۴) شیخ احمد (امام ربانی ) آپ کے حالات جو ہر دوم میں مفصل مندرج ہیں۔
(۵) شیخ غلام محمد : دونوں صاحبوں کے حالات مکتوبات شریف جلد اول
(6) شیخ فوادو: میں مندرج ہیں ۔
(۷) آپ کا نام و کیفیت معلوم نہ ہوسکی ۔