190

حضرت امامِ ربانی مجدد الف ثانی کی تصانیف و تعلیم


حضرت امامِ ربانی مجدد الف ثانی کی تصانیف و تعلیم

علوم شریعت اور معارف طریقت میں آپ کی بے شمار تصانیف ہیں ان میں سے صرف وہ تصنیفات جن کے مسودہ باقی رہ گئے تھے اور وہ مرتبہ شہرت کو پہنچیں (۶۴۵ ) ہیں ۔

1- اثباۃ النبوۃ: اس میں آپ نے ابوالفضل وغیرہ دہریہ اور اکثر ملحدین کے اقوال کا رد کر کے
آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی نبوت کا بدلائل عقلیہ و نقلیہ نہایت شرح وبسط سے ثبوت دیا ہے۔


۲- رسالہ ر دروافض : اس میں آپ نے شیعہ شنیعہ کے اس رسالہ کا دندان شکن جواب دیا ہے جو انہوں نے بوقت محاصرہ مشہد مقدس علماء و ماوراء النہر کو قتل کرنے اور ان کا مال لوٹنے کے جواز
میں لکھا تھا۔


-۳- شرح رباعیات حضرت خواجہ باقی باللہ الہ ہلوی رحمتہ اللہ علیہ ۔
-۴- تعلیقات عواف جو آپ نے بطور ایک اعلیٰ حاشیہ کے عواف پر تحریر کیا ہے۔
۵- رسالہ علم حدیث ۔

۶- رساله حالات خواجگان نقشبند
۷ – ۔ رسالہ تہلیلیہ

۸ – رساله مکاشفات غیبیہ
۹ – رسالہ آداب مریدین۔

۱۰- رسالہ مبدء و معاد
۱۱- رسالہ معارف لدنیہ


رسالہ نمبر 10 اور ا ا میں آپ نے اپنے مکاشفات اور مقامات خاصہ بیان فرمائے ہیں ان ا رسالوں کے سوا آپ کے مکتوب ہیں کہ ہر ایک ان میں سے بمنزلہ ایک مستقل رسالہ کے ہے۔

امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات شریف

آپ کے کل مکاتیب (۵۳۴) ہیں جو تین جلدوں میں منقسم ہیں ۔

جلد اول : موسوم باسم تاریخی در المعرفت اس میں بموجب تعداد پیغمبران مرسل یا بعد و اصحاب بدر (۳۱۳) مکتوب ہیں۔ اس کو آپ کے خلیفہ حضرت مولانا یار محمد الجديد البدرخشی الطالقانی سے ۱۰۲۵ھ میں جمع کیا۔
(نوٹ) بدخش مخفف بدخشان کا اور طالقان ملک فارس میں ایک شہر کا نام ہے۔

جلد ثانی: موسم باسم تاریخی نور الخلائق اس میں صرف (۹۹) مکتوب ہیں ۔ اس کو آپ کے
خلیفہ حضرت مولانا عبد الحئی حصاری نے ۱۰۲۸ھ میں جمع کیا۔

جلد ثالث: موسم به اسم تاریخی مَعْرِفَةُ الْحَقَائِقِ اس میں (۲۲۲) مکتوب ہیں ۔ اس کو آپ
کے خلیفہ مولانا خواجہ محمد ہاشم بر ہانپوری نے ا۱۰۳ھ میں جمع کیا۔

