116

حضرت امام ربانی علیہ رحمہ کا علم طریقت


آپ کا اپنے والد ماجد سے خلافت پانا

اولا آپ اپنے والد ماجد حضرت مخدوم عبد الاحد قدس سرہ العزیز کے مرید ہوئے اور آپ نے ان کی صحبت کیمیا خاصیت کو لازم پکڑا۔ ریاضت اور عبادت میں مشغول ہوئے اور انہوں نے سلاسل میں آپ کو خلافت عطا فرمائی۔

دیگر کمالات اور نسبت فردیت

آپ نے حضرت مخدوم ان کے مختصر علوم تعلیم کتب تصوف عوارف المعارف اور فصوص الحکم ا حاصل فرمائی اور نسبت فردیت و توفیق عبارات جو ان کو ان کے شیوخ سے پہنچی تھی، حاصل فرمائی۔ چنانچہ اس کو آپ نے اپنی کتاب مبدء و معاد میں ذکر فرمایا ہے کہ اس درویش کو دولت نسبت فردیت اپنے پدر بزرگوار سے حاصل ہوئی جو اور ان کو ایک بزرگ قوی الجذ بہ کثیر الکرامات (یعنی شاہ کمال کیتلی قادری) سے حاصل ہوئے۔ نیز اس درویش کو تو فیق عبادات نافلہ کی امداد بھی اپنے والد ماجد سے ہی پہنچی۔ جو ان کو ان کے چشتیہ طریق کے شیوخ سے حاصل ہوئی تھی۔

آپ کے والد ماجد کا طریقہ نقشبندیہ کی توصیف کرنا

حضرت مخدوم قدس سرہ نے طریقہ نقشبندیہ کے جو فضائل اپنے بزرگوں سے سنے اور کتب میں دیکھے تھے کہ اس بادیہ کی شاہ راہ اور اس دائرہ کا مرکز طائفہ علیہ نقشبندیہ کے ہاتھ آیا ہے۔ یہ ملک اس طریقہ کے بزرگواروں سے خالی ہے اور افسوس ہے کہ ہم کو اس سلسلہ علیہ سے استفادہ کا
موقع نہ مل سکا۔

افضلیت طریقہ نقشبندیہ

طریقت کے اصول میں یہ بات داخل ہے کہ مرید اپنے پیر کو سب سے افضل سمجھے ورنہ فیض سے محروم رہتا ہے اس سلسلہ کے پیر اعلیٰ سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں جن کی شان یہ ہے کہ افضل البشر بعد الانبیاء با تحقیق۔ پس آپ کی نسبت ایسا اعتقاد رکھنے سے شریعت اور طریقت دونوں کی تکمیل ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اس طریقہ کے تمامی اصول و فروع میں اتباع سنت و اجتناب بدعت بدرجہ کامل ہے یعنی اصحاب کبار کا سالباس ہے۔ انہیں کی سی معاشرت۔ ویسے ہی اذ کارواشغال ۔ وہی محاسبہ نفس اور ہر دم کی حضوری وہی آداب شیخ ویسی ہی کم ریاضتی اور فیضان کثیر اور کمالات ولایت کے علاوہ کمالات نبوت کی بھی تعلیم ۔ نہ اس میں چلہ کشی ہے نہ ذکر بالجہر نہ سماع بالمزا نہ قبور پر روشنی نه غلاف و چادر اندازی نه هجوم عورات نہ سجدہ تعظیمی، نہ سر کا جھکانا نہ بوسہ چادراندازی نه دینا نہ تو حید وجودی و دعوی انا الحق و ہمہ اوست نہ مریدوں کو پیروں کی قدم بوسی کی اجازت نہ مرید عورتوں کی ان کے پیروں سے بے پردگی۔

تعلیم ذکر اسم ذات

اول اس درویش کو آپ نے ذکر اسم ذات کی تعلیم کی اور بطریق عادت قدیمہ توجہ کی یہاں تک کہ فقیر کے قلب میں التز از تمام پیدا ہوا اور کمال شوق و اشتیاق سے گریہ وزاری کرنے لگا۔

مدہوشی وفناء

ایک روز کے بعد بحالت بے خودی ایک دریائے محیط اور صور واشکال عالم اس دریا کے سایہ میں نمودار ہوئے۔ رفتہ رفتہ اس کیفیت بے خودی نے اور بھی غلبہ کیا۔ کبھی ایک پہر تک رہتی اور کبھی دو پہر اور کبھی تمام شب ۔ میں نے اپنے خواجہ صاحب کی خدمت میں یہ کیفیت بیان کی۔ تو آپ نے فرمایا کہ تم کو ایک قسم کی فناء حاصل ہوئی ہے ۔

موج خاکی وہم وفہم و فکر ماست

موج آبی محو سکراست و فناست

مقام ظلال وفناء و مالفناء

اس کے بعد آپ نے ذکر کرنے سے منع کر دیا لیکن موجودہ ذکر کی نگاہ داشت کے لئے ارشاد فرمایا۔ پھر دو روز کے بعد مجھے فناء مصطلح حاصل ہوئی تو میں نے خدمت والا میں کیفیت عرض کی ارشاد فر مایا کہ تمام عالم کو ایک دیکھتے رہو اور واحد و متصل پاتے ہو یا نہیں ۔ میں نے عرض کی ایک پاتا ہوں۔ فرمایا فنائے فنا میں یہ بات معتبر ہے کہ باوجود اتصال ابدان بے شعوری حاصل ہوئی اس رات مجھے پر بھی کیفیت گزری تھی۔ وہ سب میں نے آپ کی خدمت میں عرض کی اور کہا میں اپنے علم کو نسبت حق سبحانہ و تعالیٰ اب حضوری میں پاتا ہوں ۔

مرتبه علمی

اس کے بعد ایک نو رسیاہ رنگ کا ظاہر ہوا جو تمام اشیاء کو محیط تھا میں نے اس کی کیفیت بھی عرض کی تو ارشاد فرمایا کہ انبساط جو اس نور میں دکھلائی دیتا ہے۔ علم الہی ہے کہ بواسطہ تعلق ذات حق سبحانہ ان اشیاء کے ساتھ جو بالا و پستی میں واقع ہیں۔ منبسط ہے لہذا انبساط کی بھی نفی کرنی چاہئے ۔ اس کے بعد اس نور منسبط میں انقباض ظاہر ہوا اور تنگ ہونے لگا حتی کہ صرف ایک نقطہ کے برابر رہ گیا۔

مقام حیرت و حضور نقشبندیہ

فرمایا اس نقطہ کی بھی نفی کرنی چاہئے اور حیرت میں آنا چاہئے ۔ میں نے ایسا ہی کیا چنانچہ وہ نقطہ بھی زائل ہو گیا اور حیرت ظاہر ہوئی کہ اس مقام پر خود بخود شہود حق سبحانہ وتعالیٰ ہے۔ میں نے یہ کیفیت عرض خدمت کی تو فرمایا یہی حضور نقشبندیہ ہے اور نیت نقشبند یہ عبادت اسی حضور و آگاہی سے ہے اور اس حضور کو حضور غیبت بھی کہتے ہیں۔ یہی مقام اندراج النہایۃ فی البدایۃ کا ہے۔ اس طریق میں طالب کو بحجر داخذ نیت یہ مقام حاصل ہوتا ہے اور دوسرے طریقوں میں کسی کو اگر کچھ حاصل ہوتا ہے تو بڑے کسب و ریاضت اور محنت و مجاہدہ سے اس فقیر کو یہ مقام ابتدائے تعلیم ذکر سے اندروں دوماہ چند روز حاصل ہو گیا ۔

مقام فناء حقیقی و شرح صدر

اس کے بعد پھر ایک روز فناء حاصل ہوئی۔ جسے فنا حقیقی کہتے ہیں اور دل میں اس قدر وسعت پیدا ہوگئی کہ تمام عالم عرش سے فرش تک اس کے پہلو میں رائی کے دانہ کے برابر دکھائی دینے لگا۔

مقام حق الیقین وجمع الجمع

اس کے بعد میں نے اپنے آپ کو اور ہر ہر فرد عالم کو بلکہ ہر ہر ذرہ کو حق دیکھا۔

ہر ذره که دیدیم جمال تو بدید

ہر جا کہ رسیدیم سر کوئے تو دیدیم

اس کے بعد ہر ذرہ عالم کو الگ الگ اپنائین دیکھا اور اپنے آپ کو بلکہ ہر ذرہ کو اس قدر منبسط اور وسیع پایا کہ تمام عالم بلکہ ایسے ایسے کئی عالم اس میں سما جائیں اور میں نے اپنے آپ کو اور ہر ذرہ کو ایک نور منبسط پایا کہ اشکال وصور عالم اس میں مضمحل مثل لاشے کے پار ہیں ۔ اس کے بعد میں نے اپنے آپ کو بلکہ ہر ذرہ کو مقوم جمیع عالم پایا۔ جب میں نے یہ کیفیت حضرت خواجہ علیہ الرحمہ کی خدمت میں عرض کی تو فرمایا۔ توحید میں مرتبہ حق الیقین ہی ہے اور جمیع الجميع عبارت اسی مقام سے ہے۔ اس کے بعد صور واشکال عالم کو جیسا کہ اول میں نے حق پایا۔ اس وقت موہوم پایا اور نہایت حیرت پیدا ہوئی اور اس وقت مجھ کو فصوص الحکم کی عبارت جو میں نے حضرت والد ماجد سے سنی تھی یاد آئی اور فی الجملہ تسکین بخش اضطراب ہوئی ۔ هُوَ هَذَا إِنْ شِمْتَ قُلْتَ إِنَّهُ اى الْعَالَمُ حَقٌّ وَإِنْ شَمْتَ قَلْتَ إِنَّهُ خَلْقُ وَان شنتَ قَلْتَ إِنَّهُ حَقَّ مِنْ وَجْهِ وَخَلَقَ مِنْ وَجُهِ وَإِنْ شِئتَ قَلْتَ بِالْخَيْرَةِ بَعْدَ التَّمِيذٍ بِكُنُهُمَا ( ترجمہ ) تو چاہتا ہے کہ تو کہہ کہ عالم حق ہے یا کہہ عالم حق ہے یا کسی اعتبار سے حق اور کسی اعتبار سے خلق یا امتیاز کر دونوں میں کہ یہ بہترین مرتبہ ہے۔


(نظم)
وحدت مطلق میں جان خلق و خدا ایک ہے

دیکھنا توحید ہے بولنا ترک ادب

پر ہے حقیقی دوئی عالم وحق میں ضرور

اس کے سوا احمد نہ زنہار لب

صوفیہ کا یاد رکھ قاعده کلیه

خلق نہ ہو جائے حق عبد نہ ہو جائے رب

مرتبه فرق بعد الجمع

بعدہ میں نے آپ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر اپنا حال عرض کیا۔ ارشاد فرمایا۔ ابھی تمہارا حضور صاف نہیں ہوا۔ تم اپنے کام میں مشغول رہو ۔ یہاں تک کہ موجود وموہوم کے درمیان تم پر تمیز ظاہر ہو جائے ۔ میں نے خصوص الحکم کی وہ عبارت جو مشعر بعدم تمیز ہے۔ پڑھ کر سنائی۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ شیخ نے جو لکھا ہے۔ وہ مرتبہ کمال کا حال نہیں ہے کیونکہ عدم امتیاز ابتدائی مقامات میں سے ہے۔ میں حسب الحکم اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ اللہ عزوجل نے آپ کی توجہ سے کامل دو روز میں موجود اور موہوم کے دریان تمیز ظاہر کر دی۔ یہاں تک کہ میں نے موجود حقیقی کو موہوم خیال سے ممتاز فرمایا اور صفات و افعال کو بھی موہوم محض پایا اور خارج میں بجز ایک ذات موجود کے اور کچھ نہ دیکھا۔

ذکر کن مذکور تا گرد و عیاں

نے کہ آں ذکرے کہ باشد بر زباں

جب یہ حالت میں نے عرض خدمت کی تو ارشاد ہوا کہ مرتبہ فرق بعد الجمع یہی ہے اور انتہا یہیں تک ہے۔ اس مقام کو مشائخ طریقت نے مرتبہ تکمیل کہا ہے۔ انتہمی کلامہ الشریف۔

نسبت مرادیت و محبوبیت

الحاصل آپ نے دقائق علیہ دواردات مرضیہ و احوال شریفہ بہت ہی تھوڑی مدت میں
حاصل فرمالئے جو اور سالکوں کو برسوں میں بھی حاصل نہیں ہو سکتے

چیزے کے انبیاء را حاصل نبود کل

آن چیز بے مشقت آسان شدست ما را

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا

حضرت خواجہ علیہ الرحمہ صاحب نے اس کی یہ وجہ بیان فرمائی کہ آپ میں نسبت محبوبیت و مرادیت ہے اور اس نسبت والوں کو بمقابلہ مریدیت و مجیت کی نسبت والوں کو بلا محنت و مشقت بہت جلد سلوک طے ہوتا ہے ۔


کلیم مدہوش لن ترانی حبیب مامور من ار آنی
یہ میں چه فرق ست درمیانی میاں هر یک چنانکه دانی