119

حضرت امامِ ربانی اور حکمران وقت


چند ہی عرصہ میں آپ کے کمالات کا عالمگیر شہرہ ہو گیا۔ مور و ملخ کی طرح خلقت کا ہجوم ہوا۔ ہر ملک میں آپ کے خلفاء پہنچ گئے۔ رات دن بازار ہدایت گرم ہوا ۔ فرمانروایان ایران توران بدخشان نے ان کے ہاتھوں پر بیعت کی۔ بادشاہ ہند کے لشکر میں بھی شیخ بدیع الد بن آپ کے نامور خلیفه مشغول خلقہ توجہ تھے۔ ہزار ہا آدمی ان کے حلقہ ارادت میں داخل ہو گئے ۔ اکثر ارکان دولت نے بیعت کی شرک و بدعت سے نفرت بڑھی۔ شدہ شدہ یہ خبر آصف خاں وزیر اعظم کو جو شیعی المذہب تھا، پہنچی اور وہ پہلے سے حضرت کے حالات سنے ہوئے تھا کہ آپ کو مذاہب باطلہ کی تردید سے خاص دلچسپی ہے ایک رسالہ رد روافض بھی تحریر فرمایا ہے۔ اس کو شیخ بدیع الدین کا لشکر میں قیام اور کسب کے طریقہ کی اشاعت بہت ناگوار ہوئی اور شب و روز موقع کی جستجو میں تھا کہ ایک روز بادشاہ کو تنہا پا کر عرض کیا کہ حضور سر ہند کے ایک مشائخ زادہ نے جو علوم غربیہ میں ماہر ہے اور اس نے مختلف درویشوں سے خلافت پائی ہے۔ دعوئی مجددیت کا کیا ہے۔ صد ہا آدمی اس نے خلیفہ کر کے ملک در ملک بھیج دیئے ہیں۔ ہزار ہا بلکہلاکھوں لاکھ آدمی اس کے خلفاء کے مرید ہو گئے ہیں۔ کئی بادشاہ ممالک غیر حلقہ ارادت میں داخل ہو گئے ۔ ہمارے لشکر میں بھی اس کا ایک خلیفہ مقیم ہے۔ اکثر امراء سلطانی خانخاناں سید صدر جہاں، خانجہاں خان اعظم مہابت خان تربیت خان اسلام خان سکندر خان دریا خان، مرتضی خاں وغیرہ اس کے مرید حلقہ بگوش ہو گئے ۔ اب معلوم ہوا ہے کہ اس نے ایک لاکھ سوار مسلح اور بے شمار پیادہ تیار کئے ہیں۔ خوف ہے کہ غقلت میں کوئی شکل ظہور پذیر نہ ہو جائے جس قدر اس کے معتقدین ہیں۔ اول ان کا دور دراز فاصلہ پر تبادلہ کر دیا جائے تو ہر ایک کا انتظام آئندہ ہو سکے گا۔ بادشاہ کو وزیر کی رائے پسند آئی اور دوسرے روز ہی علی الصباح در بار خاص منعقد کر کے خانخاناں کو ملک دکن کی صوبہ داری پر اور سید صدر جہاں کو ملک بنگال کی صو بہ داری پر اور خانخاناں کو ملک مالوہ کی صوبہ داری پر مہابت خاں کو کابل کی صوبہ داری پر اور اسی طرح سے چار سو حکام کو جو آپ کے معتقد خاص تھے دور دراز ملکوں کا حاکم بنا کر بھیج دیا جب ان کے مقامات مبتدلہ پر پہنچنے کی اطلاع وصول ہوگئی تو بادشاہ نے ایک فرمان حضرت کے نام جس میں آپ کی ملاقات کا اشتیاق ظاہر کر کے آپ کو معہ جملہ مریدین و معتقدین دعوت دی گئی تھی ۔ ذریعہ ما کم سر ہند روانہ کیا اور حاکم موصوف کو تاکید کی کہ خود حاضر ہو کر پیشکش کرے ۔