آپ کے مکتوب قدی آیات میں اعلیٰ اعلیٰ معارف اور عمدہ عمدہ حقائق بیان ہوئے ہیں عرف وعجم کے علماء اور سر آمد مشائخ نے ان کو ملاحظہ کر کے آپ کی مجددیت کی تصدیق کی اور آپ کی تصانیف کی توصیف میں تقریظیں اور رسالے تحریر کئے ۔ واضح ہو کہ مکتوبات شریف کے مضامین کی رفعت و منزلت دو اعتبار سے ہے۔ ایک یہ کہ بسبب مرور ایام دوری زمانه مسعود آن حضرت صلى الله عليه وسلم دین میں بڑے بڑے نقائص اور خرابیاں پیدا ہو گئیں تھیں ۔ دربار اکبری کے ہمرنگ مسلمانوں میں ایک محمد گروہ قائم ہو گیا تھا جو تو حید کو بغیر رسالت اسلام کیلئے کافی سمجھتا تھا۔ فلسفیوں نے ابطال نبوت پر کتابیں لکھ دیں تھیں ۔ جاہل صوفیوں نے طریقت کو شریعت سے علیحدہ اور آزاد ٹھہرایا تھا۔ احکام قرآن و احادیث کی پابندی کو بالائے طاق رکھ دیا تھا۔ نہ الہام اور ابہام میں تمیز رہی تھی نہ کشف اور وساوس شیطانی میں فرق باقی تھا۔ صوفیائے متقدمین کے شطحیات کی غلط غلط تو جیہات قائم کر کے ان کو قابل عملدرآمد قرار دیا جا رہا تھا۔ جب آپ کا ظہور ہوا۔ آپ نے اپنی تصنیفات میں نہایت خیریت سے ان سب بے دینوں کا مقابلہ کیا اور کتاب وسنت سے ہر امر کا فیصلہ فرما دیا اور جو خلاف شرع کلام صوفیاء متقدمین کا کشف حقیقی کے درجہ میں شمار ہوتا تھا۔ اس کو بھی صاف کر دیا۔ مثلاً ارشاد حضرت شیخ اکبر الوَلَايَةُ أفْضَلُ مِنَ النَّبُوَّةِ وغيره مقامات سلوک کے بیان میں اگر کسی سے کچھ چوک یا غلطی ہوئی تھی ۔ اس کو بھی آپ نے صحت کر کے وضاحت کردی۔ مثلاً جناب شیخ نے فصوص الحکم میں مرتبہ جمع تحسبه و تنزیہ کو اعلیٰ ترین قیام مقعد صدق تحریر

فرمایا ہے ۔ وَشَبِّهُ وَنَزَهُهُ وَقُمْ فِي مَقْصَدِ الْعِدْق آپ نے اس کی تصحیح میں مکتوب ۷۹ دوسری
جلد میں تحریر فرمایا ہے۔

دوسرا یہ کہ آپ کے بعض مکتوبوں میں وہ معارف و مقامات عالیہ بیان ہوئے ہیں جو اللہ تعالی نے آپ کو مخصوص طور پر بلا شرکت دیگر اولیاء اللہ عطاء فرمائے ہیں ۔ جیسے امامت ، سابقیت ، خالصیت تخلیصیت ، اصالت اور قیومت مجددیت الف ثانی دیگر کمالات نبوت ورسالت وغیرہ۔

مکتوبات شریف کی تردیدات

مکتوبات شریف کی تردید کرنا تو دوسری بات ہے ان کا سمجھنا ہی بغیر لیاقت کا ملہ اور عنایت الہیہ ہر ذی علم کو دشوار ہے پھر تردید کرنا خواہ وہ غلط ہو یا نیچ اور مشکل ہے تاہم بعض مکتوب کی تردید ضرور لکھی گئی اور اس کے دو باعث ہوئے۔ ایک یہ کہ آپ کا ایک مرید حسن خان افغانی آپ سے منحرف ہو کر کچھ مسودات متکو بات شریف چرا کر لے بھاگا تھا۔ اس نے اس میں ترمیم اور تحریف کر کے متعد د نقول کر کے بغرض اغواء عمائد وقت کے پاس بھیج دیں، جس نے دیکھا۔ آپ سے غیر معتقد ہو گیا بعض نے تردید بھی لکھی۔

مگر رفته رفتہ حسن خاں کے واقعہ کا اور تحریف کا بھی لوگوں کو علم ہوتا گیا جس جس نے تردید لکھی تھی
معذرت چاہی۔
چنانچہ شیخ فتح محمد فتح پوری چشتی اپنی کتاب مناقب العارفین میں لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ عبدالحق کے صاحبزادہ مولانا نورالحق سے معلوم ہوا کہ آپ کے مکتوبات شریف کے رد میں شیخ نے رسالہ لکھا تھا جب ان کو حسن خان کی تحریف کا واقع معلوم ہوا تو انہوں نے معذرت کا مکتوب لکھا حالانکہ جناب مجد درحمتہ اللہ اور شیخ پیر بھائی اور حضرت خواجہ کے مرید ہیں ۔
دوسرا باعث یہ ہوا کہ جب آپ کی ذات بابرکات سے کرامات ظاہرہ اور کمالات باہرہ کا اظہار ہوا اور ہر طرف نور سنت پھیلا۔ ظلمت، شرکت و بدعت دور ہوئی۔ آپ کا عالمگیر شہرہ ہوا۔ بعض بے دینوں میں آتش حسد بھڑ کی اور آپ کی کلام معجز نظام کی تردید میں کوشاں ہوئے ۔ محمد صالح گجراتی نے ایک رسالہ بنام اشتباہ لکھا اور محمد عارف اور عبد اللہ سورتی کو اغواء کر کے ان سے کچھ روپیہ فراہم کر کے سید محمد برزنجی مدنی کے پاس پہنچ کر اس سے بھی آپ کے مکتوب کا رد لکھوایا اور اس کا الراد البرزنجی نام رکھا گیا اور قشاشی نے بعداوت آپ کے خلیفہ حضرت شیخ آدم بنوری علیہ الرحمہ کے مکتوبات کے رد میں ایک رسالہ لکھا اور اس کا نام اسرار المناسک رکھا۔

تر دیدات کے جوابات

ان تر دیدات کے جواب بھی نہایت بسط و شرح سے لکھے گئے ۔ اگر چہ شیخ کے معذرت کر لینے کے بعد ان کے رسالہ کی تردید کی ضرورت باقی نہ تھی لیکن مولا نا وکیل احمد سکندر پوری نے اس کا جواب شافی ہدیہ مجددیہ اور اشتباہ محمد صالح کا دندان شکن جواب انوار احمد یہ تحریر کیا اور اس میں ضمناقشاشی کے رسالہ اسرار المناسک کا بھی جواب دے دیا۔ ایرادالبرزنجی اگر چہ ایک نہایت ہی غیر معتبر اور بالکل ہی بے حقیقت رسالہ تھا۔ حرمین شریفین کے تمامی علماء نے اس کی صحت کی تصدیق پر مہریں کرنے سے کلیتر انکار فرما دیا۔ تا ہم حضرت مولا نا عبدالحکیم سیالکوٹی نے اس کا مفصل جواب لکھا۔ اس کا نام الکلام انجی فی ایرادالبرزنجی رکھا اور علامہ وقت شیخ نورالدین محمد بیگ نے بھی رد برزنجی میں ایک مفصل رسالہ لکھا۔ اس رسالہ کی صحت پر علاء حرمین شریفین مثل عبداللہ آفندی، شیخ احمد البشبشی ، سید اسعد المفتى المدنى المحفی ، امام العلى الطمری، المفتی الشافی، عبدالرحمن بن محمد الصالح الامام المالکی محمد بن الاقصی الحنفی ، شیخ حسن ا بھی ، مرشد الدین بن احمد المرشدی نے مہریں اور دستخط کئے ۔ شیخ معظم عالم محترم سید محمد آفندی اور شیخ الاسلام مفتی مکہ معظمہ مذہب حنفیہ شیخ عبداللہ آفندی عناقی زادہ نے تقریظیں لکھیں۔ ان کے مضمون کا عشر عشیر حاصل یہ ہے کہ شیخ صالح نے جو گجراتی ہے یا اور نگ آبادی اور اس کے اتباع محمد عارف بعد عبداللہ سورتی نے مکتوبات قدس آیات سے عالم ربانی عارف حقانی حضرت شیخ احمد سرہندی فاروقی میں سب کچھ تحریف اور کمی بیشی کر کے عربی ترجمہ کرا کے ہمراہی زرکثیر سید محمد برزنجی مدنی کے پاس رد لکھنے کی غرض سے بھیجے۔ برزنجی نے بطمع نفسانی رولکھ دیا۔ فورا ہی فاضل اجل عالم با عمل شیخ نورالدین محمد بیگ نے آپ کے اصل مکتوبات ہندوستان سے منگا کر مقابلہ کیا تو ثابت ہوا کہ وہ اصل تحریف شدہ مکتوب تھے اور در حقیقت ان کا کلام معجز نظام معارف اور حقائق کا گنجینہ اور شرائح اور احکام کا خزینہ ہے۔ ایسے کلام کی تردید ضلالت بین اور گمراہی ظاہر ہے ان کے مکتوب کو دستورالعمل قراردیں۔

آپ کے طریق کی تعلیم اور دیگر طرق سے فرق

اولیا ء سلف کے سلوک کی سیر حسب ذیل ہے۔
:
سیر الی اللہ : اس میں عالم خلق ، عالم امر ، واحدیت اور وحدیت کی سیر ہوتی ہے۔

سیر فی اللہ : اس میں احدیت کی سیر ہوتی ہے جس کو آپ اپنی تحقیق میں فرماتے ہیں کہ یہ سیر حقیقتا ظلال اسماء وصفات کی ہے۔


سیر عن الله باللہ : اس میں احدیت سے کثرت خلق کی طرف نزول کی سیر ہوتی ہے۔

( نوٹ ) مراد عالم خلق سے مخلوق تحت العرش، عالم امر سے مخلوق فوق العرش ملائک وغیرہ۔

واحدیت سے مفضل صفات الہی وحدت سے مجمل صفات الہی ، احدیت سے ذلت بحث ہے جو ہر قسم کے اعتبار سے منزہ ہے۔ یہی پانچ مرتبے ایک مرتبہ انسان جامع ، مراتب ستہ کہلاتے ہیں اور یہ مراتب محض اعتباری ہیں ورنہ وہ ایک ہی ذات ہے جو قدم سے امکان تک موجود ہے۔

آپ کے سلوک کی سیر حسب ذیل ہے

ولایت صغری یا ولایت اولیاء: اس میں سیر الی اللہ ہوتی ہے۔ نیز وہ سیر جس کو دیگر اولیاء نے سیر فی اللہ سمجھا ہے اور حقیقت میں وہ سیر طلال ہے۔

۲ – ولایت کبری یا ولایت انبیاء: اس میں اصل اسماء وصفات کی سیر ہوتی ہے جو اور
طریقوں میں نہیں ہے۔


اس کے علاوہ اور ۶ یا ۱۷ مقام مفصلہ ذیل ہیں جو قبل ذات بحث اس سلوک میں طے ہوتے ہیں ۔


(1) ولایت علیا یا ولایت ملائک (۲) کمالات نبوت (۳) کمالات رسالت (۴) کمالات اولوالعزمی اس کے بعد یا (۵) قیومیت اشیاء یا (۶) حقیقت کعبہ (۷) حقیقت قرآن (۸) حقیقت صلوة (۹) بعض لوگوں کو حقیقت حکوم (۱۰) معبودیت صرفه (۱۱) عبدیت یا (۱۲) خلت حقیقت ابراہیمیه (۱۳) مجیت حقیقت موسویه (۱۴) محبوبیت متزجه حقیقت محمدیہ (۱۵) محبوبیت سازجہ حقیقت احمد یہ (۱۶) تعین حسبی (۱۷) تعین وجودی ، اس کے بعد دائرہ القین یعنی ذات بحث مع الصفات الثمانية التحقيقية –

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا