119

امام ربانی اور خواجہ باقی بااللہ کا تعلق خاص


آپ کا سفر دہلی اور حضرت خواجہ باقی باللہ علیہ الرحمہ سے نیاز مندی

ہمیشہ سے آپ کو حج بیت اللہ اور زیارت روضہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا شوق تھا۔ اس لئے آپ ہمیشہ بے چین و بے آرام رہتے تھے کیونکہ آپ کے والد ماجد سن رسیدہ ہو گئے تھے ۔ بوجہ ان کی خدمت کے آپ ان کی مفارقت گوارا نہ کر سکے تھے جب آپ دہلی پہنچے ۔ مولانا حسن کشمیری سے جو آپ کے دوستوں اور حضرت خواجہ باقی باللہ کے مخلصوں میں سے تھے۔ ملاقات ہوئی انہوں نے آپ سے خواجہ صاحب کے کمالات کا اظہار کر کے ملاقات کرنے کے لئے تحریک کی اور بیان کیا کہ حضرت خواجہ صاحب اس سلسلہ نقشبندیہ میں فرد و یگانہ ہیں اور ہر چہار طرف دور دراز تک آپ کی نظیر نہیں ۔ آپ کی ایک نظر میں وہ فیض طالبوں کو حاصل ہوتا جو اور طریقوں میں بہت سے چلوں اور شاقہ ریاضت سے بھی کسی کو حاصل نہیں ہوتا ۔ چونکہ آپ نے اپنے والد ماجد سے سلسلہ علیہ نقشبندیہ وا کا بر سلسلہ کے حالات سے اور کتابوں میں دیکھے تھے اور اس نسبت کی قابلیت و استعداد آپ بوجہ اتم رکھتے تھے۔ آپ مولانا کے ہمراہ حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ حضرت خواجہ صاحب کی یہ عادت نہ تھی کہ کسی سے کوئی اپنی خواہش ظاہر فرماتے ۔ البتہ آپ سے حضرت خواجہ صاحب نے خلاف عادت خانقاہ شریف میں چند روز قیام کرنے کے لئے ارشاد فر مایا۔ آپ نے ایک ہفتہ قیام کا وعدہ کیا لیکن رفتہ رفتہ ایک ماہ دو ہفتہ کی نوبت پہنچ گئی ۔

طریقہ نقشبندیہ میں آپ کی بیعت اور قلب کا جاری ہونا

ابھی دو روز بھی نہ گزرے تھے کہ آثار تصرف و کشش حضرت خواجہ صاحب علیہ الرحمہ کی نمودار ہوئی اور آپ پر شوق انابت و اخذ طریقہ خواجگان علیہ الرحمہ نے غلبہ کیا یہاں تک کہ آپ نے حضرت خواجہ علیہ الرحمہ سے بیعت کے لئے درخواست کی۔ میجر دعرض کرنے کے بلا استخارہ ( خلاف عادت) حضرت خواجہ علیہ الرحمہ نے آپ کو خلوت میں طلب فرما کر مرید کیا۔ ذکر قلبی تعلیم فرمایا ۔ فوراً آپ کا دل ذاکر ہو گیا اور آلام و حلاوت ذکر قلبی والتند از تمام حاصل ہوا۔ یوما فیوما ترقیات عالیہ عروجات متعالیہ ظاہر ہوتے رہے۔

حضرت خواجہ کا خاص واقعات آپ سے ظاہر فرمانا

بعد چند روز کے جب حضرت خواجہ علیہ الرحمۃ نے آپ کے اندر آثار رشد وارشاد و استعداد کامل معائنہ کئے ۔ خلوت میں آپ سے وہ حالات اور واقعات بیان فرمائے جو آپ پر کئی سال پیشتر گزرے تھے۔

(۱) مرشدی حضرت خواجہ محمد آدم ملنگی قدس سرہ العزیز نے جب احقرت ارشاد فر مایا کہ ہندوستان جاؤ وہاں تم سے اس سلسلہ شریفہ کا رواج ہوگا۔ میں نے چونکہ اپنے آپ کو اس کے لائق نہ پایا۔ تواضع کرنے لگا۔ آپ نے مجھے استخارہ کرنے کے لئے ارشاد فرمایا جب ارشاد استخارہ کیا تو ایک طوطی کو ایک شاخ پر بیٹھے ہوئے دیکھا میں نے اپنے دل میں یہ خیال کیا کہ اگر یہ طوطی میرے ہاتھ پر آ تو مجھے اس ں کشائش حاصل ہوگی ۔ بمجر داس خیال کے وہ

طوطی میرے ہاتھ پر آ بیٹھی اور میں نے اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا ۔ اس نے میرے منہ میں شکر ڈالی۔ صبح کو میں نے یہ واقعہ حضرت کی خدمت میں بیان کیا ۔ آپ نے ارشاد فرمایا۔ طوطی ہندوستان کا پرندہ ہے۔ پس تمہارے دامن تربیت سے ایک ایسا شخص نکلے گا کہ عالم اس کے نور سے منور ہوگا اور اس سے تمہیں فائدہ پہنچے گا۔ میں اس واقعہ کو آپ کے حال پر منطبق پاتا ہوں ۔
(۲) جب ہم تمہارے شہر سرہند پہنچے تھے تو خواب میں دیکھا تھا کہ میں ایک قطب کے جوار میں اترا ہوں مجھے اس کا حلیہ بھی بتایا گیا۔ میں صبح کو شہر کے گوشہ نشینوں اور درویشوں کی تلاش میں نکلا اور جن جن درویشوں کو دیکھا نہ وہ آثار پائے اور نہ کسی میں علامات قطبیت ظاہر ہوئیں۔ میں نے کہا شاید اس شہر کا کوئی اور شخص اس امر کی قابلیت رکھتا ہو جو آئندہ ظاہر ہو جب سے میں نے تم
کو دیکھا حلیہ اس کے موافق پایا اور اس کی قابلیت بھی میں نے تمہارے اندر معائنہ کی۔

(۳) میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا چراغ میں نے روشن کیا اور اس کی روشنی ساعت بساعت بڑھتی گئی اور لوگوں نے اس سے بہت سے چراغ روشن کئے جب میں سرہند کے قرب وجوار میں پہنچا تو دشت و بیابان میں بہت سی مشعلیں روشن دیکھیں ۔ اس واقعہ کو بھی میں تمہارے واقعہ حالات سے متعلق سمجھتا ہوں۔ بالجملہ ان دو تین ماہ کے اندر جو کچھ آپ کو بمین تربیت خواجہ خواجگان خواجہ بیرنگ حضرت خواجہ باقی باللہ علیہ الرحمۃ سے حاصل ہوا۔ اس کی تحریر وتقریر زیادہ ہے اور قلم قاصر ہے۔

آپ کے بعض حالات خود آپ کے قلم سے

آپ نے ایک طالب کی تحریض و ترغیب کے لئے جو اپنا حال بیان کیا ہے (وہ تبر کا لکھا جاتا ہے ( وَالْقَيْلُ بَدْلَ عَلَى الْكَثِيرِ ـ جب اس درویش کو اس راہ کی ہوس پیدا ہوئی تو عنایت الہی اس کی معین و مددگار ہوئی کہ یہ فقیر ولایت پناہ حقیقت آگاه بادی طریق اندراج النِهَايَتُ فِي الْبَدَايَةِ وَإِلَى السَّبِيلِ الْمُوْصِلِ إِلى دَرَجَاتِ الْوِلاية – موئید الدین المرضى شيخنا واما من محمد الباقی قدس سرہ السامی کی خدمت میں پہنچا جو خلفائے کفار سلسلہ علیہ نقشبندیہ سے ہیں ۔

آپ کے متعلق حضرت خواجہ باقی باللہ علیہ الرحمۃ کے خیالات

چند ہی روز آپ کو حضرت خواجہ علیہ الرحمہ کی خدمت بابرکت میں گزرنے پائے تھے کہ آپ کی نسبت انہوں نے اپنے ایک دوست کے خط میں یہ الفاظ تحریر فرمائے ۔

شیخ احمد مردی است از سر ہند کثیر العلم وقوى العمل روزے چند فقیر بادنشست برخاست کردہ عجائب بسیار از روزگار اوقات او مشاہد نموده باں ماند که چراغ شود که عالمبا از وروشن کر دو الحمد للہ تعالیٰ احوال کا ملہ اور بمراقبہ یقین پیوستہ دائیں شیخ مشار الیه برادران و اقربا دارد همه مردم صالح واز طبقہ علماء چندے را دعا گوئے ملازمت کرده از جواہر عالیہ دانستہ استعداد ہائے عجیب دارند و فرزندان آن شیخ که اطفال اند اسرار الہبی اند با نجمله شجره طیبه اند انبَتَهُ اللهُ نَباتاً حَسَناً وفقراء باب الله دلہائے عجب دارند ” انتہی کلامہ الشریف
ترجمه
اہل سرہند سے ایک بزرگ شیخ احمد میں بڑے فاضل اور کثیر العمل عالم ہیں۔ فقیر نے چند روز ان کی صحبت میں نشست و برخاست کر کے بہت سے عجائب روزگار کا مشاہدہ کیا۔ وہ ایک چراغ ہیں جو ایک عالم کو منور کریں گے۔ الحمد للہ فقیر کے یقین میں کمالات جاگزین ہو گئے۔ ان کے چند بھائی برادر بھی ہیں جو سب کے سب نیک اور بزرگ ہیں۔ کئی عالم ہر وقت ان کی خدمت کیمیا خاصیت میں حاضر رہتے ہیں۔ انہوں نے آپ کی صحبت میں بڑی بڑی استعدادیں حاصل کی ہیں۔ شیخ کا صاحبزادہ جو ابھی بہت کمسن ہیں اسرار الہی اور شجرہ طیبہ خدائے تعالیٰ ان کا اچھی طرح سے نشو ونما کرے۔ فقراء کے دل خدا سے ملنے کے دروازے ہیں ۔ فقط ۔

حضرت خواجہ کی جناب میں آپ کی عقیدت

آپ فرماتے ہیں کہ جس روز میں حضرت خواجہ علیہ الرحمہ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوا اور تع طریقت شروع کی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ عنقریب حق سبحانہ وتعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مجھے اس راہ ! کی انتہاء تک پہنچائے گا۔ ہر چند کہ میں اپنے نقص حال اور قصور اعمال پر نظر کر کے بھجوائے

چه نسبت خاک را با عالم پاک


احتیاط کر کے ان خیالات کی نفی کرتا تھا لیکن کسی طرح میرے دل سے یہ خیال نہ جاتا تھا۔ بسا اوقات یہ بیت میری زبان پر جاری رہتی تھی

ازیں نوریکه از تو بردلم تافت
یقیں دانم کہ آخر خواہمت یافت
اس کے بعد حضرت استغراق میں گئے اور نہایت عجز و انکسار سے آبدیدہ ہو کر الحمد للہ فرمایا اور خاموش ہو گئے ۔
آپ کو خواجہ کی جناب میں جو اعلیٰ اعتقادی تھی۔ اس کی کیفیت خود آپ نے اپنی کتاب مبدء ومعاد میں اس طرح تحریر فرمائی ہے کہ ہمارے حضرت خواجہ کے ساتھ ہر مرید اپنی اپنی لیاقت کے بموجب علیحدہ علیحدہ عقیدت رکھتا تھا اور اسی کے بموجب ہر ایک فیض یاب ہوتا تھا۔ چنانچہ میرا عقیدہ یہ تھا کہ بعد زمانہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم ایسی صحبت اور تربیت و ارشاد سوائے حضرت خواجہ صاحب کے کسی کو نصیب نہیں ہوا ہوگا۔ پس ہزار ہزار شکر ہے کہ مجھ کو میرے اعتقاد کے بموجب فیضان حاصل ہوا ۔

حضرت خواجہ کی آپ پر عنایت

ایک روز کا آپ ذکر فرماتے ہیں کہ جب میں حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔اکثر اوقات از خود رفتگی جو علامت فنائیت ہے مجھ پر طاری ہوتی تھی اور حضرت علیہ الرحمہ نے میرے برادر طریقت شیخ تاج سنبھلی کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ جملہ مریدین سے ان کے کوائف و حالات دریافت کر کے آپ کی خدمت میں بیان کیا کریں۔ لیکن میرے لئے خاص طور پر یہ حکم تھا کہ بلاکسی کی وساطت کے میں اپنے حالات خود عرض کیا کروں بلکہ بعض وقت خود حضرت یاد کر کے دریافت فرماتے تھے ۔ مگر میں بپاس ادب اکثر خاموش رہتا تھا اور کچھ نہ کہتا تھا حتی کہ ایک روز آپ نے خود فرمایا کہ تم اپنے حالات کے بیان کرنے میں خاموش رہتے ہو ۔ بیان کرنے میں کیوں تامل کیا کرتے ہو اور میں یہ خیال کیا کرتا تھا کہ میں کیا ہوں اور میرے حالات ہی کیا ہیں جو گوش گزار کروں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ بلا کم و کاست جو کچھ واقعات پیش آیا کریں۔ بیان کیا کرو۔ اسی زمانہ میں اتفاقا مجھے یہ ایک واقعہ پیش آیا کہ شیخ تاج کی طرف میں متوجہ ہوا اور تصرف کیا وہ بے خود ہو کر زمین پر گر پڑے۔ آپ کے اصرار فرمانے پر یہ واقع میں نے ظاہر کیا۔ سنتے ہی آپ کا حال متغیر ہو گیا اور حاضرین جلسہ پر بہت دیر تک سکوت طاری رہا۔

آپ کو حضرت خواجہ علیہ الرحمۃ سے خلافت

حضرت خواجہ علیہ الرحمہ نے بارگاہ حق سبحانہ تعالیٰ میں آپ جیسے قابل طالب اور لائق مرید کے تربیت پانے اور درجہ کمال تک پہنچنے کا شکریہ ادا کیا اور آپ کے کمالات اور حالات کے محامد اور تعریف و توصیف کر کے نیک ساعت میں خلعت خلافت سے آپ کو سرفرازی بخشی اور آپ کے وطن مالوف سرہند شریف کی طرف مرخص فرمایا۔ آپ بموجب ارشاد پیر بزرگوار تربیت طالبین اور ہدایت سالکین میں مشغول ہوئے۔ تھوڑے ہی عرصہ میں صد ہا طالبوں کو معارف پناہ خدا آگاہ کر دیا۔

آپ کا دوسرا سفر دہلی اور حضرت خواجہ علیہ الرحمۃ کی مزید عنایت

پھر آپ کے سینہ فیض گنجینہ میں شوق دیدار جمال با کمال مرشد برحق موجزن ہوا اور بغرض حصول ملازمت آپ سرہند سے دہلی آئے۔ حضرت خواجہ علیہ الرحمہ نے آپ کی خیر مقدمہ کی خبر فرحت اثر سن کر مع خدام کابلی دروازہ تک استقبال کیلئے تشریف فرما ہوئے اور نہائت ہی اعزاز واحترام کے ساتھ اپنے نور نظر اعظم الخلفاء مروج الطریقہ کو اپنے ہمراہ خانقاہ شریف میں لا کر فروکش کیا۔ یہاں پہنچ کر آپ کے کمالات اور حالات کو اس قدر عروج واقع ہوا کہ آپ کے استعداد عالی کے خصائص سے جو اسرار و معارف ظہور پذیر ہوئے ۔ حضرت خواجہ علیہ الرحمہ خود اسی طرح سے اخذ فرماتے تھے کہ جیسے کوئی شاکر داستاد سے حدیث نقل کرتا ہے۔

حضرت خواجہ کے بعض خلفاء اور مریدین کے قلوب میں آپ کی جانب سے انکار پیدا ہوا
فورا حضرت خواجہ علیہ الرحمۃ نے بقوت باطنیہ اس کا ادراک فرمالیا۔


بندگان خاص علام الغيوب

در جہاں کی نہ برسیس القلوب

اور حضرت اس پر غضبناک ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ اگر تم اپنے ایمان کی بقاء اور سلامتی چاہتے ہو تو ان کی جناب میں با ادب اور با عقیدت رہو کہ وہ مثل آفتاب میں اور ان کے انوار میں ہم جیسے ہزاروں ستارے گم ہیں۔ یادرکھو کہ اس امت میں جو چار بزرگ افضل ترین اولیاء ہیں یہ بھی انہیں میں سے ہیں۔ بسا اوقات حضرت خواجہ علیہ الرحمۃ آپ کو برسر حلقہ بٹھاتے اور خود مع اپنے خلفاء ومریدین کے آپ کے حلقہ میں مستفید نہ شریک ہوتے اور بعد فراغت الٹے پاؤں واپس ہوتے کہ آپ کی طرف پشت نہ ہو اور اپنے جملہ خدام کو بھی یہی ہدایت فرماتے کہ وہ اسی طرح ہمیشہ آپ کا ادب کیا کریں اور آپ کے رتبہ کو لوظ کر کے اپنے باطن کو آپ کی طرف متوجہ رکھیں

ایک مرتبہ آپ نے حضرت خواجہ سے نہایت ادب کے ساتھ عرض کیا کہ اس غلامان غلام کو حضرت کے اس طرز عمل سے نہایت ندامت اور شرمندگی ہے۔ ارشاد ہوا کہ جو کچھ کر رہے ہیں بموجب امر الہی ہے۔ جس کی تعمیل پر ہم غیب سے مجبور ہیں ۔

ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت خواجہ علیہ الرحمہ کے ایک مرید خواجہ بیگی پر زیادہ عنایت مبذول ہوئی بوخور شفقت ان سے آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب امام ربانی صاحب سرہند سے تشریف لائیں تو تم مجھ کو یاد دلانا۔ میں تم پر ان سے توجہ کراؤں گا۔ ہفتہ عشرہ ہی میں تمہارا کام بن جائے گا۔ جب آپ دلی تشریف لے گئے تو حسب الارشاد حضرت خواجہ علیہ الرحمہ آپ نے توجہ فرمائی ۔ دو ایک ہی توجہ میں خواجہ بیگی فائض المرام اور کامل العرفان ہو گئے ۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ آپ حجرے میں آرام کر رہے تھے کہ حضرت خواجہ علیہ الرحمہ آپ کو ملنے کیلئے تشریف لائے ۔ خادم نے چاہا کہ آپ کو بیدار کردے۔ حضرت خواجہ علیہ الرحمہ نے منع فرمایا اور خود مجرہ کے دروازہ کے پاس آپ کی بیداری کے انتظار میں کھڑے ہو گئے ۔ باوجود یہ کہ آپ گہری نیند سو رہے تھے فورا اٹھ بیٹھے اور چار پائی نے نیچے اتر آئے۔

(مثنوی)
حالت میں خواب را ماند گئے خواب پندار دمر اور اگر ہے
گفت پیغمبر که عیسای تَسَامُ
لا يَنَامُ الْقَلْبُ عَنْ رَبِّ الْآنَامِ
اور مضطرب الحال ہو کر دریافت فرمانے لگے کہ با ہر کون صاحب ہیں۔ حضرت نے ارشاد فر مایا فقیر محمد باقی ہے۔ آپ فورا ہی حاضر خدمت مبارک ہو گئے ۔

آپ کی سرہند شریف کو واپسی

جس قد ر نعمت باطنی اور نسبتہائے عالیہ حضرت خواجہ علیہ الرحمۃ کو حاصل تھیں ۔ ایثار کر کے سب آپ کو عطا فرمائیں اور لوای ارشاد آپ کے سرمبارک پر رکھ کر تمام خلفاء کی ہدایت اور مریدین کی تربیت آپ کے حوالہ کی۔ بعدہ آپ کے وطن مالوف کی طرف آپ کو رخصت فرمایا۔ مدت تک آپ سالکین راه خد طالبین طریق صدق وصفا کی تعلیم و تربیت میں مشغول اور آپ یک صحبت کیمیا خاصیت کے فیوض و برکات سے مستفید رہے۔ آپ اس زمانہ میں اپنے حالات عظیمہ اور مقامات عالیہ کی کوائف اور ترقیات مریدین و طالبین کے حالات سے اطلاع دیکر اپنے پیر بزرگوار سے تصحیح حالات فرماتے تھے۔ پیر بزرگوار آپ کے حالات کی قبولیت کی بشارت دے کر اپنے زیر تربیت سالکوں کی کوائف ذکر و شغل سے آپ کو مطلع فرماتے اور ان کے بعض حالات کی کیفیات کو آپ سے استفسار فرماتے تھے۔ آپ ان کی قابلیت اور ترقیات کا وہیں سے ادراک کر کے جوابات صحیحہ تحریر فرماتے تھے۔ حضرت خواجہ صاحب علیہ الرحمہ آپ کے ادراک اور کشف صحیح کی تعریف و توصیف تحریر فرماتے تھے ۔

آپ اور حضرت خواجہ علیہ الرحمۃ کے آداب

باوجود یکہ آپ ایسے مقامات بلند و مراتب ارجمند سے سرفراز تھے ۔ مگر اپنے پیر بزرگوار کی ایسی رعایت ادب کرتے تھے کہ اس سے زیادہ متصور نہیں ہو سکتی ۔ صاحب زبدة المقامات لکھتے ہیں کہ حضرت خواجہ علیہ الرحمہ کے خلیفہ شاہ حسام الدین اپنے پیر بھائی حضرت مجد دصاحب رحمہ اللہ علیہ کی بہت سی تعریف و توصیف کرنے کے بعد بیان فرماتے تھے کہ آپ باوجود علو مرتبت و کثرت فضیلت اپنے پیر دستگیر کے آداب کی کمال رعایت کرتے ہیں ۔ حضرت کے مریدوں میں آپ جیسا با ادب نہ کوئی خلیفہ تھا اور نہ کوئی مرید ۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ برکات آپ کو نصیب ہوئیں۔ چنانچہ ایک روز کا وہ ذکر کرتے ہیں کہ میں بموجب ارشاد حضرت خواجہ علیہ الرحمہ آپ کے بلانے کے لئے گیا۔ جونہی میں نے آپ سے کہا کہ حضرت یا دفرماتے ہیں ۔ آپ کے چہرہ کا رنگ فق ہو گیا اور خوف و ہیم سے اس قدر مضطرب ہوئے کہ تمام بدن میں رعشہ پڑ گیا۔ اس وقت مجھ کو صوفیائے کرام کا وہ مقولہ یاد آیا کہ نزدیکان را بیش بود حیرانی“۔

آپکا تیسر اسفر دہلی اور آپکے متعلق حضرات خواجہ علیہ الرحمۃ کے ارشادات

تیسری مرتبہ جب آپ سرہند سے دہلی آئے۔ حضرت خواجہ علیہ الرحمۃ نے بطور کشف ادراک فرما کر ارشاد فرمایا کہ اب میرے بدن میں آثار ضعف اور ناتوانی بہت زیادہ ہو گئے ہیں ا اور اب حیات کی امید کم باقی ہے۔ اپنے صاحبزادگان خواجہ عبید اللہ علیہ الرحمہ اور خواجہ محمد عبید اللہ کو جو اس وقت شیر خوار تھے۔ آپ کے روبرو پیش کر کے القاء توجہ کے لئے ارشاد فرمایا۔ آپ نے اپنے مخدوم زداروں پر تو جہات فرمائیں اور اس کا اثر حضرت خواجہ علیہ الرحمہ پر بھی ظاہر ہوا۔ بعد آپ نے حسب الارشاد والد مخدوم زادگان پر غائبانہ توجہ فرمائی۔ اس کے بعد حضرت خواجہ علیہ الرحمۃ نے آپ کی شان میں یہ فرمایا کہ:


(1) میاں شیخ احمد کی طفیل سے ہم کو معلوم ہوا کہ تو حید وجودی ایک تنگ کوچہ ہے اور شاہراہ طریقت آور ہی ہے۔

(۲) میاں شیخ احمد ایک آفتاب ہیں اور ہم جیسے کتنے ستارے ان کی روشنی میں گم ہیں۔

(۳) ہماری اور میاں شیخ احمد کی تمثیل خواجہ ابوالحسن خرقانی اور ان کے مرید عبداللہ انصار کی ہے کہ اگر پیرزندہ رہتے تو اپنے مرید کے مرید ہوتے۔

(۴) میاں شیخ احمد کمال مرادوں اور محبوبوں میں سے ہیں ۔

(۵) میاں شیخ احمد کی مانند آج زیر فلک کوئی نہیں ہے۔
(۶) بعد صحابہ و تابعین میاں شیخ احمد کے مماثل معدودے چند بزرگ گزرے ہیں۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا

(۷) میاں شیخ احمد جامع ارشاد و مدار ہیں ۔

(۸) الحمد اللہ ہماری تین چار سال کی صحبت رائیگاں نہیں گئی۔ شیخ احمد جیسے عزیز الوجود شخص نے
تربیت پائی۔

(۹) شیخ تاج آپ کے پیر بھائی فرماتے ہیں کہ حضرت خواجہ صاحب علیہ الرحمہ نے آپ کے موسومہ بعض مکاتیب میں جو الفاظ عزیز متوقف (یعنی سلوک میں رکا ہوا شخص) تحریر کر کے

اس کا چارہ کار دریافت کیا۔ عزیز اس سے مراد خود ذات بابرکات حضرت پیر ومرشد تھے ۔

۔ آپ کی سرہند شریف کو واپسی اور سفر لا ہور

اس کے بعد آپ اپنے وطن مالوف کی طرف مرخص ہوئے اور بموجب ارشاد پیر بزرگوار چند روز وہاں قیام فرما کے عازم شہر لاہور ہوئے ۔ آپ کے فیضان عام اور کمالات تام کی بڑی شہرت ہوئی۔ عمائد علماء حضرت مولانا جمال الدین تلوی و دیگر فضلاء مثل مولا نا عبدالحکیم سیالکوٹی وغیرہ آپ کے حلقہ بیعت واردات میں داخل ہوئے اور اکثر مشائخ وقت نے آپ سے فیض حاصل کیا۔ مولانا جمال الدین تلوی کو آپ سے بیعت کرنے کے یہ واقعات پیش آئے کہ وہ منکرین مسئلہ وحدۃ الوجود تھے۔ آپ کی خدمت میں مباحثہ کی غرض سے آئے تھے۔ آپ نے خلوت میں لے جا کر ایک آن کی آن میں مقام تو حیران کو دکھا دیا۔ اسی وقت ان کی آنکھوں آنسو جاری ہوئے اور آپ کے مرید ہوئے ۔

حضرت خواجہ کی خبر وصال اور آپ کی لاہور سے روانگی

آپ لاہور میں مقیم اور سر گرم حلقہ ذکر وشغل تھے کہ خبر وحشت ملی کہ حضرت خواجہ علیہ الرحمہ کا کچھ دنوں کی علالت کے بعد بتاریخ ۲۵ جمادی الآخر ۱۲ ۱۰ ہجری دہلی میں وصال ہوا۔ آپ إِنَّا الله وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہتے ہوئے بے اختیاری بحالت اضطرار وہاں سے دہلی کو روانہ ہوئے ۔ گو راستہ میں شہر سرہند واقع ہوا اور مکان آیا۔ مگر آپ گھر تک نہ گئے ۔ بغیر اپنے اہل وعیال سے ملے شبانه روز چل کر دہلی پہنچے اور مزار انور مرشد برحق کی زیارت کی۔ اپنے مخدوم زادوں اور پھر بھائیوں کو صبر دلا سا دیا۔ سب نے دہلی میں قیام فرمانے کے لئے آپ سے التماس کی ۔ آپ نے چند روز قیام فرما کر ان کے شکستہ دلوں کو مراحم عنایت سے تشفی بخشی ۔ تربیت وارشاد سلوک کو بمقابلہ عہد حضرت پیر مرشد قبلہ بہت زیادہ فروغ ہوا۔ بموجب وصیت حضرت خواجہ مریدین و خلفاء خواجه آپ کے حلقہ ذکر میں مثل مریدین کے شریک ہو کر استفادہ کرتے اور آداب عقیدت نیاز مندانہ بجالاتے تھے۔

آپ کے بعد نا تجربہ کار پیہ بھائیوں کی ایک حرکت

اس درمیان میں بعض حاسدوں یا نا تجربہ کار مریدوں نے حضرت خواجہ صاحب کی جناب مجدد عالیہ علیہ رحمتہ سے استفادہ فرمانے پر نکتہ چینی شروع کی ۔ ” آپ کے خلاف مزاج ہوئی اور بعض غام کار پیر بھائی آپ سے منحرف ہو گئے ہر چند کہ آپ نے وعظ و پند سے ہدایت فرمائی لیکن کچھ اثر نہ ہوا ۔ آپ نے بعض کی نسبت اور کمالات سلب فرمائے ۔ پھر بھی کوئی متنبہ نہ ہوا۔ اس کے بعد آپ را ہی وطن شریف ہوئے۔

خاطیوں کی تو بہ ومعذرت

شیخ تاج الدین سنبھلی نے جو حضرت خواجہ صاحب علیہ الرحمہ کے خلیفہ اور ان منحرف لوگوں کے سرغنہ تھے اپنی نسبت کو سلب پا کر آپ کے خلاف ختم پڑھنے شروع کئے۔ ان پڑھنے والوں میں سے ایک شخص نے جو صاحب کشف تھا۔ یہ دیکھا کہ ہم میں سے ہر ایک نے ایک ایک چراغ روشن کیا۔ ناگاہ شند ہوا کا جھونکا آیا۔ بجلی چمکی یک لخت سب چراغ بجھ گئے اور غیب سے ندا آئی کہ حضرت مجدد الف ثانی کے مخالفین کے عناد کے یہ چراغ تھے جو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی عتابی توجہ سے خاموش اور نیست و نابود کر دیئے گئے ۔ یہ واقعہ پیش آتے ہی سب منکرین حیران و سرگردان رہ گئے ۔ خود شیخ تاج نے خواب میں دیکھا کہ ایک عظیم الشان محفل ہے۔ اکابر اولیاء اس میں تشریف فرما ہیں۔ حضرت امام ربانی قدس سرہ العزیز صدیقین ہیں ان میں سے ایک بزرگ نے شیخ سے خطاب فرمایا کہ تمہاری نسبت کی سلب در بربادی کا باعث (حضرت مجدد صاحب کی طرف اشارہ کر کے ) ان کی مخالفت ہے۔ علاوہ شیخ تاج کے اس قسم کی خوا ہیں اوروں کو بھی ظاہر ہوئیں۔ الحاصل شیخ تاج نے خلیفہ خواجہ حسام الدین احمد اور مولا نا محمد صلح کو جو حضرت خواجہ علیہ الرحمہ کے داماد تھے۔ نہایت تضرع کے ساتھ اپنی غلطی سے آگاہ اور خواب کی کیفیت سے مطلع کر کے استدعا کی کہ سب کی طرف سے آپ حضرت مجددالف ثانی علیہ الرحمۃ سے معافی کی درخواست کریں۔

خاطیوں کی معافی

خواجہ حسام الدین احمد نے بھی مراقبہ میں دیکھا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم رونق افروز ہیں اور خطبہ فرما رہے ہیں۔ اس میں حضرت مجدد علیہ الرحمہ کی تعریف و توصیف کر کے آپ کی مجددیت اور قیومیت کی تصدیق فرمارہے ہیں۔ آپ نے اس واقعہ کا بھی اپنے ان منکر پیر بھائیوں سے ذکر کیا۔سب نے تو بہ واستغفار کر کے حضرت مجدد علیہ الرحمہ کی طرف رجوع کیا۔ شیخ تاج نے ایک درخواست اپنی اور دیگر پیر بھائیوں کی خطاء کی معذرت کے متعلق آپ کی خدمت میں تحریر کی اور جب آپ حضرت خواجہ قدس سرہ کے عرس کی تقریب میں دہلی تشریف لائے ۔ مع کل منکرین ننگے سر اپنی اپنی دستار میں اپنے اپنے گلوں میں ڈالے ہوئے آپ کے استقبال کے لئے دہلی سے کئی میل تک حاضر ہوئے اور اپنے قصورات کی صدق دلی سے معافی چاہی۔ آپ نے براہ اخوت ا سلسله ترحم فرما کر سب قصورات کو معاف فرما دیا۔