142

امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کی کرامات


امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کی کرامات

اگر کسی پیغمبر یا نبی سے کوئی بات خلاف عادت ظہور میں آئے تو اس کو معجزہ کہتے ہیں۔ اولیاء امت سے ظاہر ہو تو وہ کرامت ہے ورنہ استدراج۔ انبیاء علیہم السلام کو معجزات اس لئے عطا کئے گئے کہ کفار پر ہیبت ہو اور وہ ایماں لاویں اور اولیاء کو اس لئے کرامت سرفراز ہوئی کہ فاسق فاجر تو بہ کریں اور راہ راست پر آویں۔ مگر کرامت کے ظہور اور عدم ظہور سے مدارج بزرگی میں کم و بیشی لازم نہیں آتی ۔ ظاہر ہے کہ اصحاب کبار کے مرتبہ کو بڑے سے بڑا کوئی ولی نہیں پہنچ سکتا اور ان سے بمقابلہ اولیاء اللہ کے خوارق بہت کم ظاہر ہوئے۔ آپ سے بیشمار کرامات ظاہر ہوئیں ۔ بعض نے سات سو اور بعض نے اس سے زیادہ فراہم کی ہیں لیکن میں صرف بیالیس کے بیان پر اکتفا کرتا ہوں۔ زبدۃ المقامات میں مذکور ہے کہ آپ کے ایک خادم نے بیان فرمایا کہ آنجناب نے اس حقیر پر ایک مرتبہ ایسی توجہ فرمائی کہ میں اس کے اثرات کو اگر چوب خشک پر ڈالوں تو یقین ہے کہ زمانہ آخیر ہے۔ شر و فساد کا معدن اور خیر و برکات سے خالی ۔ مرضی الہی انوار و اسرار کی عام اشاعت کی اجازت نہیں دیتی ۔ میں اس کے اظہار سے معذور ہوں۔ واضح ہو کہ اسی توجہ کی برکات اس وقت تک سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے بزرگوں میں باقی ہیں جس کے وہ احیاء قلوب مردہ فرماتے ہیں۔

(۴) آپ کے صاحبزادے حضرت خواجہ محمد معصوم قدس سرہ العزیز موسوی المشرب تھے ۔ آپ نے تصرف فرما کے ان کو محمدی المشرب کرا دیا۔


(۵) آپ نے ایک مرید کو بشارت دی کہ تجھ کو ولایت ابراہیمی عطا ہوئی ہے۔ اس کو پورا یقین نہ ہوا۔ آپ نے شب کو خواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اس کی تصدیق کرا دی۔ جب وہ صبح کو آیا آپ نے اس کی شب گزشت بیان فرمائی ۔ وہ آپ کے قدموں میں گر پڑا۔


(۶) آپ کو شیخ طاہر لاہوری کی پیشانی پر لگا ہوا کا فرلکھا ہوا ظاہر ہوا۔ کئی روز بعد یہ خبر آئی کہ وہ کافر ہو گیا اور اس نے زنار پہن لیا ۔ آپ نے لوح محفوظ کی طرف نگاہ کی تو وہاں بھی یہی لکھا ہوا پایا۔ آپ نے دعا کی۔ اس کی برکت سے وہ سعید ہو گیا۔ تو بہ کی اور آپ کے مرید ہوئے اور خلافت پائی۔

(۷) آپ کے قادریہ طریقہ کے ایک مرید کو حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی زیارت کا اشتیاق پیدا ہوا۔ آپ نے ان کو قطب تارہ کی طرف دیکھنے کیلئے ارشاد فرمایا۔ اس میں سے حضرت غوث ظاہر ہوئے۔ اس نے اچھی طرح سے آپ کی زیارت کر لی اور آپ پھر وہیں مخفی ہو گئے۔


(۸) آپ کے مرید مولانا یوسف کو جانکندنی کا وقت پیش آیا۔ ان کا سلوک کچھ باقی تھا۔ آپ ان کے پاس تشریف لائے اور فورا طے کرا دیا۔

(۹) ایک شخص نے آپ کی خدمت میں اس مضمون کا خط تحریر کیا کہ دربار پیغمبری میں اصحاب کبار ایک نظر میں کامل ہو جاتے تھے۔ اب محنت سے بھی کچھ نہیں ہوتا ۔ آپ نے اس کے جواب میں یہ تحریر فرمایا کہ اس کا جواب صحبت پر موقوف ہے جب وہ شخص حاضر ہوا۔ آپ کی پہلی ہی ملاقات میں نعمت باطنی سے مالا مال ہو گیا۔

(۱۰) چونکہ آپ کے فیض سے بہت سے اہل قبور بھی مستفید ہوکر ولی ہو گئے ۔ ایک شخص نے دم اخیر یہ وصیت کی کہ میرا جنازہ آپ کی خدمت میں لے جا کر پیش کرنا جب جنازہ لایا گیا۔ آپ نے توجہ دی۔ مردہ کا دل جاری ہو گیا۔ اسی شب اس کے اقرباء نے اس کی کیفیت کوخواب میں دیکھا۔

(11) مولانا محمد ہاشم کشمی نے غائبانہ آپ کی شہرت سن کر ایک خط ملک دکن سے آپ کی خدمت میں لکھا۔ آپ نے اس کو ملاحظہ فرما کے ارشاد فرمایا کہ اس سے نور ولایت ظاہر ہوتا ہے۔ چند روز میں مولانا حاضر خدمت ہو کر مرید ہوئے اور خلافت پائی۔

(۱۲) جهانگیر بادشاہ اور شاہجہان شہزادہ کی باہم نزاع واقع ہوئی اور نوبت مقابلہ کی پہنچی ۔ فقراء وقت نے بالا تفاق شہزادہ کو مبارکباد فتحیابی کی دی مگر آپ نے فرمایا۔ معاملہ برعکس نظر آتا ہے۔ بالآخر وہی نتیجہ ہوا جو آپ نے فرمایا تھا۔


(۱۳) عبد الرحیم خان خاناں صوبیدار دکن پر شاہی عتاب ہوا۔ اس نے آپ سے استمد اد چاہی۔ آپ نے اس کو دلجمعی کا خط لکھا۔ تین چار روز میں بادشاہ نے بجائے عتاب کے خلعت و خطاب سے اس کو سرفراز کر دیا ۔

(۱۴) بادشاہ کا ایک امیر پر سخت عتاب ہوا اور وہ لاہو سے دہلی اس لئے طلب کیا گیا کہ ہاتھی کے پاؤں سے بندھوا کر مروا ڈالا جائے ۔ اثنائے راہ میں جب وہ سرہند شریف پہنچا۔ آپ سے خواہان امداد ہوا۔ آپ نے دعا فرمائی جب وہ در بارشاہی میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے بجائے عتاب کے خلعت سے سرفراز فرمایا۔

(۱۵) آپ آخر عمر اجمیر شریف میں مقیم اور حضرت خواجہ غریب نواز قدس سرہ کے معر ر د عنایات تھے۔ رمضان شریف میں نمازیوں کو بسبب تنگی مسجد و موسم بارش نماز تراویح میں سخت تکلیف ہونے لگی۔ آپ نے دعا فرمائی۔ پس جب تک کلام اللہ ختم نہ ہو گیا۔ بارش نہ ہوئی ۔

(۱۲) اسی مسجد کی ایک دیوار نہایت خمیدہ تھی۔ لوگ اندیشہ ناک ہوئے۔ آپ نے فرمایا مطمئن رہو۔ ابھی نہیں گرے گی جب آپ اجمیر شریف سے واپس ہوئے شہر سے باہر ہوتے ہی گر گئی۔

(۱۷) مولا نا محمد امین سالہا سال سے بیمار تھے نہ کوئی دعا ان پر اثر کرتی تھی نہ دوا ۔ انہوں نے آپ کا نام نامی سن کر آپ کی خدمت میں ایک عرضداشت لکھی۔ اس کے جواب میں آپ نے ایک خط تسلی آمیز لکھ کر اور اپنا پیرہن مبارک ان کے ارسال فرمایا۔ اس نے آپ کا پیرا ہن مبارک پہنا فورا ہی تندرست ہو گیا

(۱۸) شب برات کو آپ پر ظاہر کر دیا گیا کہ اسی سال آپ کا وصال ہوگا۔ چنانچہ ویسا ہی ہوا۔

(۱۹) آپ نے اپنے وصال سے پہلے اپنی حیات کے ایام باقیہ ظاہر فرمائے تھے جس کے بعد وفات کی تصدیق ہوگئی۔


(۲۰) آپ نے اپنے وصال سے ایک روز قبل کل حال وفات کے متعلق حتی کہ وقت تک معین کر دیا تھا۔ ویسا ہی ہوا۔


(۱۳) آپ کا ایک حقیدت مند کسی شہر میں کافروں کے مقابلہ میں مغلوب ہوا اور آپ کو یاد کیاہ یاد کرتے ہی آپ فورا پہلی گئے آپ نے مدد کی وہ فورا غالب ہو گیا۔


(۲۲) ہزاروں کا فرآپ کے دست مبارک پر مشرف باسلام ہوئے۔


(۲۳) حضرت شیخ آدم بنوری قدس سرہ العزیز کو صرف تین روز میں کامل سلوک طے کرا کے خلافت عطا فرمائی۔


(۲۴) ایک بنگالی درویش نے آپ سے طریقہ حاصل کیا جب اس پر جذبہ قویہ وارد ہوا سر سر برہنہ جنگل کو چلا گیا۔


(۲۵) ایک سوداگر پر آپ نے توجہ فرمائی۔ پہلی ہی مرتبہ میں واعد ہوش اور مجذوب ہو کر گھربار سے دست بردار ہو گیا۔ دوسری مرتبہ جب آپ نے تیجید دی تو ہوش میں آ کر سالک ہو گیا۔

(۲۱) ایک جدائی آپ کی خدمت میں دعا صحت کیلئے حاضر ہوا۔ آپ نے ایک ہی مرتبہ اس کی طرف توجہ فرمائی یہ فی الفور اچھا ہو گیا۔


(۳۷) ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ کے حلقہ میں جو حافظ صاحب قرآن شریف پڑھتے تھے علیل ہو گئے۔ آپ نے فرمایا کہ “ہم نے ان پر ذمہ لے لیا۔ وہ فورا اچھے ہو گئے ۔”

(۸) ایک مرتبہ آپ نے موسم گرمامیں سفر فرمایا۔ راہ میں ہوا نہایت گرم چلی ۔ خادموں نے دعا بارش کے لئے عرض کیا۔ آپ نے دعا کی۔ فوراََ ابر محیط ہو گیا اور پر سنے لگا۔


(۲۹) آپ کے ایک مرید کو جنگل میں شیر نے گھیر لیا۔ اس نے آپ کو یاد کیا۔ فورا آپ عصا ہاتھ میں لئے ہوئے نمودار ہوئے شیر کو مار کر بھگا دیا اور غائب ہو گئے۔ ہمراہیوں نے دیکھ کر اس سے دریافت کیا کہ یہ کون بزرگ تھے۔ اس نے کہا میرے پیر حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رضی اللہ عنہ تھے۔

(۳۰) آپ کے ایک مرید پر کوئی شخص معترض ہوا ۔ غیب سے اس کے اعضاء کٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ لوگوں نے آپ کی خدمت میں اس کی طرف سے معذرت کی۔ آپ کے پاس تشریف لے گئے آپ کی توجہ سے وہ اچھا ہو گیا۔

(۳۱) آپ کسی امیر کے مکان پر تشریف لے گئے تھے۔ آپ کے ایک معتقد کو وہاں جانے کے باعث بد گمانی ہوئی۔ ہاتف غیبی نے نہایت سختی کے ساتھ اس کو متنبہ کیا۔ اولیاء اللہ پر اعتراض کا نتیجہ برا ہوتا ہے۔ استغفار کر۔

(۳۲) ایک طالب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بسب منازعت حضرت امیر المومنین علی کرم اللہ وجہ کدورت رکھتا تھا۔ اس نے آپ کے مکتوبات شریف میں لکھا۔ دیکھا کہ امام مالک کے نزدیک اصحاب کبار کے منکر کی ایک ہی سزا ہے۔ خواہ وہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انکار کرے یا امیر معاویہ کا اس پر وہ طالب علم معترض ہوا۔ اس نے رات کو خواب میں دیکھا کہ آپ نے اس کو حضرت امیر المومنین کی خدمت میں پیش کیا۔ انہوں نے فرمایا۔ خبر داران مکتوبات پر اعتراض نہ کرنا اور جنگ باہمی کے اسرار دوسرے کو معلوم نہیں ہو سکتے ۔

(۳۳) ایک روز آپ کا مرتضی خان کی قبر پر گزر ہوا تو ان کو محاسبہ میں گرفتار پایا۔ بارگاہ احدیت میں دعا کی۔ اللہ پاک نے آپ کی دعا سے اس کی مغفرت فرمائی۔ اسی روز اس کے ایک دوست نے اس کو خواب میں دیکھا تو مرتضی خاں نے آپ کی شفاعت سے اپنی مغفرت کی کیفیت بیان کی۔

(۳۴) آپ کے مریدوں یا معقدوں میں سے اگر کوئی شخص کبھی بیمار ہوتا تو وہ آپ کی توجہ فرماتے ہی اچھا ہو جاتا۔

اتفاقاً ایک شخص کو اپنے گھر میں دردقولنج ہوا۔ آپ نے بوقت سحر اس کے حال پر توجہ فرمائی۔ اسی وقت سے اس کو آرام ہونا شروع ہوا اور صبح تک بالکل اچھا ہو گیا۔

(۳۵) آپ کی خدمت میں ایک شخص نے کچھ تحفہ پیش کیا اور کسی مریض کی دعاء صحت کے لئے استدعا کی۔ آپ نے اس کو قبول نہیں فرمایا اور تھوڑی دیر تک مراقبہ کر کے فرمایا ہم اس کی مغفرت کیلئے دعا کرتے ہیں بعدہ معلوم ہوا کہ اس وقت اس کا انتقال ہو چکا تھا۔

(۳۶) ایک بزرگ خواجہ جمال الدین آپ کی خدمت میں استفادہ کی غرض سے حاضر ہوئے آپ نے فرمایا تیرا دل عورت میں منہمک ہے جب تک تو اس سے پاک نہ ہو جائے ۔ کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس نے اس کی تصدیق کر کے توبہ کی۔ فورا برکات ظاہر ہونے لگیں۔

(۳۷) آپ کے بھائی شیخ محمود قافلہ کے ساتھ قندھار گئے ہوئے تھے ۔ ایک روز بیٹھے بیٹھے آپ نے فرمایا آج میں نے شیخ محمود کو ہر چند تلاش کیا مگر اس کا کچھ پتہ نہ چلا بلکہ اس کی قبر قندھار میں دیکھ رہی ہے۔ جب سفر سے قافلہ واپس آیا۔ اس ارشاد کی حرف بحرف تصدیق ہوئی۔

(۳۸) آپ کی خدمت میں ایک درویش نے عرض کیا کہ امسال میرا حج بیت اللہ کا عزم مصمم ہے۔ آپ نے غور فرما کے کہا تو عرفات میں نظر نہیں آتا۔ اس کے بعد اس نے ہر چند کوشش کی مگر وہ نہ جاسکا۔ اس کے بعد کئی سال تک وہ ارادہ کرتا رہا مگر نا کام رہا۔

(۳۹) حضرت خواجہ حسام الدین رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو خط لکھا کہ میرا حج کو جانے کا عزم ہے۔ آپ نے جواب میں تحریر فرمایا ہم کو آپ کا جانا معلوم نہیں ہوتا۔ انہوں نے کل انتظام کر لیا مگر جانا نہ ہوسکا۔

( ۴۰ ) ایک درویش نے آپ سے خدا کی راہ دریافت کی ۔ آپ نے ایک روٹی کا ٹکڑا اس کو کھلا دیا ۔ فورا فیض باطنی کا دروازہ اس پر کھل گیا۔

(۴۱) ایک شخص نے آپ کی خدمت میں لڑکا تولد ہونے کے لئے استدعا کی۔ آپ نے غور کر کے فرمایا تیری عورت بانجھ ہے اگر تو دوسری شادی کرے گا تو لڑکا پیدا ہوگا جب اس نے دوسری شادی کی لڑکا تولد ہوا۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا

(۴۲) جب آپ کا وصال ہوا تو آپ کے صاحبزادے حضرت شیخ محمد صادق کے مقبرہ میں دوسری قبر کی گنجائش نہ تھی۔ آپ کے واسطے صاحبزادہ کی قبر بسمت مشرق سوا گز ہٹ گئی اور آپ و ہیں مدفون ہوئے ۔