وہاں وہ انتظام ہورہا تھا اور یہاں روزانہ حضرت اقدس تمام واقعات بادشاہی اپنے خدام کے رو برو بیان فرماتے رہتے تھے ۔ حتی کہ ایک روز ارشاد فرمایا که وَمَا مِنْ نَّبِي إِلا أُوذِى یعنی کوئی نبی ایسا نہیں ہے جس کو راہ خدا میں تکلیف نہ ہوئی ہو ۔ وَمَا مِنْ وَليَّ إِلَّا وَابْتُلِی یعنی کوئی ولی ایسا نہیں ہے جس کو بلاؤں میں نہ رکھا گیا ہو۔ وَالْبَلاءُ بِقَدْرِ الْوِلَا یعنی بلا بقدر محبت آتی ہے پھر فرمایا کہ ہمارے حالات اور اعمال کو اولیاء اللہ کے حالات اور اعمال سے کچھ بھی نسبت نہیں ہے۔ مگر کسی نبی کو خواہ وہ یوسف علیہ السلام ہوں یا ایوب علیہ السلام یا کوئی اور ہوں۔ بغیر جلال کی سیر کے سلوک پورا نہیں ہو سکتا اور اب مرضی الہی ایسی ہی معلوم ہوتی ہے کہ ہم کو ایسی سیر کرائی جائے کہ حاکم سر ہند حکم شاہی لیکر حاضر ہوا۔ آپ نے صاحبزادگان حضرت خواجہ محمد سعید اور حضرت خواجہ محمد معصوم کو کوہستان کی طرف رخصت کیا اور اہل عیال کو دلا سا دے کر مع حاضر الوقت مریدین لشکر سلطانی کی طرف راہی ہوئے۔

جب لشکر میں پہنچے اعزاز واحترام کے ساتھ آپ کا استقبال کیا گیا اور آپ ان خیموں میں جو پہلے سے آپ کے لئے استادہ تھے، مقیم ہوئے ۔ جب آپکو بادشاہ کے دربار میں جانے کا اتفاق ہوا تو آئین دربار کے بموجب نہ آپ نے سلام کیا اور نہ سجدہ ۔ تو بادشاہ کے ندیموں نے آپ کو اشارہ سے سمجھایا۔ آپ نے بآواز فرمایا کہ اس وقت تک یہ پیشانی غیر اللہ کے لئے نہیں جھکی اور نہ آئندہ امید ہے۔

(رباعی)

شاه است حسین بادشاه است حسین

دین است دین پناه است حسین


سرداد نداد دست در دست یزید

حقا کہ بنائے لا الہ است حسین

بادشاہ پر اس گفتگو کا بڑا اثر ہوا اور خوفزدہ ہو کر وزیر سے مشورہ کیا کہ واقعی بڑا بے باک شخص ہے اس کو دربار سے اس طرح جانے نہ دیا جائے ورنہ خوف فساد وفتنہ ہے۔ وزیر نے رائے دی کہ ان کو اگر بالفعل قلعہ گوالیار میں نظر بند رکھا جائے تو مناسب ہے آپ کو مع ہمراہین قلعہ میں بھیج دیا گیا۔ ہر چند کہ آپ کے مریدین ہزار ہا آدمی ایک ہفتہ میں آمادہ مقابلہ ہو گئے تھے اور مہابت خاں مع افواج ماتحت کابل سے روانہ ہو کر کئی منزل تک آ گیا تھا مگر یہ نامہ نامی اور صحیفہ گرامی پہنچتے ہی باز رہا۔

ایک روز آپ نے بیٹھے بیٹھے فرمایا کہ اب ہمارے کبر جلال الہی پوری ہوگئی اور بہت جلد یہاں سے روانگی ہوگی ۔ قلعہ کے تمام عمال آپ کے گرویدہ اور معتقد حلقہ بگوش ہو گئے تھے ۔

سب کو یہ حال معلوم کر کے آپ کی مفارقت کا اثر ہوا۔ یہاں یہ کیفیت تھی اور وہاں بادشاہ کو ایک روز کسی نے عالم بیدار میں سے تخت سے زمین پر پھینک دیا وہ ہیبت زدہ ہو کر بیمار ہو گیا تھا۔ ہر چند معالجے ہوتے تھے کوئی فائدہ نہ تھا ایک روز خواب میں دیکھا کہ کوئی بزرگ فرماتے ہیں کہ تو نے مجدد امام وقت کی بے عزتی کی ہے تو جس عذاب الہی میں گرفتار ہے بغیر اس کی دعا کے رفع نہ ہوگا۔ اگر تم کو اپنی اور بادشاہت کی خیر مد نظر ہے تو اس کی طرف رجوع کر بادشاہ نے خواب سے بیدار ہوتے ہی آپ کی رہائی کا حکم جاری کیا اور آپکی وجہ سے کل ہندوستان کے قیدیوں کو رہا کی اور ایک عرضداشت اپنے ندیموں کے ہاتھ سے حضرت کی خدمت میں متضمن استدعا کی۔ بہ معافی خطا روانہ کر کے قدیم میمنت لزوم سے مشرف ہونے کی استدعا کی۔
(نظم)
جب ہوا دبدبہ شان مجدد کا ظہور

تہلکہ مچ گیا ایوان جہانگیری میں

ہو کے شرمندہ شہ ہند خطا سے اپنی

مدتوں غرق رہا ورطہء دلگیری میں

آپ نے اس کے جواب میں کچھ شرائط پیش کئے ۔ بادشاہ نے سب منظور کر لئے ۔ آ وہاں سے واپسی میں تین روز سرہند شریف ٹھہرے۔ ہزاروں مخلوق آرزوئے قدم بوسی میں چلی آ رہی تھی ۔ سب آپ کے جمال با کمال سے مشرف ہوئے۔ پھر آپ عازم لشکر بادشاہی ہوئے۔

بادشاہ قریش تھا۔ ولی عہد شاہجہاں اور وزیر اعظم آپ کے استقبال کے لئے حاضر ہوئے ۔ آپ محل شاہی میں تشریف لے گئے ۔ آپ نے دعا شروع فرمائی اور بادشاہ کو حکم دیا کہ اپنی خطا کو یاد کر کے روتا رہے۔ بہت جلد بادشاہ کو صحت ہو گئی۔ آپ کے قدموں پر گر گیا۔ سلسلہ طریقت میں
داخل ہوا اور احکام شرعی جاری کئے ۔
(1) سجدہ دربار بالکل موقوف کر دیا گیا۔
(۲) گاؤ کشی میں آزادی دی گئی گوشت بر سر بازار بکنا شروع ہوا۔
(۳) بادشاہ اور ارکان دولت نے ایک ایک گائے دربار عام کے دروازہ پر اپنے اپنے ہاتھ ۔
ذبح کی اور کباب تیار ہوئے سب نے کھائے۔
(۴) جہاں جہاں ملک میں مسجدیں شہید کی گئی تھیں دوبارہ تعمیر کی گئیں ۔
(۵) دربار عام کے قریب ایک خوشنما مسجد تعمیر ہوئی۔ پنج وقتہ بادشاہ معہ امراء اس میں آپ کے
پیچھے باجماعت نماز پڑھتے تھے۔
(۶) شهر به شهر محتسب شرعی مفتی و قاضی مقرر ہوئے ۔
(۷) کفار پر جزئیہ مقرر ہوا۔
(۸) جس قدر قانون خلاف شرع جاری تھے سب یک قلم منسوخ کئے گئے ۔
(۹) جملہ بدعات اور رسوم جاہلیت مسدود کئے گئے۔

اسلام کو نئے سرے سے رونق اور دین میں تازگی آئی ۔ مسلمانوں کے دل باغ باغ اور کفار
کے سینے داغ داغ ہوئے۔
(نظم)
برطرف ہے سنت نبوی میں دھوم

میں مروج چار سو دینی علوم

از فروغ علم تفسیر و حدیث

ہو گیا محبوس شیطان خبیث

ہے بہار سنت نبوی کو جوش

ہے جہاں میں نغمہ دیں کا خروش

جھومتی ہیں ڈالیاں کس شوق میں

اس کے بعد وزیر نے اور اور طرح سے بددینی کے فتنے رواج دینے کے لئے بہت کی تدابیریں کیں۔ کبھی علامہ سید نور اللہ شنری مجتہد شیعی کو ایران سے بلا بھیجا کہ بادشاہ کو گمراہ کرے

جب وہ اس میں بھی ناکام رہے اور قتل کر دئیے گئے اس کے بعد عام طور پر دین اسلام کا رواج ہوا۔ اسی طرح سے عالمگیر بادشاہ کے عہد تک جو آپ کے صاحبزادہ حضرت خواجہ محمد معصوم علیہ الرحمۃ کا مرید تھا۔ برابر دین اسلام کو رونق اور تازگی رہی۔ انشاء اللہ قیامت تک آپ کے خلفاء اور مریدین سے احیاء دین و ترویج شرع متین ہوتی رہے گی۔


یا الہی تا قیامت یہ چمن پھولتا پھلتا رہے بہر حسن

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا