124

حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے عقائد


حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے عقائد

آپ متکلمین میں سے علماء ماتریدین کے عقائد کی تقلید کرتے اور فرماتے تھے کہ کشف صحیح سے اس کی حقانیت ظاہر ہوتی ہے اس میں بمقابلہ عقائد اشعر یہ فلسفہ کا دخل نہیں ہے اور یہ طریق انوار نبوت سے مقتبس ہے اور بعض شیوخ کو جو اس کے خلاف مکاشفات ہوئے ہیں بے اصل و بے بنیاد ہیں ۔ آپ تعلیم دین کو بمقابلہ تلقین سلوک مقدم رکھتے تھے اور نبوت کو ولایت سے افضل فرماتے اور خاص خاص انسانوں کو خاص خاص ملائک پر فضیلت دیتے اور اصحاب کبار کو تمام اولیاء سے بہتر جانتے ۔ اولیاء عشرت کو اولیاء عزت سے اعلیٰ اور مذہب حنفی کو دیگر مذاہب پر ترجیح اور طریقہ نقشبندیہ کو اور طرق پر فوقیت دیتے اور فرماتے تھے کہ یہ طریقہ بسبب اتباع شرع شریف بعینہ طریقہ اصحاب کبار ہے۔ اس کی نسبت دیگر نسبتوں سے بلند اور ارفع ہے اور مشائخ متاخرین حضرت حضرت خواجہ بزرگ خواجہ نقشبند اور خواجہ محمد پارسا اور خواجہ علاؤالدین عطار علیہ الرحمۃ و خواجه عبید اللہ احرار علیہم الرضوان نے جو بعض امورات کو روا رکھا ہے اور وہ بظاہر خلاف شروع معلوم ہوتے ہیں۔ فرماتے تھے کہ وہ امور لازم الاتباع نہیں ہیں۔


آپ اکثر اوقات حضرت شیخ اکبر رضی اللہ عنہ کے محامد بیان فرماتے ۔ مگر ان کے بعض مکاشفات خلاف شروع کی تردید کرتے تھے۔ کلمات توحید وجودی کا اظہار بلا غلو حال ناپسند اور یسے قال کی تقلید کو نا جائز فرماتے تھے۔

حافظ
رموز سرا نا الحق چه دانداں عاقل

کہ منجذب نہ شد از جذ بہائے رحمانی

معارف تو حید شہودی کو تو حید وجودی پر اور محو کو سکر پر ترجیح دیتے تھے۔ ذکر جہر کو خلاف ادب جانتے اور چلہ کشی کو بے ضرورت اور خلاف سنت سجدہ قبور کو اور سماع اور رقص اور صندل و چراغاں عرس کو ناجائز فرماتے اور سختی سے منع کرتے تھے ۔ نفس میلاد شریف کو جائز اور طریقہ مروجہ کو نا جائز فرماتے تھے۔ مگر زیارت قبور کو مستحسن اور اولیائے اللہ سے مدد چاہنے کو درست اور ایصال ثواب عبادات مالی اور بدنی کو جائز اور عام امر مسنون کو خواہ کوئی یہ تعین ادا کرے داخل سنت قرار دیتے تھے اور طواف و بوسہ دہی قبور کو مکر وہ جانتے تھے ۔ مزارات والد و پیر بزرگوار پر شروع شروع آپ ہاتھ پھیر کر چہرہ انور سے ملتے تھے۔ بالآخر اس کو بھی ترک فرما دیا تھا۔ حتی الامکان مذاہب فقہاء میں جمع کر کے متفق علیہ مسئلہ پر آپ عمل فرماتے تھے۔ چنانچہ اس غرض سے آپ خود امامت کرتے تھے کہ سورہ فاتحہ نماز میں پڑھ سکیں اور قرات خلف الامام بھی نہ ہو اور چونکہ امام اعظم کے نزدیک قبرستان میں قرآن شریف پڑھنا مکروہ اور ان کے شاگرد امام محمد اور امام ابو یوسف کے نزدیک روا ہے۔ گا ہے آپ پڑھتے تھے اور گا ہے ترک فرما کر ادعیہ منسونہ پر اکتفا کرتے تھے۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا