اثبات النبوۃ
نَحْمَدُہُ وَ نُصَلّیِ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمْ
حرف آغاز
تمام تعریفیں اللہ تعالی کیلئے جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ ارسال فرمایا اور اس پر کتاب اتاری اس کیلئے کوئی کجی نہیں رکھی ، درست ہے کہ لوگوں کو اپنے شدید عذاب سے ڈرائے اور مومنوں کو خوشخبری سنائے جو اچھے کام کرتے ہیں، ان کیلئے بہترین ثواب ہے، پس اس نے اس کے ساتھ اپنے بندوں کیلئے ان کا دین مکمل کیا اور ان پر اپنی نعمت تمام کر دی اور اسلام کو (بطور) دین پسند کر لیا اور حضورﷺپر انبیا ء و رسل کا سلسلہ کے ختم فرمایا ، جو آیات باہرہ اور معجزات عظمی کے ساتھ مخلوق کی طرف مبعوث ہوئے تا کہ وہ خود کو ان کی طرف مائل کریں جیسے اندھے لوگ بے خود قائدین اور حیرت زدہ مریض شفیق اطباء کی طرف مائل ہوتے ہیں، تا کہ وہ فوائد و منافع حاصل ہوں جس سے عقل معزول ہے اور حضور ﷺ کو سب انبیا سے افضل اور سب رسل سے اکرم اور ملت میں سب سے معتدل اور دین و شرح میں اقوم بنا یا ، وہ وہی سبحانہ ہے جس نے ان کے اعتدال حال اور مرتبہ کمال کیلئے اس فرمان سے خبردی، مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى وہ آنکھ نہ جھپکی اور نہ حد سے بڑھی بے شک اس نے اپنے رب کی عظیم نشانیوں کو دیکھا ہے
وہ محمد مصطفے ﷺ ہیں جو تمام مخلوق کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں کہ لوگوں کو( اللہ کی ) تنزیہ اور توحید کی دعوت دیں اور ان کو علمی و عملی قوت میں مکمل کریں اور ان کے مریض دلوں کا علاج کریں ، اللہ تعالی حضور ﷺ پر صلوۃ بھیجے جس کے وہ اہل ہیں اور ان کے آل و اصحاب پر جو ہدایت کے ستارے ہیں اور تاریکی کے چراغ ہیں، جب تک اندھیرے( ایک دوسرے ) کا تعاقب کریں اور پھر زیادہ سے زیادہ سلام نازل کرے، اما بعد
یہ بندہ اللہ ولی ومعین کی رحمت کا گدا احمد بن عبد الاحد بن زین العابدین، اللہ سبحانہ انہیں نقص و عیب سے بچائے ، کہتا ہے کہ میں نے جب اس زمانے میں لوگوں کے عقیدے میں اصل نبوت کے بارے میں پھر ایک شخص معین کیلئے اس کے ثبوت و تحقیق میں ، پھر نبوت کے مشروع عمل میں فتور دیکھا اور لوگوں میں اس کا شائع ہونا ثابت ہو گیا حتی کہ ہمارے زمانے کے بعض سنگدلوں نے کثیر علما کو سختیوں اور اذیتوں سے عذاب دیا جس کا ذکر مناسب نہیں، یہ سب شریعت کی اتباع اور رسولوں سے وابستگی کے رسوخ کی وجہ سے تھا، نیز اس کی وجہ سے اہل اسلام کے کثیر علما کو قتل بھی کر دیا گیا ہے، معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ اس بادشاہ کی مجلس میں خاتم الانبیا ﷺ کے اسم گرامی کی تصریح چھوڑ دی گئی ، جو اس اسم شریف کامسمی تھا ، اس کا نام دوسرے نام سے بدل دیا ، گائے کے ذبیحہ سے روکا، جو ہندوستان میں اسلام کی اجل نشانیوں میں سے ہے۔
اہل سلام کے مقابر و مساجد کو خراب کر دیا ، کافروں کے معابد اور ان کی عبادتوں اور رسموں کے دنوں کی تعظیم کی ، فی الجملہ شعائر اسلام اور اس کے اعلام کو مٹایا اور کافروں کی رسموں اور جھوٹے دینوں کو فروغ دیا یہاں تک کہ کفار ہند کے احکام ظاہر کر دیئے اور انہیں ان کی زبان سے فارسی میں منتقل کرنے کا حکم صادر کیا تا کہ اسلام کے تمام آثار ملیا میٹ کردیں، میں نے معلوم کیا کہ شک و انکار کی بیماری عام ہے، یہاں تک کہ طبیب بھی بیمار ہو گئے ہیں اور اشرف الخلق( یعنی انسان ) ہلاکت پر گامزن ہے، میں نے خلقت کے خاص لوگوں کے عقیدے کا پیچھا کیا اور ان سے ان کے شبہات دریافت کئے ، ان کے رازوں اور عقیدوں کو ٹٹولا تو ان کے اعتقادی فتور اور ایمانی کمزوری کا سبب عہد نبوت سے دوری علم و فلسفہ میں خوض اور ہندی حکماءکی کتابوں کے مطالعہ کے سوا کوئی نہ پایا، اس علم وفلسفہ کے بعض قراء سے مناظرہ کیا جو کافروں کی کتابوں سے حظ وافر پا کر فضل و فضیلت کے مدعی بن گئے اور انہوں نے لوگوں کو گمراہ کیا اور اصل نبوت کی تحقیق اور شخص معین کیلئے اس کے ثبوت میں گمراہ ہوئے حتی کہ انہوں نے کہہ دیا کہ حاصل نبوت حکمت و مصلحت کی طرف لوٹتا ہے، مخلوق کے ظاہر کی اصلاح اور عوام کو نزاع و اختلاف اور شہوات میں آزادی سے ضبط سکھاتا ہے، اس کا نجات اخروی سے کوئی تعلق نہیں، اس کا تعلق تو بس تہذیب اخلاق اور قلبی اعمال کے فضائل کے حصول سے ہے جن کا ذکر حکماء نے بھی کہ اپنی کتابوں میں بیان کیا اور ان کو خوب ظاہر کیا جیسا کہ اس کا حق ہوتا ہے، پھر اپنی تائید میں بیان کیا کہ بے شک امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب احیاء العلوم کے چار حصے کئے منجیات کی چوتھائی کو عبادات کی چوتھائی کا قسیم(تقسیم کرنے والا) قرار دیا جبکہ نماز روزہ وغیر ہما جو کتب فقہ میں بیان کئے گئے ، اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ حکماء کے موافق ہے، یہ بدنی عبادات ان کے نزدیک بھی غیر منجیہ ( نجات نہ دلانے والی ) ہیں ، جیسا کہ وہ حکماء کے نزدیک بھی غیر منجیہ ہیں پھر انہوں نے کہا جس انسان کو نبی کی دعوت مل گئی مگر اس کے ہاں اس کی نبوت ، عہد کی دوری اور آیات و معجزات کے عدم ثبوت پر ثابت نہ ہو گی، ان کے نزدیک اس انسان کا حکم پہاڑوں پر رہنے والے کا ہے جس کو نبی کی دعوت نہ ملی ہو ، پس نبی کے ساتھ وجوب ایمان کے عدم میں ، ان دونوں کے درمیان فرق( صرف ) حکم میں ہے ، میں کہتا ہوں کہ حکمت از لی اور عنایت الہی کا تقاضا ہے کہ بعثت انبیاء علیہم السلام نفوس بشری کی تکمیل اور قلبی امراض کے علاج کیلئے ہو اور یہ اس کے بغیر میسر نہیں کہ وہ نا فرمان کیلئے منذرین(ڈرانے والے) اور اطاعت گزار کیلئے مبشرین(خوشخبری سنانے والے) اور اخروی عذاب و ثواب کیلئے مخبرین (خبریں دینے والے)ہوں، کیونکہ ہر نفس پر مشتہیات(خواہشیں) کا شوق مسلط ہوتا ہے، لہذا وہ گنا ہوں اور رذیل عملوں کی طرف قدم اٹھاتا ہے اور ان کی تکمیل دو جہاں میں ان کی سعادت و نجات کا سبب ہوتی ہے، بلکہ بعثت کا مطلوب ہی نجات اخروی اور سعادت ابدی ہے کہ دنیا کا سامان تو قلیل ہے اور حکماء نے جب اپنے باطل نظریوں کی ترویج کا ارادہ کیا تو ان کے ساتھ جو انہوں نے تہذیب اخلاق کے بیان اور باطن سے متعلق اعمال صالحہ کی تحصیل میں اس کو شامل کر لیا جو انبیا ءکرام علیہم السلام پر نازل ہونے والی کتابوں،ان کے فرمانوں اور ان کے کامل اطاعت گزاروں کی باتوں سے چرایا تھا اور اس کو ایک مستقل علم میں مدون کیا جیسا کہ تم دیکھتے ہو ، امام محقق حجتہ الاسلام (غزالی )نے تو اس کو تقسیم عبادات قرار دیا ہے کیو نکہ فقہا کرام نے اس کو کتب فقہ میں تبعیت و ضمن کے طریقے پر بیان کیا ہے اور اس طرح بیان نہیں کیا جیسے بیان کرنا چاہئے ، اس لئے کہ ان کی اصلی غرض ظواہر اعمال سے متعلق ہے اور وہ ظاہر کے ساتھ حکم کرتے ہیں اور دلوں اور باطنوں کو شق نہیں کرتے ، چونکہ طریقت اور سلوک کے علما ءکرام نے اسے واضح کیا اس لئے امام غزالی نے ظاہر سے متعلق شریعت اور باطن سے متعلق طریقت کو اکٹھا فر ما دیا اور اپنی کتاب کو متعلق و مقصد کے اختلاف کے اعتبار کے ساتھ تقسیم کیا اور اس قسم کا نامی منجی ( نجات دینے والی ) رکھا، اگر چہ عبادات میں بھی انہوں نے اس( قسم ) کو منجی ذکر کیا تا کہ ادائے عبادات سے نجات کا (مسلم) ہونا فقہ سے پہچانا جائے اور اس ( دوسری ) قسم کی نجات اس سے نہیں پہچانی جاتی ، پس توجہ کرو اور اگر اس کے بعد بھی تمہارا شک باقی رہے تو ان کے اس کام میں غور کرو جو میں نے اس رسالہ میں بیان کیا تا کہ تمہیں اس شبہ سے بالکل نجات حاصل ہو جائے اور میں کہتا ہوں کہ تم نے جالینوس اور سیبویہ کو نہیں دیکھا تو کیسے جانا کہ جالینوس طبیب اور سیبویہ نحوی تھا، پس اگر تم کہو کہ میں نے علم طب کی حقیقت معلوم کی اور اس کی کتب و تصانیف کا مطالعہ کیا اور اس کے قول سے جو امراض کے معالجے اور بیماریوں کے ازالے کی خبر دیتے ہیں، اس سے مجھے اس کے حال کا علم ضروری حاصل ہوا اور اس طرح میں نے نحو سیکھی اور سیبویہ کی کتابیں دیکھیں اور اس کے قول سے تو اس سے مجھے علم ضروری حاصل ہوا کہ وہ نحوی تھا، میں کہتا ہوں کہ جب تم نے نبوت کا معنی معلوم کر لیا تو قرآن و اخبار میں از حد نظر دوڑاؤ، تمہیں اس کا علم ضروری حاصل ہوگا کہ حضور ﷺ نبوت کے اعلی درجات پر متمکن ہیں اور زمانے کا بعد اسی تصدیق میں حائل نہیں ہوتا جس طرح سابق تصدیق میں حال نہیں ہوتا، اس لئے کہ حضور سراپا نور ﷺ کے جمیع اقوال وافعال و عقائد حقہ اور اعمال صالحہ کے ساتھ ان کی علمی و عملی قوت میں نفوس بشریہ کی تکمیل اور مریض دلوں کے علاج اور ان کی ظلمات کے ازالے کی خبر دیتے ہیں ، نبوت کا معنی اس کے سوا نہیں باقی رہا پہاڑوں پر رہنے والا جسے نبی کی دعوت نہ پہنچی اور اس نے اس کے اقوال نہ سنے اور اس کے احوال نہ سیکھے تو اس کیلئے اس کی نبوت کی تصدیق ممکن نہیں اور نہ اس کیلئے اس کی رسالت کا علم آسان ہے، تو یہ ایسے ہے جیسے اس کے حق میں نبی مبعوث نہ کیا گیا، پس وہ معذور ہے اور ایمان کا مکلف نہیں ، اللہ سبحانہ نے فرمایا :
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًایعنی ہم عذاب دینے والے نہیں حتی کہ رسول نہ بھیجیں، پھر میرے دل میں ( یہ بات )جم گئی اور میرے سینے میں ( یہ کسک ) ٹھہر گئی کہ میں ان کیلئے ایسی تقریر کروں جو ان کے شکوک رفع کر دے اور ان کیلئے ایسی بات لکھوں جو ان کے شبہے زائل کر دے۔
میں نے دیکھا کہ وہ میری جان پر حق واجب ہے اور قرض لازم ہے جو ادائیگی کے بغیر ساقط نہ ہو گا تو میں نے اصل نبوت کا مطلب ثابت کرنے کیلئے اور پھر خاتم الرسل ﷺ کیلئے اس کے تحقیق و ثبوت میں اور اس کے منکرین نافین(لعنتی) کے شبہ کی تردید میں اور فلسفہ کی خدمت میں اور ان کے علوم کی ممارست(مہارت) اور ان کی کتابوں کے مطالعہ سے حاصل ہونے والے نقصان کے بیان میں دلائل و براہین کے ساتھ ایک رسالہ تالیف کیا اور ایک مقالہ تحریر کیا ، جو میں نے قوم کی کتابوں سے اخذ کئے اور اللہ ملک جلیل کی مدد سے جو کچھ میری پریشان خاطر پر ظاہر ہوا وہ ان پر زیادہ اور ان سے ملحق ہے، میں کہتا ہوں کہ یہ رسالہ ایک مقدمہ اور دو مقالوں پر مرتب ہے اور مقدمہ میں دو مباحثے ہیں، ملاحظہ کیجئے:
بحث اول
معنی نبوت کی تحقیق میں
جان لو کہ متکلمین (وہ علما جو مذہبی امور کو عقلی دلائل کے ساتھ ثابت کرنے کے ماہر ہوں) کے نزدیک نبی وہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہو کہ میں نے تمہیں اس قوم کی طرف یا تمام انسانوں کی طرف رسول بنایا یا ان کو میری طرف سے پہنچا دو، یا اس طرز کے الفاظ جو اس معنی کیلئے مفید ہوں، جیسا کہ میں نے تمہیں ان کی طرف مبعوث کیا اور انہیں خبر دو اور اس ارسال میں کسی شرط اور کسی ذاتی استعداد کی کوئی شرط نہیں، جیسا کہ حکماء (فلاسفہ)کا گمان ہے ، بلکہ یہ تو اللہ تعالی ہے جو جس کو چاہے اپنی رحمت سے خاص کر دے اور وہ ہی جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں ٹھہرائے ، وہ سبحانہ قادر ہے اور مختار ہے، جو چاہے کرتا ہے، اور جس کا ارادہ کرے، اختیار کرتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہاں پر وہم نہ ہو کہ متکلمین نے نبی کیلئے معجزہ کو شرط قرار دیا اور اس کو ان خواص میں شمار کیا جن کے ساتھ وہ اپنے غیر سے ممتاز ہوتا ہے، یادر ہے کہ ان کے نزدیک معجزہ اس کے نبی ہونے کے علم کیلئے شرط ہے نہ کہ اس کے نبی ہونے کیلئے اور اس امتیاز سے مراد امتیاز علمی ہے نہ کہ ذاتی بس سوچنا چاہئے ۔ اور فلاسفہ کہتے ہیں کہ جس میں تین خواص جمع ہو جائیں وہ نبی ہے کہ وہ ان خواص کے ساتھ اپنے غیر سے ممتاز ہے:
ایک یہ ہے کہ اس کو حال و ماضی و مستقبل کے غیبوں کی اطلاع ہو ، ہم کہتے ہیں کہ تمام غیبوں پر اطلاع نبی پر واجب نہیں ، اس پر ہمارا تمہارا اتفاق ہے اور بعض پر اطلاع ہونا نبی کے ساتھ مخصوص نہیں جیسا کہ تم ریاضت والوں ، بیماروں اور سونے والوں کیلئے جائز سمجھتے ہوتو یہ تمیز نہیں ، میں کہتا ہوں کہ شاید وہ یہ چاہتے ہوں کہ( نبی کو ) اکثر غیبوں پر اطلاع ہوتی ہے جو عادت سے خارج ہے اور خارق عادت ہے اور وہ مجہول نہیں بلکہ وہ عادتا اور عرفاً معلوم ہے اور یہ کہ غیب پر اطلاع (ہونا ) اور اس کے ساتھ ایک یا دو مرتبہ تکرار کے بغیر خبر دینا جو اعجاز کی حد کو پہنچے تو وہ خارق عادت نہیں، (معجزہ ہے ) اس حالت میں نبی اپنے غیر سے ممتاز ہو گا ،لہذا غور کرو۔
جان لو کہ متکلمین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انبیا کرام علیہم السلام اللہ کے بتانے سے غیب جانتے ہیں مگر اس کے ساتھ اشتراط (مشروط کرنا)باطل ہے اور اسی طرح وہ سبب بھی جس کو فلاسفہ نے اطلاع کیلئے بیان کیا مردود ہے، یہ اہل اسلام کے اصول کے مناسب نہیں ، وہاں ایک چیز یہ رہی کہ اس تقدیر پر مغیبات کی اطلاع ہونا دوسری خاصیت میں داخل ہے کیونکہ وہ ان امور عجیبہ سے ہے جو خارق عادت(معجزہ،کرامت) ہیں تو ان کے الگ بیان کی کوئی درست وجہ ظاہر نہیں ہوتی غور کرنا چاہئے ۔
دوسرا یہ کہ اس سے خارق عادت افعال ظاہر ہوں جس طرح کہ عناصر کےہیولیٰ(وہمی صورت) اس کیلئے مطیع ہوتے ہیں اور اس کے تصرفات کے ماتحت ہوتے ہیں جیسے بدن اپنے نفس کے ماتحت ہوتا ہے تو یہ دور نہیں کہ نبی کا نفس اس قدر طاقتور ہوتا ہے کہ وہ ہیولی عنصریہ میں اس کے ارادہ و تصرفات کے مطابق موثر ہوتا ہے۔ جہاں تک کہ اس کے ارادوں سے زمین میں ہوائیں، زلزلے، حرق (جلنا)وغرق اور ظالم انسانوں کی ہلاکت اور فاسد بدنوں کی تباہ حالی ظاہر ہوتی ہے، ہم کہتے ہیں کہ اس کی بنا جسموں میں نفوس کی تاثیر پر ہے اور اپنے مقام پر بیان ہو چکا کہ اللہ تعالی کے سوا وجود میں کوئی موثر نہیں اور اس پر یہ کہ امور عجیبہ ، خارق عادت کا ظہور نبی کے ساتھ مختص نہیں جیسا کہ تم نے بھی اعتراف کیا تو نبی اپنے غیر سے کس طرح ممتاز ہو گا ؟
میں کہتا ہوں کہ بے شک فلاسفہ غیر انبیا کیلئے بھی امور عجیبہ کے ظہور کو جائز سمجھتے ہیں لیکن وہ اس کیلئے ان کے تکرار اور خارق عادت کے حد اعجاز تک پہنچنے کو ہرگز جائز نہیں مانتے ، جیسا کہ ان کی عبارات سے ثابت ہے۔ تو اس طرح نبی اس عادت کے خلاف امور عجیبہ کے ظہور (کی وجہ ) سے اور اپنے غیر سے ان امور کے عدم ظہور (کے باعث ) ممتاز ہوتا ہے پس سمجھ جاؤ، وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ
تیسرا یہ کہ نبی فرشتے کو محسوس صورتوں میں مشاہدہ کرتا ہے اور اس کا کلام سنتا ہے، جب وہ اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے وحی لے کر آتا ہے، ہم کہتے ہیں کہ یہ ان کے مذہب و اعتقاد کے موافق نہیں بلکہ یہ لوگوں پر ان کے عقیدے کو مشکوک کرنا اور ایسی عبارت سے اس کی شناعت ( ملامت) کا چھپانا ہے جس کے معنی کے وہ خود قائل نہیں، کیونکہ وہ تو اس کے قائل نہیں کہ فرشتے دکھائی دیتے ہیں، بلکہ فرشتے ان کے ہاں اپنی ذات میں نفوس مجردہ(غیر مادی) ہیں، اجرام افلاک(ستارے اور سیارے) کے ساتھ متعلق ہیں ، یا ذات و فعل میں عقول مجردہ ہیں اور ملاء اعلیٰ سے موسوم ہیں ، ان کا کلام نہیں کہ سنا جا سکے اس لئے کہ وہ اجسام کے خواص سے ہے جبھی ان کے مطابق حروف واصوات متموج ہوا کے امور عارضہ ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ شاید فلاسفہ نے اس لئے مجردات کی رؤیت اور ان کے کلام کے سماع سے انکار کیا ہے جووہ غیر صورت اور غیر مجسم ہوں اور یہ تو جائز ہے کہ وہ صورتوں میں متحمل اور جسموں میں ظاہر ہو جائیں اور ان کے ساتھ رؤیت کا تعلق ہو جائے اور ان کے کام کا سماع ممکن ہو جائے ، اس لئے کہ ہر مرتبہ کیلئے جواز ومنع کا (ایک)حکم ہے اور جب انہوں نے اپنے مراتب عالیہ سےتنزل کیا اور تنزل کا لباس پہن لیا تو اس مرتبہ کے احکام اخذ کر لئے ، اس میں کوئی قباحت نہیں، پس سمجھ لو، والله سبحانه اعلم
بحث ثانی
معجزے کے بارے میں:
ہمارے نزدیک (معجزہ) سے مراد وہ ارادہ ہے جس کے ساتھ یہ دعوی کرنے والے کی صداقت کا اظہار ہو کہ وہ اللہ کا رسول ہے اور اس کیلئے ( چند)شرائط ہیں:
• کہ اللہ کا فعل ہو، کیونکہ تصدیق تو اس کی طرف سے ہے۔
• کہ عادت کے خلاف ہو، کیونکہ ہر روز سورج کے طلوع ہونے اور ہر بہار میں پھولوں کے کھلنے کی طرح جو چیز معتاد (عادی)ہو،صداقت پر دلیل نہیں ، جیسا کہ تم دیکھتے ہو۔
• کہ جس کا معارضہ(تنازع) نا ممکن ہو کیونکہ یہی اعجاز کی حقیقت ہے۔
• کہ وہ مدعی نبوت کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا کہ معلوم ہو جائے کہ یہ اس کی تصدیق ہے۔
• کہ دعوے کے مطابق ہو ، اگر اس نے کہا کہ میرا معجزہ یہ ہے کہ میں مردے کو زندہ کرتا ہوں اور اس نے کوئی دوسرا خلاف عادت کام کر دیا جیسا کہ پہاڑ کو لٹکانا، یہ اس کے صدق پر دلالت نہیں کرتا ، اسلئے کہ ہر کام اللہ تعالی کی طرف سے تصدیق کے طور پر نازل نہیں ہوا۔
• کہ جس کا دعوی کیا اور جس کا معجزہ ہونا ظاہر کیا تو وہ معجزہ اس کی تکذیب نہ کرے ، مثلاً اگر اس نے کہا کہ یہ میرا معجزہ ہے کہ یہ گوہ بولے گی ، پس گوہ نے کلام کیا کہ وہ کا ذب ہے تو اس سےاس کا صدق معلوم نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے کذب کا اعتقاد اور زیادہ ہوا کہ نفس خارق عادت(معجزہ،کرامت) ہی اس کا مکذب ہے۔
• کہ دعوے پر مقدم نہ ہو، اس لئے کہ دعوے سے قبل تصدیق سمجھ نہیں آتی ، حضرت عیسی علیہ السلام کا پنگھوڑے میں بولنا نخل(کھجور) خشک سے تازہ کھجور کا گرنا، حضرت محمد مصطفے کریم ﷺ کا بطن اقدس چاک ہونا ، آپ کے قلب انور کا غسل ، بادل کا سایہ ، حضور پر حجر و مدر کی تسلی ، وغیرھا جیسے واقعات کی جو دعوی نبوت سے پہلے ہوئے وہ معجزات نہیں ، وہ سب کرامات ہیں جن کو یہاں ارہاص(قبل بعثت خارق عادت) یا تاسیس نبوت کہا جاتا ہے۔
وہ معجزہ جو دعوے سے متاخر ہے تو اس کا تاخر اتنے تھوڑے عرصے کا ہے کہ (ا تنا تاخر ) عادت دکھائی دے تو اس نے ظاہر کیا کہ وہ اپنے صدق پر دلالت کرتا ہے، اگر اس کے تاخر کا عرصہ طویل ہے جیسا کہ کہا جائے کہ میرا معجزہ ہے کہ فلاں چیز ایک مہینہ بعد حاصل ہو گی تو اس پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ معجزہ ہے اور ثبوت نبوت پر دلالت کرتا ہے، لیکن اس کی اتباع کی تکلیف اس وقت تک منتفی(نفی ہونے والی) ہو گی جب تک وہ موعود حاصل نہ ہو جائے ، کیونکہ اس کی شرط یہی ہے کہ اس کے معجزہ ہونے کا علم ہو اور وہ موعود کے حصول کے بعد ممکن ہی ہے۔ اور رہی مدعی نبوت کے صدق پر دلالت معجزہ کی کیفیت تو جاننا چاہئے کہ
یہ دلالت صرف عقلی دلالت نہیں جیسا کہ فعل کی دلالت فاعل کے وجود پر ہوتی ہے؟ اس کے احکام اور اتقان کی دلالت اس پر ہے کہ جس سے صادر ہوا وہ عالم ہے۔ پس بیشک ادلہ عقلیہ بنفسھا اپنے مدلولات سے مربوط ہیں اور اس کی تقدیر جائز نہیں جو اس پر دلالت نہیں کرتا، کیونکہ معجز ہ کیلئے ایسا نہیں ہوتا ، پس خوارق عادات جیسا کہ آسمانوں کا پھٹ جانا ،ستاروں کا جھڑنا، پہاڑوں کا ریزہ ریزہ ہونا، جو اختتام دنیا اور قیام قیامت کے وقت واقع ہوگا اور اس وقت ارسال نہیں ہوگا اور اس طرح دست اولیا پر کرامات کا ظاہر ہونا ، مدعی نبوت کے صدق پر غیر دلالت سے ہے جیسا کہ السید السند نے شرح المواقف میں تحقیق فرمائی۔
میں کہتا ہوں کہ عصمت و توفیق تو اللہ تعالی کی طرف سے ہے، بے شک تحدی (مقابلہ)اور طلب معارضہ(تنازع) کی تصریح جمہور کے نزدیک معجزہ میں ضروری ہے اور اس کے بغیر وہ معجزہ نہیں ہوتا ، ان اشیا کے بارے میں خبریں( دینا ) جن کا وقوع وتحقق اختتام دنیا اور قیام قیامت کے نزدیک ہے، معجزہ نہیں ہوگا کہ اصلا یہ بالکل تحدی نہیں،( اس کا تحدی نہ ہونا) صریحا تو ظاہر ہوا ضمنا بھی ظاہر ہوا کہ اس وقت کسی کا وجود ہی نہ ہو گا کہ اس سے طلب معارضہ کا تصور کیا جائے اور اسی طرح دست اولیا پر ظاہر ہونے والی کرامات بھی معجزہ نہیں کہ ان کے ساتھ دعوی ہے اور نہ تحدی ہے، پس مدعی نبوت کے صدق پر ان خوارق کے عدم دلالت سے لازم نہیں آتا کہ معجزات اس دلالت سے خالی ہیں اور وہی مطلوب ہے، لہذا غور کرو ۔
اگر تم نے کہا کہ مدعی نبوت کے صدق پر معجزات کی دلالت تو خارق عادت ہے اور اس دلالت میں خصوصیت معجزہ کیلئے دخل نہیں ، میں کہتا ہوں کہ یہ امر نہیں جو تم نے گمان کیا ہے، بلکہ معارضے کا تعذر اور اس کی مثال ہونے پر غیر کا عدم قدرت ، اعجاز کی حقیقت پر دلالت کرتا ہے، پس خصوصیت (معجزہ ) کو دلالت میں دخل ہوگا ، بلکہ یہی( خصوصیت )دلالت میں معتمد ہے، یہ نہیں کہنا چاہئے کہ السید السند نے شرح المواقف میں صراحت فرمائی ہے کہ محض دلیل نقلی کا تصور نہیں کیونکہ اس سے مخبر کا صدق ضروری ہے اور وہ عقل کے ساتھ ہی ثابت ہو سکتا ہے اور وہ جو معجزہ میں صدق پر دلالت کرتا ہے، دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صدق نبی پر دلالت معجزہ عقلی ہے اور یہاں اس سےعقلی دلالت کی نفی کی گئی ہے تو یہ تناقض ہے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اس عبارت کا مفہوم یہ ہے صدق پر دلالت کرنے والے معجزہ میں عقلی لحاظ سے دیکھا جائے کہ اس سے مخبر کا صدق معلوم ہو سکے۔
اور یہ کہ صدق پر اس کی دلالت کا عقلی و عادی ہو نا یا اس کے بغیر ہونا تو اس سے اصلا سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ محض دلالت عقلی ہے اور اس مقام پر نفی سے وہی مطلوب ہے۔ اس لئے کہ کوئی آدمی اس کا دعوی نہیں کرتا کہ اس کی دلالت میں عقل کو اصلا دخل نہیں تا کہ تناقض ہو اور ان(قدس سرہ) کی عبارت میں حصر واقع اضافی ہے جونقل کی نسبت سے وارد ہوا،فتامل۔
اور یونہی صدق نبی پر دلالت معجزہ دلالت سمعیہ نہیں اور نہ ہی وہ صدق نبی پر اس کے توقف سے جاری ہوا، بلکہ وہ دلالت عاد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے یہ عادت جاری کر دی کہ ظہور معجزہ کے بعد( اس کے ) صدق کا علم تخلیق فرمادیا۔ تو دست کاذب پر معجزے کا اظہار اگر عقلا ممکن بھی ہو تو اس کا انتفا (فائدہ)عادتاًمعلوم ہے۔ اگر کسی شخص نے کہا کہ میں نبی ہوں، پھر پہاڑ کو اٹھا کر لوگوں کے سروں کے اوپر ٹھہرا دیا اور کہا کہ اگر تم نے مجھے جھٹلایا تو تم پر یہ پہاڑ آگرے گا اور اگر میری تصدیق کی تو تم سے دور ہٹ جائے گا اور جب جھٹلانے کا سوچیں تو پہاڑ نز دیک ہو جائے تو اس سے علم ضروری (اخذ ) ہوتا ہے کہ وہ اپنے دعوے میں صادق ہے اور عادت کا یہ فیصلہ ہے کہ کا ذب سے یہ کام نہیں ہو سکتا ، لوگوں نے اس کی مثال (یوں بھی ) بیان کی ہے کہ اگر کوئی شخص جم غفیر کے ہوتے ہوئے یہ دعوی کرے کہ میں بادشاہ کی جانب سے تمہارے پاس قاصد بن کر آیا ہوں ، پھر وہ بادشاہ کو مخاطب کرے کہ اگر میں صادق ہوں تو خلاف عادت اپنے مقام عادی سے اٹھ کر اس مقام پر بیٹھ جا جس کا تو عادی نہیں ، بادشاہ نے ایسا کر دیا تو یہ صریح بات اس کی تصدیق کے برابر ہوگی ، قرینہ حال کے مطابق کوئی آدمی اس کے صدق میں شک نہیں کرے گا ، یہ غائب کو حاضر پر قیاس کرنے کے باب سے نہیں ، بلکہ ہمارا دعوی ہے کہ معجزے کا ظہور ، صدق کے ساتھ علم ضروری کا فائدہ دیتا ہے اور اس کے لیے اس کا فائدہ مند ہونا ضرورت عادیہ کے ساتھ معلوم ہے اور یہ مثال تفہیم ( مسئلہ )اور زیادت تقریر کے لیے ذکر کی جاتی ہے۔
اور معتزلہ نے کہا کہ دست کاذب پر معجزے کا پیدا کرنا اللہ تعالی کے عموم قدرت میں مقدور ہے لیکن اس کا وقوع اس کی حکمت میں ممتنع (ممنوع)ہے، کیونکہ اس طرح اس کے صدق کا وہم ہوتا ہے اور یہ اللہ سبحانہ کی طرف سےقبیح بات ہے، چنانچہ اس سے اس کا صدور تمام قبائح کی طرح ممتنع ہے: حضرت شیخ اور ہمارے بعض اصحاب نے فرمایا کہ دست کاذب پر معجزے کا پیدا ہونانی نفسہ غیر مقدور ہے ، اس لیے کہ معجزہ قطعاً صدق پر دلالت ہے جبھی اس کا تخلف(مخالفت)اس سے ممتنع ہے، لہذا اس کی دلالت میں من وجہ ضروری ہے، کیونکہ اسی کی بدولت دلیل صحیح (دلیل )فاسد سے ممتاز ہوتی ہے، اگر چہ ہم اس وجہ کو بعینہ نہ جان سکیں ، پس دست کاذب پر پیدا ہونے والا معجزہ اس کے صدق پر دلیل ہوگا تو کا ذب صادق ہو گیا اور وہ محال ہے۔ بصورت دیگر معجزہ اپنے مدلول پر اس کی دلالت قطعی سے جدا ہو گا جو اس کا لازم ہے اور وہ بھی محال ہے ، قاضی نے کہا کہ ظہور معجزہ کا صدق کے ساتھ شامل ہونا امر لازم، یعنی لزوم عقلی نہیں، جس طرح کہ وجود فعل، اس کے فاعل کے وجود کے ساتھ شامل ہے، بلکہ وہ عادیات میں سے ایک ہے، جیسا کہ جب ہم نے اس کے مقام عادی سے اس کے انحراف کو جائز قرار دیا تو( گویا) معجزہ کو اعتقاد صدق سے خالی کرنا جائز قرار دیا اور اس وقت دست کاذب پر اس کا اظہار جائز ہوگا اور اس میں کوئی اشکال نہیں ، سوائے اس کے کہ معجزہ میں خرق عادت ہے اور یہ مفروض ہے کہ وہ جائز ہے اور ہاں یہ کہ اس تجویز کے بغیر دست کا ذب پر اس کا اظہار جائز نہیں اس لیے کہ کاذب کے صدق کا علم محال ہے۔
حضرت مجدد کا محاکمہ :
میں کہتا ہوں کہ عادیات کے ان کے مقام عادی سے انحراف کو مطلقاً جائز ٹھہرانا اس امر کو واجب کرتا ہے کہ معجزہ کو صدق نبی کے اعتقاد سے خالی کرنا جائز ہے، کیونکہ اس کے صدق کا علم اس کے معجزہ کے بعد عادی ہے، اس جگہ پر کا ذب سے صادق کی تمیز نہیں ہوتی اور اثبات نبوت کا دروازہ بند ہو جاتا ہے، کیونکہ اس کے اثبات میں یہی معتمد ہے کہ ظہور معجزہ کے وقت صدق نبی کے علم ضروری و عادی کا تحقق ہو، بلکہ پھر لازم آتا ہے کہ معجزہ معجزہ نہ رہے اور یہ کہ اس کے لیے اصلا صدق پر دلالت نہ رہے، اس لیے کہ وہ اپنے خرق عادت کے اعتبار سے معجزہ کہلاتا پہلے اور صدق پر دلالت کرتا ہے، پس اگر ہم مطلقا خرق عادت کو جائز قرار دیں تو وہ یہاں صدق پر عدم دلالت میں امور عادیہ کی طرح (جائز )ہوگا ، جیسا کہ ہر روز سورج کا طلوع ہونا ، لہذا درست وہی ہے جو میں تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں کہ ہم نے خرق عادت کو صرف نبی کے حق میں بطور اعجاز اور ولی کے حق میں بطور کرامت جائز قرار دیا ہے، باوجود اس کے کہ اس کا سفسطہ(باطل استدلال) ہر دور میں اور اس کا تحقق ہر زمانے میں ہے حتی کہ یہ عادت مستمرہ بن گئی ہے ، اس کا انکار ناممکن اور اس کا استبعاد(بعید از عقل سمجھنا) مرتفع ہو چکا ، باقی رہا اس کے سوا تو عادت اپنی اصلی حالت پر باقی ہے کہ اس کا استبعاد مرتفع نہیں ہوتا اور نہ اس کی طرف شبہے کی گنجائش ہے اور نہ اس کی جانب انحراف اصلاً جائز ہے ، ورنہ لازم آئے گا کہ وہ پہاڑ جس کو ہم نے دیکھا اس کا سونے کی صورت میں انقلاب ، اسی طرح سمندر کے پانی کا خون یا تیل بن جانایا گھر کے ظروف کا عالم مردوں میں تبدیل ہو جانا یا ایک بوڑھے مرد کا دفعتاً بغیر ماں باپ کے پیدا ہو جانا جائز قرار دیا جائے اور وہ جس کے ہاتھ پر معجزہ ظاہر ہوا وہ مدعی نبوت کے علاوہ ہے ، اس طرح کہ وہ معدوم ہو جاتا ہے اور اس کی مثل موجود ہو جاتا ہے اور اس کے سبب جو امور معاش و معاد (آخرت)میں خبط وخلل جنم لیتا ہے وہ کسی پر چھپا نہیں ، پس اگر اللہ سبحانہ کسی کاذب کے ہاتھ پر معجزہ ظاہر کر دے تو اس معجزہ سے اس کا ذب کے صدق کا اعتقاد عادة متخلف نہ ہوگا اور اس کے صدق کا علم عادی اس کو لازم آتا ہے کیونکہ جس کی طرح عادت بھی ایک ذریعہ علم ہے لیکن کاذب کے صدق کا علم محال ہے اور یہ کہ ( اس طرح یہ ) اظہار معجزہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کاذب کی تصدیق ہے اور کاذب کی تصدیق ، کذب ہے، اللہ تعالی اس بات سے بہت ہی بلند ہے جو یہ ظالم کہتے ہیں ، باقی جادو وغیرہ مسببات کے حصول کے لیے ترتیب اسباب کے قبیل سے ہے ، اس کا خوارق کے ساتھ کوئی علاقہ نہیں، وہ تو حقیقت سے ماوری توہیم و تخیل ہے جو نفس الامر میں غیر متحقق ہے۔ كَسَرَابٍۢ بِقِيْعَةٍ يَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً ۭ حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَهٗ لَمْ يَجِدْهُ شَـيْــــًٔـا ، جیسے صحرا میں سراب کو تشنہ لب اس کا پانی تصور کرتا ہے، جب اس کے پاس جاتا ہے تو اسے کچھ نہیں ملتا۔
پہلا مقالہ جس میں دو مسلک ہیں
مسلک اول
بعثت اور حقیقت نبوت اور اس کی طرف تمام مخلوق کے اضطرار کے بیان میں ہے، جاننا چاہئے کہ جو ہر انسان، اول فطرت میں سادہ و خالی پیدا کیا گیا کہ اس کو اللہ تعالی کے عوالم (عالم کی جمع)کی کوئی خبر نہیں ، عوالم بہت ہی زیادہ ہیں جن کو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا وَمَا يَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّكَ اِلَّا هُوَ ، تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اس کو عوالم کی خبر ادراک کے واسطہ سے ہے ، پس تمام ادراکات میں سے ہر ادراک کی تخلیق محض اس لئے ہوئی کہ اس کی وجہ سے انسان عالم موجودات سے آشنا ہو سکے اور عوالم سے مراد موجودات کے اجناس ہیں ،یہی اولا انسان میں حاسہ لمس پیدا ہوتا ہے، جس کے ذریعے وہ گرمی سردی، تری، خشکی، نرمی اور سختی و غیرھا کا ادراک کرتا ہے اورلمس ، رنگوں اور آوازوں کے ادر اک سے قطعی قاصر ہے، بلکہ یہ ( چیزیں ) لمس کے حق میں معدوم کی مانند ہیں ، پھر اس میں بصارت پیدا ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ رنگوں اور شکلوں کو پہچانتا ہے اور یہ عالم محسوسات میں سب سے زیادہ وسیع ہے ، پھر اس کیلئے سماعت کھل جاتی ہے تو وہ اصوات و نغمات کو سنتا ہے، پھر اس کیلئے قوت ذائقہ پیدا ہوتی ہے، اسی طرح وہ عالم محسوسات سے تجاوز کر جاتا ہے تو اس کے اندر تمیز پیدا ہوتی ہے ، وہ سات سال کے قریب ہوتا ہے اوروہ ان اطوار وجود میں سے ایک طور ہے جس میں وہ محسوسات کے علاوہ امور کا ادراک کرتا ہے ، جس میں سے عالم حس میں کچھ نہیں پایا جاتا، پھر وہ ایک اور درجے پر ترقی کرتا ہے کہ اس کیلئے عقل پیدا ہوتی ہے، پس وہ واجبات ، جائزات ، مستحیلات اور دیگر امور کو پہچانتا ہے جو اس کے پہلے اطوار میں نہیں پائے جاتے عقل کے اوپر ایک اور مقام ہے جس میں اس کی دوسری آنکھ وا ہوتی ہے۔ جس سے وہ غیب کو اور مستقبل میں ہونے والے اور دوسرے امور کو دیکھتا ہے جن سے عقل معزول ہے جیسے قوت حس ، مدرکات تمیز سے معزول ہے اور جیسا کہ کسی اہل تمیز کے سامنے مدرکات عقل پیش کئے جائیں تو وہ انکار کر دے اور ان کو مستبعد(مشکل) جانے ، بالکل ایسے ہی بعض عقلاء نے مدرکات نبوت سے انکار کیا اور ان کو مستبعد جانا اور وہ عین جہالت ہے، اس کیلئے یہ اس لئے مستند نہیں کہ وہ ایسا مقام ہے جہاں وہ نہیں پہنچا اور وہ اس کے حق میں پایا گیا، پس اس نے خیال کیا کہ وہ مقام فی نفسہ موجود نہیں ، وہ اندھا جو تواتر اور تسامع سے رنگوں اور شکلوں کو نہیں جانتا وہ اس کیلئے ابتداً بیان ہوں تو وہ ان کو ہرگز نہ جانے گا اور نہ ان کا اقرار کرے گا ، حالانکہ اللہ تعالی اس کو اپنی مخلوق کے قریب کر دیتا ہے۔
اللہ تعالی نے ان کو خاصہ نبوت کا ایک نمونہ عطا کیا اور وہ نیند ہے۔ جب سونے والا غیب سے جلد ( رونما ) ہونے والے (کام ) ادر اک کرتا ہے ، وہ صریح ہو یا کسوت(لباس) مثال میں ہو تعبیر سے ظاہر ہوتا ہے۔
اور یہ قسم کہ جس کا اگر کسی انسان نے بذات خود تجربہ نہیں کیا اور اس سے کہا جائے کہ کوئی انسان غش کھا کر مردے کی طرح ساقط ہو جاتا ہے اور اس کا احساس سمع اور بصر زائل ہو جاتی ہے ، پس وہ غیب کا ادراک کرتا ہے تو ضرور اس کا انکار کرے گا اور اس کے محال ہونے پر برہان قائم کرے گا اور کہے گا کہ حاسہ کی قوتیں ، ادراک کے اسباب ہیں ، معلوم ہوا کہ جو آدمی اس کے قائم رہنے میں اور ادراک نہیں کر سکتا تو اس کے زوال کے وقت اور زیادہ ادراک نہیں کر سکتا ، اور یہ اس طرح کا قیاس ہے کہ وجود و مشاہدہ اس کا انکار کرتے ہیں، جس طرح عقل آدمی کے اطوار میں سے ایک ایسا طور ہے کہ جس میں ایسی نظر حاصل ہوتی ہے جس ہے وہ معقولات کی انواع کا ادر اک کرتا ہے اور حو اس سے معزول ہو جاتے ہیں اس طرح نبوت ایسے طور سے عبارت ہے جس میں ایسی نظر حاصل ہوتی ہے جس کے نور سے غیب اور ایسے امور ظاہر ہوتے ہیں جن کا عقل ادر اک نہیں کر سکتی اور نبوت میں شک اس کے امکان میں یا اس کے وجود میں واقع ہوگا، حالانکہ اس کا وجود اس کے امکان کی دلیل ہے اور اس کے وجود کی دلیل وہ علوم و معارف ہیں جن کا عقل سے حاصل ہونا مقصود نہیں ، مثال کے طور پر علم طب و نجوم کہ جس آدمی نے ان پر بحث کی اس نے بالضرورت جانا کہ اس کا ادر اک الہام الہی اور اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والی ہے تو فیق کے سوا ممکن نہیں اور اس کی طرف تجربہ کے ساتھ راستہ نہیں کیونکہ بعض احکام نجومیہ ہر ہزار سال کے بعد ایک بار واقع ہوتے ہیں تو یہ تجربہ سے کیسے حاصل ہو سکتا ہے، یہی حالت دواؤں کے خواص کی ہے، اس دلیل سے ثابت ہوا کہ جن امور کا ادراک عقل نہیں کر سکتی ان کے ادراک کے طریق کا وجود ممکن ہے اور یہاں نبوت سے یہی مراد ہے ، نبوت اسی پر عبارت ہے ، بلکہ مدرکات عقل سے خارج جنس کا ادر اک خواص نبوت میں سے ایک خاصہ ہے، اس کے علاوہ نبوت کے اور بھی بہت زیادہ خواص ہیں جن کو ہم نے بیان کیا ہے، تمہارے مدرکات میں سے نیند اس کا نمونہ ہے اور تمہارے ہاں طب و نجوم کی طرح کے بہت سے علوم اس جنس سے ہیں اور یہ انبیا کرام علیہم السلام کے معجزات ہیں جن کی طرف عقلاء کیلئے بضاعت عقل کے ذریعے اصلا کوئی راستہ نہیں اور ان کے علاوہ جو دیگر خواص نبوت ہیں ان کا ادراک ہم جس ذوق کے ساتھ کرتے ہیں وہ طریق تصوف کے سلوک اور اولیا اللہ کے راستے سے ملتا ہے، لیکن یہ ایک خاصہ اصل نبوت پر تمہارے ایمان (کی پختگی ) کیلئے تمہیں کافی ہے ، جیسا کہ امام غزالی رحمۃ اللہ نے اپنی ” المنقذ من الضلال” نامی کتاب میں بیان فرمایا، فلاسفہ نے کہا کہ بعثت حسنہ ہے کہ یہ بہت سے فوائد پر مشتمل ہے جیسے عقل کو ان امور میں تقویت دینا جو معرفت عقل کے ساتھ مستقل ہیں مثلا وجود باری اور اس کا علم و قدرت اور نبی سے حکم کا استفادہ جس میں عقل مستقل نہیں جیسے کلام ، رؤیت، معاد جسمانی لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللّٰهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ، تا كہ رسولوں کی بعثت کے بعد اللہ پر لوگوں کے لئے کوئی حجت نہ رہے ۔
اور اللہ کے ملک میں اس کے اذن کے بغیر تصرف کے خوف کا ازالہ جو حسنات سے پیدا ہوتا ہے اور ان کے ترک کرنے پر کہ وہ ترک اطاعت ہے اور افعال میں حسن و قبح کا استفادہ کہ جو کبھی حسن ہوتے ہیں اور کبھی قبیح بغیر اس کے کہ عقل ان کے مواقع کی طرف راہنمائی کرے اور اغذیہ وادویہ کے نفعوں اور نقصانوں کی معرفت جس کو تجر بہ مختلف ادوار اور اطوار کے بعد خطرات میں ڈوب کر حاصل کرتا ہے اور نوع انسانی کی حفاظت کہ انسان مدنی الطبع ہے اور تعاون کا محتاج ہے اس لئے ایسی شرع کا ہونا ضروری ہے جس کو شارع فرض کرے، وہ مطاع ہو اور نفوس بشریہ کا ان کی مختلف استعدادوں کے مطابق علمیات اور عملیات میں تکمیل کرنا ، حاجات اور ضروریات اور اخلاق فاضلہ میں سے حقیقی صنائع کی تعلیم دینا، جن کا تعلق اشخاص سے ہے اور سیاسیات کا ملہ کی تعلیم دینا جن کا تعلق ”منازل ومدن“ کی جماعتوں سے ہے اور عذاب وثواب کی خبریں دینا جو حسنات کی ترغیب اور سئیات سے تحذیر کا درس دیتی ہیں، وغیر وذالک۔
یہ پوشیدہ نہیں کہ اس کلام سے بعثت کا وجوب سجائی دیتا ہے، لہذا حسن سے مراد وہ امر ہے جو واجب کو بھی شامل ہے، اس کی حمایت اس سے ہوتی ہے کہ بعض مواقع میں اس کی صراحت موجود ہے کہ بعثت واجب ہے،( یہاں ) بعثت کے منکروں نے کچھ اعتراض کئے ہیں:
پہلا اعتراض:
مبعوث لازمی طور پر جانتا ہے کہ اس سے یہ کہنے والا کہ ” میں نے تجھے بھیجا ہے، پس تو میری طرف سے پہنچادے ، وہ اللہ ہے اور اس علم کا کوئی طریق نہیں ، کیونکہ ہوسکتا ہے( یہ علم) اسے جن کے القا سے ہوا ہو اور تمہارا اس کے وجود پر اجماع ہے۔
جواب: بھیجنے والا اس پر دلیل قائم کر دیتا ہے جس کے ساتھ رسول جان لیتا ہے کہ اسے، ارسلنک، ہم نے تجھے بھیجا کہنے والا اللہ ہے، کوئی جن نہیں ہے، اس کے ساتھ اللہ سبحانہ آیات و معجزات کو ظاہر کرتا ہے جن سے تمام مخلوقات قاصر ہوتی ہیں ، یہ بات اس کیلئے اس علم کو مفید کرتی ہے یا پھر اللہ اس میں اس بات کا علم ضروری پیدا کرتا ہے کہ بھیجنے والا اور کہنے والا وہی اللہ ہے۔
دوسرا اعتراض :
جو نبی کی طرف وحی کرتا ہے اگر وہ جسمانی ہے تو واجب ہے وہ مرئی ہو کہ حال القا کے وقت سب حاضرین کو دکھائی دے اور ایسا ہر گز نہیں ہوتا ، جیسا کہ تم بھی اس کا اعتراف کرتے ہو اور اگر وہ جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے تو اس سے بطریق تکلم وحی کا القا محال ہے کیونکہ روحانیت کیلئے کلام کا تصور نہیں ۔
جواب: شق اول کی بنا پر جواب یہ ہے کہ ملازمت( یعنی جسمانی ) نظر آنا ہی تسلیم نہیں، کیونکہ یہ جائز ہے کہ اللہ تعالی حاضرین کیلئے اس کی رؤیت پیدا نہ فرمائے ، اس کی قدرت کسی چیز سے قاصر نہیں اور یہ مخفی نہیں کہ حاضرین کے لیے اس کی رؤیت کے پیدا نہ کرنے کو جائز قرار دینا اس کے باوجود کہ یہ فی نفسہ ممکن ہے اور قدرت خدا میں ہے ، یہ اس امر کے جائز ہونے کو مستلزم ہے کہ ہمارے سامنے بلند پہاڑ اور عظیم شہر ہوں جن کو ہم نہ دیکھ سکیں اور ان کے طبوق و طبول کو نہ سن سکیں ، یہ سلسلہ ہے، میں کہتا ہوں کہ اللہ سبحانہ اعلم کہ القا کرنے والا جسمانی لطیف و شفاف ہے اور وہ فرشتہ ہے اور شفاف جسم کی رؤیت غیر معتاد(عادی) ہے، جیسے آسمان ، پس یہاں کے سفسطہ(باطل استدلال) لازم نہیں آتا بلکہ وہ اس طرح لازم آتا ہے کہ جسم کثیف کی عدم رویت کو جائز قرار دیا جائے ، کیونکہ یہ خلاف عادت ہے، لہذا غور کرنا چاہئے، اور ہم شق دوم کی بنا پر یوں جواب دیتے ہیں کہ روحانی ایک لطیف و شفاف صورت میں متمثل ہو اور رسول اس کا کلام سنتا ہو جو کہ اللہ سبحانہ کی وحی ہے جیسا کہ گزرا تو اس میں کوئی اشکال نہیں ، پس غور کرنا چاہئے ۔
تیسرا اعتراض:
رسالت کی تصدیق وجود مرسل کے علم پر موقوف ہے اور اس علم پر ہے کہ کونسی چیز اس پر جائز اور کونسی نا جائز ہے یہ علم دقت نظر کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا ، اور اس علم کی طرف پہنچانے والی اس نظر کیلئے معین زمانہ دن یا سال کا اندازہ نہیں ہو سکتا بلکہ وہ اشخاص و احوال کے اعتبار سے مختلف ہو گی پس مکلف کو حق ہوگا کہ حصول نظر کیلئے مہلت طلب کرے اور کسی وقت بھی عدم علم کا دعوی کرے تو اس طرح نبی کا انجام لازم آئے گا اور بعثت فضول ہوگی اور اگر اللہ تعالی نے اس کو مہلت مانگنے کا اختیار نہیں دیا بلکہ اس پر بغیر مہلت کے تصدیق واجب کردی ، اس سے تکلیف مالا یطاق لازم آئے گی ، اس لئے کہ تصدیق رسالت علم مذکور کے بغیر ان امور سے ہے جن کا وجود متصور نہیں، پھر وہ عقلی طور پر قبیح ہے ، اسلئے حکیم تعالی سے اس کا صدور ممتنع (ممنوع)ہے۔
جواب:مہلت دینا ضروری نہیں ہم پہلے وضاحت کر چکے ہیں کہ جب اس نے رسالت کا دعوی کیا اور اس کے دعوی کے ساتھ معجزہ بھی رونما ہوا جو خارق عادت(معجزہ،کرامت) ہے تو متابعت بلا مہلت واجب ہوگی ۔ اس لئے کہ ظہور معجزہ کے وقت صدق رسول کا علم عادی حاصل ہو جاتا ہے۔ پس غور کرنا چاہیئے۔
چوتھا اعتراض
بعثت تکلیف سے خالی نہیں اس لئے کہ بعثت کا یہی فائدہ ہے اور تکلیف کئی وجوہ کے ساتھ ممتنع (ممنوع)ہے۔ اولا یہ جبر کو ثابت کرتی ہے، اسلئے کہ بندے گا فعل اللہ تعالی کی قدرت سے واقع ہوتا ہے تمہارے ہاں بھی بندے کی قدرت موثر نہیں اور غیر کے فعل سے تکلیف تکلیف مالا یطاق(طاقت سے باہر) ہے۔
جواب بندے کی قدرت اگر چہ غیر مؤثرہے لیکن فعل کے ساتھ اس کا تعلق(ضر ور ) ہوتا ہے جس کانام کسب ہے اس اعتبار سے اس کو تکلیف دینا جائزہے۔ یہ تکلیف مالا یطاق نہیں ثانیا تکلیف بندے کیلئے نقصان دہ ہے اس لئے کہ فعل کی مشقت اور اس کے ترک پر عذاب کی مشقت کو لازم کرتی ہے نقصان پہچانا قبیح ہے اور اللہ تعالی اس سے منزہ ہے۔
جواب:بے شک تکلیف میں جو دنیوی واخروی مصالح ہیں وہ اس کی مضرت سے کہیں زیادہ ہیں اس کی تحقیق بہت جلد آئے گی اور خیر کثیر کا شرقلیل کیلئے چھوڑ نا ہرگز جائز نہیں۔
ثالثاً : تکلیف میں جو مشقت ہے وہ یا کسی غرض کے بغیر ہوگی ، ایسا ہے کا تو عبث صحیح ہے یا غرض ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جاتی ہے اور وہ اللہ تعالی تمام اغراض سے منزہ ہے، یا بندے کی طرف جاتی ہے اور وہ نقصان ہے تو یہ بالا جماع منتف(مسترد) ہے، یا نفع ہے تو حصول نفع کی تکلیف اور اس کے عدم پر تعذیب معقول کے خلاف ہے ، اس لئے کہ یہ اس کے بمنزلہ ہے کہ اس مکلف سے کہا جائے کہ اپنی ذات کیلئے منفعت حاصل کرو ورنہ تجھے ہمیشہ کیلئے عذاب دوں گا۔
جواب:یہ اس بات کی فرع ہے کہ عقل نے اس کے حسن اورقبح ہونے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے افعال میں غرض کا وجوب تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو ہم نے اس کے موضع پر باطل کر دیا ہے، نیز تکلیف اس غرض کیلئے ہے جس کا بندے کے ساتھ تعلق ہے یعنی (اس کا) دنیوی اور اخروی منافع ہے جو افعال کی گونا گوں مشقتوں کی تکلیفوں سے کہیں زیادہ ہے اور عذاب اس لئے نہیں کہ اس نے منفعت حاصل نہیں کی بلکہ اس لئے ہے کہ اس نے اپنے مولا اور سردار کا حکم نہیں مانا اور اس میں اس کی اہانت ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالی زیادہ جانتا ہے کہ اب معترض کہے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اس علم کے ہوتے ہوئے کہ وہ اس کی اطاعت نہیں کرے گا اور نہ اسکے ذریعے سے کوئی فائدہ اٹھائے گا ، اس کو تکلیف ہی کیوں دی ، تو یہ اس کیلئے نقصان ہی تو ہے اور یہ قبیح ہے، اس کا جواب اس طرح ممکن ہے کہ تکلیف اگر چہ اس نسبت سے اس کی طرف نقصان ہے، مگر جیسا کہ گزر چکا، بہت ہی زیادہ خیر کیلئے تھوڑانقصان اٹھانا عقلی طور پر جائز ہے، پس یہ قبیح نہیں ہوگا، معتزلہ نے کہا ہے کہ کافر کی تکلیف میں فائدہ ہے کہ وہ ثواب کیلئے تعریض (طعنہ)ہے، ( ثواب نہیں) کیونکہ ثواب تو تکلیف دینے والے کی اطاعت کا فائدہ ہے اور یہ اس کے قریب ہے جیسا کہ مثال میں کہا گیا کہ کوئی آدمی کسی آدمی کو اپنے طعام کی دعوت دے اور اسے علم ہو کہ وہ اسے قبول نہ کرے گا اور وہ اس کیلئے مختلف تا دب و تلطف کے طریقے استعمال کرے اور جب داعی تادب کا یہ طریقہ نہ اپنائے گا تو وہ اپنے فرض میں ناقص ہوگا۔
بعثت و شرائع کی حکمت
اس جگہ یہ زیادہ مناسب اور بہت مفید ہے کہ حکمائے اسلام کا فرمان بیان کیا جائے ، بے شک تکلیف حسن ہے ، اس کا بیان تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرح تخلیق فرمایا کہ وہ اپنے معاشی امور میں مستقل نہیں ، اسے غذا ولباس ، مسکن و سلاح وغیرہ اشیاء کی احتیاج ہے جو سب صناعی ہیں ، ان اشیا پر کوئی ایک صانع اپنی مدت حیات میں قادر نہیں، یہ کام تو ایک جماعت کو میسر ہو گا کہ آپس میں مدد کریں اور ان اشیاء کی تحصیل میں مشارکت اپنا ئیں ، یوں ہر کوئی اپنے ساتھی کیلئے عمل کرے ، مثلاً ایک دوسرے کیلئے کپڑا بناتا ہے تو دوسرا اس کیلئے سوئی فراہم کرتا ہے، اس پر تمام امور کو قیاس کیا جائے ، پس امر معاش بنی نوع انسان کے اجتماع سےمکمل ہوتا ہے ، اسی لئے تو کہا گیا ہے کہ انسان مدنی الطبع ہے اور ان کی اصطلاح میں تمدن اس اجتماع سے عبارت ہے اور یہ اجتماع کی اس وقت منتظم ہو گا جب ان کے درمیان معاملہ اور عدل ہوگا ، کیونکہ ہر آدمی کو اس شے کی آرزو ہوتی ہے جس کا وہ محتاج ہوتا ہے اور وہ اس کے (حصول ) میں مزاحم ہونے والے پر ناراض ہوتا ہے اور اس طرح وہ دوسرے پر ظلم کی دعوت دیتا ہے تو اس طرح حرج واقع ہوتا ہے، امر اجتماع اور نظام معیشت میں خلل ڈالتا ہے، عدل و معاملہ کیلئے لا تعداد جزئیات ہیں جو وضع قوانین کے بغیر منضبط نہیں ہو سکتیں اور یہی سنت و شرع ہے ، پس کسی شارع کا ہونا نہایت ضروری ہے، پھر اگر وہ وضع سنت ، وضع و شرع میں تنازعہ کریں تو ضرور حرج واقع ہوتا ہے ، اس لئے یہی مناسب ہے کہ شارع ، اطاعت کے استحقاق میں ان سے ممتاز ہوتا کہ تمام لوگ سنت و شرع کے قبول میں اس کی پیروی کریں اور یہ استحقاق اس وقت متصور ہوگا جب وہ ایسی آیات کے ساتھ مخصوص ہو جو اس پر دلالت کرتی ہوں کہ وہ واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کی ہے اور یہی وہ معجزات ہیں، پھر جمہور لوگ احکام شریعت کو حقیر جانتے ہیں جب کہ ان پر ان کی مشتہیات(خواہشیں) کا شوق غالب ہو لہذ اوہ معصیت اور شرع کی مخالفت پر قدم اٹھاتے ہیں ، چنانچہ جب اطاعت گزار کیلئے ثواب ہو اور نا فرمان کیلئے عذاب تو خوف اور امید ان کو اطاعت پر اور ترک معصیت پر آمادہ کریں گے ، گویا انتظام شریعت اس کے اعتبار سے اقویٰ ہے جب کہ ایسا نہ ہوتا ، پس ان پر شارع اور مجازی ( بدلہ دینے والے ) کی معرفت واجب ہے اور ایسے سبب کا وجود ضروری ہے جو اس معرفت کا احاطہ کرے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ صاحب شرع اور مجازی کیلئے عبادات مذکورہ مشروع ہوئیں اور ان پر تکرار ہوا کہ تکرار کی بدولت تذکر مضبوط ہو جائے ، اس صورت میں یہی درست ہے کہ شارع اس خالق کی تصدیق کا داعی ہو جو علم والا اور قدرت والا ہے۔ اور شارع پر ایمان لانے کی دعوت دے جو اس خالق کی طرف سے ان کی طرف سچا رسول ہے اور وعدو وعید ، ثواب و عقاب اخروی کی دعوت دے اور عبادات کے ساتھ قیام کی دعوت دے جن میں خالق کا ذکر اس کی صفات جلال کے ساتھ ہو اور اس سنت کے انقیاد کی طرف بلائے جس کی طرف تمام انسان اپنے معاملات میں محتاج ہیں حتی کہ اس دعوت کے ذریعے وہ عدل جاری ہو جائے جو امور نوع کے انتظام کو قائم کرنے والا ہے، اس سنت کا استعمال تین امور میں نافع ہے۔
اول قوائے نفسانیہ کی ریاضت جو اسے شہوت کے معانقے اور غضب سے ہے اور جناب قدس کی طرف نفس ناطقہ کی توجہ سے مانعہ ہے ۔
دوم امور عالیہ مقدسہ میں خوب نظر ڈالنا جو عوارض عادیہ اور کدورات حسیہ سے ملکوت کے ملاحظہ کی طرف مدد کرنے والے ہیں۔ سوم: شارع کے انذارات اورمحسن کیلئے اس کے وعدے اور بد کار کیلئے اس کی وعید کا ذکر کرنا جو( ذکر ) دنیا میں قیام عدل اور آخرت میں مزید اجر و ثواب کو مستلزم ہے، یہ ان ( حکماء ئے اسلام ) کا کلام ہے، اس کے قریب ہی وہ ہے جو معتزلہ نے کہا ہے کہ تکلیف عقلاً واجب ہے، اسلئے کہ قبائح کے ارتکاب سے روکتی ہے ، چونکہ انسان طبیعت کے تقاضا کے مطابق شہوات و مستلذات کی طرف میل رکھتا ہے، پس جب اسے علم ہوگا کہ وہ حرام ہیں تو وہ ان سے باز آجائے گا اور قبائح سے باز آنا واجب ہے۔
رابعاً: تکلیف جو کہ فعل کے وجود کے ساتھ ہوگی اور اس میں اس کے وجوب اور صدور کے تعین کیلئے اصلاً کوئی فائدہ نہیں، پس یہ تکلیف کے امتناع کی وجوہات سے عبث قبیح ہے اور یہی حال اس وقت بھی ہے جب تکلیف فعل کے بعد ہو، کیونکہ یہ تحصیل حاصل کی تکلیف ہے اور اگر تکلیف وجود فعل سے قبل ہو تو یہ تکلیف مالا یطاق ہے کہ فعل سے پہلے محال ہے، کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ چیز کا وجود اس کے حال عدم میں( واقع ) ہو ۔
جواب:ہمارے نزدیک فعل کے ساتھ قدرت اور اس کے ساتھ تکلیف اس حالت میں محال کے ساتھ تکلیف نہیں جو تحصیل حاصل (متصور ) ہو اور یہ اس وقت ہو گی اگر کوئی فعل اس تحصیل سے پہلے حاصل ہو جس تحصیل میں وہ ملتبس( مشغول ) ہے اور ایسا ہر گز نہیں، بلکہ وہ تو اس تحصیل کی بدولت حاصل ہے ، اس کے علاوہ ہم یہ کہتے ہیں کہ تکلیف احداث کی طرح ہے، پس کہا جاتا ہے کہ اس کا احداث یا تو اس کے وجود کے حال میں ہوگا تو یہ تحصیل حاصل ہے اور یا اس کے عدم کے حال میں ہو گا تو یہ نقیضین(دوضدیں) کا اجتماع ہے اور احداث ہیں جن میں کوئی شک نہیں، پس جو تمہارا جواب احداث کے بارے میں ہوگا وہی ہمارا جواب تکلیف کے بارے میں ہوگا۔ معتزلہ نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ فعل سے قبل تکلیف ، وہ تکلیف نہیں جو مالا یطاق ہو، اسلئے کہ فی الحال تکلیف حال ثانی میں واقع کرنے کی ہے نہ کہ اسی حال میں واقع کر نے کی کہ نقیضین یعنی وجود و عدم کے درمیان اجتماع سمجھا جائے جیسا کہ کافر کی تکلیف فی الحال یہ ہے کہ وہ حال ثانی میں ایمان کو واقع کرے اور اس میں نظر ہے، اس لئے کہ اگر وہ حال ثانی میں کفر کو جاری رکھے تو اس میں ایمان پر قدرت نہیں اور اگر ایمان سے بدل ڈالے تو اس کا وہ مکلف نہیں ، اسلئے کہ تحصیل حاصل کی تکلیف محال ہے ، اس کا جواب اسی طرح ممکن ہے کہ تکلیف کا تعلق نہیں ہوتا مگر اس کے ساتھ جو مقدور ہے اور اس سے لازم ہے کہ جس چیز کا وہ مکلف ہے وہ اس کے وجود کے زمانے میں مقدور ہو اور باقی رہا قدرت کا تکلیف کو جامع ہونا تو یہ مراد نہیں اور یہ کہ تحصیل حاصل کے ساتھ تکلیف تب محال ہے جب دوسری تحصیل کی تکلیف دی جائے نہ کہ اس تحصیل کی جیسا کہ گزر چکا ہے، پس اگر تم یہ کہو کہ حال ثانی میں کفر کا استمرار ان کے نزدیک ایمان پر اس کی قدرت کے منافی نہیں کہ ایمان ، ان کے گمان میں حال کفر میں بھی مقدور ہے کیونکہ قدرت فعل سے قبل ثابت ہے تا کہ کافر کی تکلیف بالایمان صحیح ہو سکے ، اس وجہ سے کہ غیر مقدور کیلئے تکلیف غیر واقع ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا اللہ تعالی ہر جان کو اس کی وسعت کے مطابق تکلیف دیتا ہے۔ اس طرح شق اول کو بھی اختیار کر لیا جائے تو جواب درست ہو سکتا ہے، جیسا کہ تم دیکھ لوگے، پس میں کہتا ہوں کہ اللہ سبحانہ بہتر جانتا ہے، ناظر کی مراد یہ ہے کہ حال ثانی میں کفر کے استمرار پر ایمان اس وقت بھی غیر مقدور ہے، کیونکہ یہ عدم اور وجود کا جمع ہونا ہے لہذا ان کے اس اعتذار کا کوئی فائدہ نہیں کہ تکلیف فی الحال حال ثانی میں واقع کرنے کی ہے، چنانچہ اس وجہ سے شق اول کو اختیار کر لیا جائے تو بھی جواب ممکن نہیں ، جیسا کہ مخفی نہیں ، پس غور کیا کرو۔
خامساً: بعض ملاحدہ سے منقول ہے کہ افعال شاقہ بدنیہ کے ساتھ تکلیف ، باطن کو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی واجب اور جائز صفات اور ممتنع (ممنوع)افعال میں تفکر کرنے سے روکتی ہے، بیشک اس غایت سے مصلحت متوقعہ مذکورہ امور میں وہ نظر ہے جو مکلف بہ امور کی متوقع غرض سے کہیں زیادہ ہے، پس( تکلیف ) عقلی طور پرممتنع ہے۔
جواب:اللہ سبحانہ وتعالی کی معرفت میں تفکر ہی تو تکلیف کا مقصد اقصی ہے اور ساری تکالیف اس پر مدددگار ہیں ، اس کی طرف داعیہ ہیں اور اصلاح معاش کی طرف وسیلہ ہیں اور مشوشات (پریشانیاں)سے اوقات کی صفائی میں اعانت کرتی ہیں جو تکالیف کے شغل پر اپنے شغل کا اضافہ کرتی ہیں۔
پانچواں اعتراض:
بے شک عقل میں بعثت کی طرف سے ” مند وحت وکفایت ہے، پس اس میں کوئی فائدہ نہیں ، ان کی دلیل یہ ہے کہ جس کے حسن پر عقل جو حکم کرے اس پر عمل ہو گا اور جس کے قبح پر جو عقل کا حکم ہے اس کو چھوڑا جائے اور جس کے حسن و قبح پر کوئی فیصلہ نہ کر سکے تو حاجت کے وقت اس پر عمل کیا جائے ، کیونکہ حاجت تو حاضر رہتی ہے، لہذا اس حاجت کا اعتبار واجب ہے کہ اس کے فوت ہونے کے نقصان کو دفع کیا جا سکے اور محض نقصان کا احتمال اس کی قباحت کی تقدیر پر اس کے معارض نہیں اور اس حاجت کے عدم کی صورت میں احتیاطا اس کو ترک کر دے کہ موہومہ نقصان دفع ہو جائے ۔
جواب: حسن وقبح کے بارے میں حکم عقل کو تسلیم کرنے کے بعد یہ کہ بے شک شرع بعثت سے مستفاد ہے، اس کا فائدہ اس کی تفصیل ہے، جو اس کوعقل نے اجمالاً حسن و قبح اور منفعت و مغفرت کے مراتب عطا کئے ہیں اور وہ بیان ہے جس سےعقل ابتدا قاصر ہے کیونکہ عقل کے حکم کو ماننے والے ہرگز ان افعال کا انکار نہیں کرتے جن میں عقل کا کوئی حکم نہیں چلتا ، جیسا کہ عبادات کے وظائف ، حدود کی تعیین اور مقادیر اور نفع و نقصان دینے والے افعال کی تعلیم (میں عقل قاصر ہے ) اور نبی شارع ، طبیب حاذق کی طرح ہوتا ہے جو ادویہ اور ان کی طبائع اور خواص کو جانتا ہے، جن کی معرفت عام لوگوں کیلئے ممکن ہے تجربہ کے ساتھ طویل زمانے میں ممکن ہے، اس میں وہ ان کے فوائد سے محروم رہتے ہیں اور ان کے استعمال سے پہلے ہی وہ ممالک میں مبتلا ہو جاتے ہیں کیونکہ اس عرصے میں وہ ایسی ادویات بھی استعمال کریں گے جو ان کے لئے مہلک ہوں گی اور وہ اس کو نہیں جانتے ، پھر ان امور کے ساتھ ان کے مشغول ہونے سے نفس کا اتعاب (تھکاوٹ)ضروری صناعات کا تعطل اور مصالح معاش سے اعراض لازم آتا ہے، جب وہ طبیب کی جانب سے مطمئن ہو گئے تو بوجھ ہلکا ہو گیا اور اس سے فائدہ اٹھا گئے اور ان امور کے نقصانات سے محفوظ رہے، پس جس طرح مذکورہ امور کی معرفت کے امکان کے باجود طبیب سے بے نیاز نہیں ہوا جا سکتا اس طرح تکالیف اور احوال افعال کی معرفت کے امکان کے باوجود ان میں عقل کے تامل کے ساتھ مبعوث سے بے نیازی کیسے روا ہے، جب کہ نبی وہ کچھ جانتا ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے ہوتا ہے، بخلاف طبیب کہ صرف فکر و تجربہ کی وجہ سے ان جمیع ( امور ) کی طرف توصل ( ملاپ)ممکن ہے جو کہ وہ جانتا ہے، پس جب کوئی اس( طبیب) سے مستغنی نہیں ہو سکتا تو نبی اس سے اولی ہے( کہ اس سے مستغنی نہ ہو اجائے ) اس میں اثبات نبوت اور حسن تکلیف میں مذہب حکماء کی بیان کردہ تقریر اور اس کلام کاتتمہ ہے۔
چھٹا اعتراض:
معجزہ ممتنع ہے کیونکہ وہ خرق عادت ہے اور اس کا جواز سفسطہ(باطل استدلال) ہے لہذا وہ نبوت کو ثابت نہیں کرتا۔
جواب:بے شک خرق عادات آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے،کی تخلیق اول سے زیادہ عجیب نہیں اور بعض صورتوں میں عدم وقوع خرق کا یقین فی نفسہ اس کے امکان کے منافی نہیں، اس کے علاوہ انبیا کرام اور اولیا ءعظام سے خرق عادت ، عادت مستمرہ ہے جو ہر زمانہ میں پائی جاتی ہے، پس عاقل منصف کیلئے اس کا انکار ممکن نہیں، بلکہ ہم متکلمین (وہ علما جو مذہبی امور کو عقلی دلائل کے ساتھ ثابت کرنے کے ماہر ہوں) ) تو کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک معجزہ وہ چیز ہے جس کے ساتھ مدعی رسالت کی تصدیق ہو ا گر چہ وہ خرق عادت نہ ہو ۔
میں کہتا ہوں کہ اس میں نظر ہے، اسلئے کہ یہ اس امر کے منافی ہے جو شرائط معجزہ میں گزر چکا ہے کہ فرق عادت معجزہ میں شرط ہے ، اگر یہ نہ ہو تو معجز و دیگر امور معتادہ(عادی) کی طرح صدق پر دلالت نہیں کر سکتا، پس تم غور کرو ۔
ساتواں اعتراض:
ظہور معجز ہ صدق پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ اس کا احتمال ہے کہ یہ اس کا فعل ہو، اللہ تعالی کا فعل نہ ہو، جیسا کہ جادوگر اور امور فخریہ میں اس کی حقیقت و تاثیر پر تم سب کا اجماع ہے یا طلسم کی وجہ سے، جس کی معرفت سے وہ خاص ہوتا ہے۔
جواب:تجویزات عقلیہ علم عادی کے منافی نہیں ہو تیں جیسا کہ محسوسات میں ہوتا ہے کیونکہ ہم یقین کرتے ہیں کہ جسم معین کا حصول اس کے عدم کے فرض کو منع نہیں کرتا ، اس کا بدل اس کے حصول کے یقین کے ساتھ ایسا یقین ہے جو واقع کے مطابق ہے اور ایسے ثابت ہے کہ اس کی طرف جس کا کوئی شبہ نہیں نکلتا جو کہ اس کا مضبوط شہادت کے ساتھ شاہد ہے اور عادت بھی حس کی طرح علم کا ایک طریقہ ہے، پس جائز ہے کہ جس طرح حس کسی شے کا یقین کرتی ہے ایسے عادت کی جہت سے اس کا یقین کیا جائے ، اس کے باوجود کہ فی نفسہ اس کے نقیض(ضد) کا امکان ہے، اپنے موضع پر روشن ہو چکا ہے کہ وجود میں موثر صرف اللہ ہے، پس معجزہ اسی کا فعل ہے، مدعی کا نہیں اور سحر وغیرہ اعجاز کی اس حد تک نہیں پہنچ سکتے جیسا کہ سمندر کا پھاڑنا ، مردوں کو زندہ کرنا ، اندھوں اور برص والوں کو شفا دینا ، تو ظاہر ہوا کہ معجزہ کے ساتھ سحر کا التباس نہیں ہوتا تو کوئی اشکال نہیں اور اگر حد اعجاز کو پہنچے تو یہ دعوی نبوت اور تحدی (مقابلہ)کے بغیر ہوگا تو پھر ظاہر ہوا کہ اس میں التباس نہیں ، یا پھر ان دونوں کا دعوی کرے تو یہاں ان دونوں صورتوں میں ایک کا ہونا ضروری ہے، ایک تو یہ کہ اللہ اس کو اس کے ہاتھ پر تخلیق نہ فرمائے گا یا یہ کہ اس کے سوا کوئی دوسرا آدمی اس کے معارضہ(تنازع) پر قادر ہوگا اور اگر دونوں صورتیں نہیں تو کاذب کی تصدیق ہوگی اور وہ کذب ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پر محال ہے۔
آٹھواں اعتراض:
جس نے مشاہدہ نہ کیا ہو اس کیلئے حصول معجزہ کا علم تواتر سے ہی ممکن ہے اور وہ علم کو مفید نہیں ، پس کسی کی نبوت کا علم اسے حاصل نہیں ہو سکتا جس نے اس کا معجزہ نہ دیکھا اور تو اتر اس لئے علم کو مفید نہیں کہ اہل تو اتر میں سے ہر کسی پر کذب کا جواز( ممکن ) ہے تو اس طرح کل پر کذب کا جواز ممکن ہوا کیونکہ کل کا کذب (ان میں سے ) ہر ایک کا کذب ہے۔
جواب: کل ہونے کی حیثیت سے کل کے حکم اور واحد کے حکم میں مساوات نہیں بنتی اس لئے کہ دیکھا جاتا ہے کہ دس آدمی( ایک چیز کی ) تحریک پر قادر ہیں جبکہ اس پر ہر ایک شخص اکیلے قادر نہیں ۔
نواں اعتراض:
انہوں نے کہا کہ ہم نے شرائع کی اتباع کی تو ہم نے ان کو ان( امور ) پر مشتمل پایا جو محل و حکمت سے موافق نہیں، ہم نے جان لیا کہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہیں، وہ جیسا کہ حیوان کے ذبح کی اباحت اور طعام کی منفعت کو حاصل کرنے کیلئے تھے اسے تکلیف دینا وغیرہ اور ایام معینہ میں بھوک اور پیاس کو برداشت کرنے کے ایجاب اور ان لذتوں سے روکنا جن سے بدن کی صلاح ہے اور افعال شاقہ اور بعض مواضع کی زیارت کیلئے میدانوں کو طے کرنے کی تکلیف، بعض کا وقوف بعض کی سعی اور بعض کا طواف حالانکہ وہ مقامات ایک ہیں، مجنوؤں اور بچوں کی طرح ہونا کہ ننگے پیر اور ننگے سر رہنا اور غیر موجود کی طرف رمی کرنا ، ایک پتھر کو چومنا جس کی سارے پتھروں پر کوئی فضیلت نہیں اور مثلاً آزاد خوبصورت عورتوں کی طرف دیکھنے کو حرام کرنا اور حسین لونڈیوں کی طرف دیکھنے کو جائز ٹھہرانا۔
جواب:حسن وقبح کے بارے میں حکم عقل کو اور اللہ تعالیٰ کے افعال میں غرض کے وجوب کو تسلیم کرنے کے بعد جواب یہ ہے کہ بے شک ان مذکورہ صورتوں میں غایت درجہ یہی ہے کہ ان کی حکمت کی واقفیت نہیں ، اس سے یہ لازمی نہیں کہ نفس الامر میں کوئی حکمت موجود نہیں ہوتی ، بہت ممکن ہے کہ وہاں کوئی ایسی مصلحت ہو جس کا علم اللہ تعالی کیلئے خاص ہو اور ہم یہ پہلے واضح کر چکے ہیں کہ بے شک عقل سے اوپر ایک طریقہ ہے جس میں ایک ایسی آنکھ کھلتی ہے جس سے آدمی کی غیب اور مستقبل میں ہونے والے ان امور کو مشاہدہ کر لیتا ہے جن سے عقل معزول ہوتی ہے، جس طرح کہ قوت حس ، مدرکات تمیز سے قاصر ہے اور میں اس کی مزید تحقیق مسلک ثانی کی ابتداء میں عنقریب رقم کروں گا، ان شاء اللہ تعالی ۔
مسلک ثانی
خاتم الانبیاء ﷺکی نبوت کے اثبات میں
جان لو! کہ بعض امور کے ایسے خواص ہوتے ہیں کہ نگاہ عقل اس کے حوالی(ساتھی) کا ہر گز احاطہ نہیں کر سکتی ، ہو سکتا ہے عقل ان کے کذب پر حکم لگا دے اور ان کو محال سمجھے، لہذا چاہئے کہ ہم ان امور کے امکان بلکہ ان کے وجود پر دلیل قائم کریں، پس ہم کہتے ہیں کہ افیون ایک دانق کے وزن برا بر سم قاتل ہے، اس لئے کہ وہ اپنی ٹھنڈک کے سبب رگوں میں خون کو سرد کر دیتی ہے، جو آدمی طبعی علم کا دعویدار ہے وہ گمان کرتا ہے کہ سب سے بارد مرکب پانی اور مٹی کا مرکب ہے، یہ دونوں عنصر بارد ہیں اور یہ معلوم ہے کہ کئی سیر آب و خاک باطن میں اس حد تک اپنی تبرید (ٹھنڈک)کو نہیں پہنچتے اور اگر کسی طبیعی کو اس کی خبر دی جائے ، اس نے اس کا تجربہ نہ کیا ہو تو کہے گا کہ یہ محال ہے اور اس کے استحال (محال، ناممکن)پر دلیل یہ ہے کہ ہے شک اس افیون میں ناریت اور ہوائیت دونوں تاثیریں موجود ہیں اورسبھوں میں آب و خاک سے اندازہ قائم کیا جائے تو تبرید میں اس قدر افراط لازم نہیں آتا اور اگر اس میں دو گرم چیزیں (نارو ہوا )ضم کی جائیں تو بدرجہ اولی ٹھنڈک پیدا نہ ہو گی اور یہ ہے ہماری دلیل طبیعیات والہیات کے بارے میں فلاسفہ کے اکثر دلائل اسی قسم کے ہیں کیونکہ انہوں نے تمام امور کا تصور اس کے مطابق کیا ہے جیسا کہ انہوں نے (انہیں) پایا اور سمجھا ہے اور جسے انہوں نے نہیں سمجھا تو اس کا محال ہو نا فرض کر لیا، اسی صورت میں ایک شخص ہے خوابوں سے مالوف ( مانوس )نہیں ہے اور ایک شخص دعویدار ہو کہ وہ جو اس کے زائل ہوتے وقت غیب کو معلوم کر لیتا ہے تو اس قسم کی عقلوں کے معترف اس کا انکار کر دیں گے ، اگر کسی آدمی سے سوال کیا جائے کہ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ دنیا میں کوئی چیز دانہ کے برابر نہ ہو، اسے شہر میں رکھ دیا جائے تو وہ سارے شہر کو تباہ کر دے اور پھر وہ اپنے آپ کو بھی کھا جائے کہ وہ فی نفسہ باقی نہ رہے ، وہ کہے گا کہ یہ محال ہے، جو کہ منجملہ خرافات میں سے ہے، لیکن یہ آگ کی حالت ہے، اس حالت کو سن کر وہی انکار کرے گا جس نے آگ کا مشاہدہ نہ کیا ہو ، اکثر احکام شرائع اور عجائب آخرت کا انکار اسی قبیلے سے ہے، طبیعی مجبورا کہے گا کہ افیون میں ٹھنڈک کی ایسی خاصیت ہوتی ہے جو اس قیاس پر طبیعت سے معقول نہیں، پھر تم اس کے جواز کو کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ اوضاع (اصول)شرعیہ میں قلب کے علاج اور تصفیہ کے ایسے خواص ہوتے ہیں جن کا حکمت عقلی سے ادراک نہیں ہو سکتا، بلکہ وہ خواص صرف نگاہ نبوت سے دیکھے جاتے ہیں اور ان لوگوں نے تو ایسے خواص کا اعتراف بھی کیا ہے جو ان خواص کے سے بھی زیادہ عجیب ہیں، چنانچہ ان لوگوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے ، ان میں ایک عجیب اور مجرب خاصیت اس شکل کی ہے جو حاملہ کی دردزہ کے وقت دو خشک ٹھیکریوں پر بنائی جاتی ہے اور ان دونوں کو حاملہ کے دونوں پاؤں کے نیچے رکھ دیا جاتا ہے اور حاملہ ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھتی رہے تو جلدی ولادت ہو جاتی ہے، ان لوگوں (فلاسفہ )نے اس کے امکان کو مان بھی لیا ہے اور اسے خواص عجیبہ کے باب میں شمار کیا ہے، یہ شکل اس طرح ہے کہ اس کے جدول کے نو خانے ہیں ، ہر خانہ میں مخصوص رقمیں لکھی جاتی ہیں ، ان سب ہندسوں کا مجموعہ طول و عرض کے لحاظ سے پندرہ ہوتا ہے، جدول یہ ہیں ۔
د ج ح 6 7 2 2 9 4
ط ہ ا 1 5 9 7 5 3
ب ز و 8 3 4 6 1 8
کاش میں جان سکتا کہ جو لوگ اس کی تصدیق کرتے ہیں ان کی عقل اس بات کی تصدیق کیوں نہیں کرتی کہ نماز فجر میں دور کعتوں ظہر میں چار رکعتوں اور مغرب میں تین رکعتوں کا مقرر کرنا بھی انہی خواص کی بدولت ہے جو بنظر حکمت معلوم نہیں ہوتے ، حالانکہ ان کا باعث ان وقتوں کا اختلاف ہے اور ان خواص کا ادراک نور نبوت سے ہی ہو سکتا ہے اور عجیب امر تو یہ ہے کہ اگر اس عبارت کو نجومیوں کی عبارت سے تبدیل کر دیا جائے تو وہ ان اوقات کے اختلاف کا ضروری اعتراف کرلیں اور وہ اس پر دلائل مرتب کریں، لہذا ہم کہتے ہیں کہ کیا حکم اور طالع مختلف نہیں جیسا کہ سورج آسمان کے درمیان ہو یا مشرق میں ہو یا مغرب میں ہو، وہ بولے کیوں نہیں۔
یہاں تک کہ انہوں نے اسی پر اپنی تقویمات(جنتری) ، اختلاف مطالع اور عرصوں اور عمروں کی بنیاد قائم کی ، پس زوال اور وسط آسمان میں سورج کے ہونے میں کوئی فرق نہیں اور نہ مغرب اور مغرب میں سورج کے ہونے میں کوئی فرق ہے، اس کی تصدیق کا سبب اس کے سوا اور کیا ہے کہ اس کو کسی نجومی کی عبارت سے سنا ہے جس کے کذب کا سینکڑوں مرتبہ تجربہ ہوا ہے اور اس کی مسلسل تصدیق کرتا ہے حتی کہ نجومی کہے کہ اگر سورج آسمان کے درمیان ہو اور اس کی سمت فلاں ستارے توجہ کررہے ہوں اور تو اس وقت نیا لباس پہنے تو تو اسی لباس میں قتل کر دیا جائے گا، پس وہ اس وقت کپڑے نہیں پہنتا حالانکہ شدید سردی کی تکلیف برداشت کرلے گا کاش میں جان سکتا کہ جن لوگوں کی عقلیں ان حیرت ناک باتوں کو مان لیتی ہیں اور وہ اس اعتراف پر مجبور نظر آتے ہیں کہ یہ ایسے خواص ہیں جن کی معرفت بعض انبیا کا معجزہ ہے تو پھر اس قسم کی باتوں کا انکار کیسے کر سکتے ہیں جو ایک نبی صادق سے سنی گئی ہیں اور اُن کی تائید معجزات سے کی گئی ہے اور ان کا کذب بھی معلوم نہیں ہو سکا اور تعداد رکعات میں رمی جمار میں ، تعداد ارکان حج اور دیگر عبادات شرعیہ میں ان خواص کا امکان کیوں ان کی عقل میں نہیں سماتا ، حالانکہ ہم ان میں اور ادویات و نجوم کے خواص میں کوئی فرق نہیں دیکھتے۔
پس اگر وہ کہے کہ میں نے نجوم وطب کا کچھ تجربہ حاصل کیا اور ان کا کچھ حصہ درست پایا، اس لئے میرے دل میں اس کی تصدیق راسخ ہو گئی ، میرے دل سے اس کا بعید ہونا اور قابل نفرت ہونا مٹ گیا، لیکن یہ شریعت کے احکام ایسے امور ہیں جن کا میں نے تجربہ نہیں کیا تو میں ان کے وجود اور حقیقت کو کیسے جان سکتا ہوں، اگر چہ ان کے امکان کو تسلیم کرلوں ، میں کہتا ہوں کہ تم صرف ان امور کی حقانیت پر ہی اکتفا نہیں کرتے جن کا تمہیں تجربہ حاصل ہوا، بلکہ تم نے تجربہ کاروں کی خبریں سنیں اور ان میں ان کی پیروی کی ہے، لہذا تم اولیاء کرام کے اقوال سنو جنھوں نے ان امور کا تجربہ کیا ہے اور شریعت کے تمام وارد احکام میں انہوں نے حق کو خوب دیکھا ہے، ان کا راستہ اپناؤ گے تو تم بعض مشاہدہ کا ادراک کر لو گے، میں مزید کہتا ہوں کہ اگر چہ تم نے ان امور کا تجربہ حاصل نہیں کیا لیکن تمہاری عقل تو تصدیق اور اتباع کے واجب ہونے کا تقاضا کرتی ہے، اگر ہم فرض کریں کہ ایک آدمی عاقل و بالغ ہے لیکن تجربہ کار نہیں ، وہ بیمار ہو جائے اور اس کا والد بھی ہے جو شفیق اور ماہر طب ہے اور جب سے اس شخص نے ہوش سنبھالا ہے، اسی وقت سے وہ اپنے والد سے علم طب کا دعوی سنتارہا ہے ، اب اس کا والد اس کیلئے کوئی دوا تجویز کرے اور کہے کہ یہ تمہاری بیماری کیلئے فائدہ مند ہے اور تمہاری بیماری کیلئے شفا بخش ہے تو اس کی عقل جس شے کا تقاضا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ دوا کو استعمال کرے، اگر چہ تلخ ہو اور ذوق کو بری لگے اور اگر وہ اس کی تکذیب کرے اور کہے کہ اس شفا بخش دوا کی مناسبت میری عقل سے باہر ہے اور یہ کہ میں نے اس کا کوئی تجربہ نہیں کیا ہے تو تم اس شخص کو بیوقوف ہی تصور کرو گے۔
اگر تم یہ کہو کہ نبی اکرمﷺ کی شفقت اور اس طب سے آپ کی واقفیت کیسے معلوم ہو گی، میں جواب دیتا ہوں کہ تم نے اپنے والد کی شفقت کیسے معلوم کی ، یہ کوئی محسوس امر نہیں ہے بلکہ تم اس کو اس کے قرائن احوال اور شواہد اعمال کے ذریعہ دیکھتے ہو اور بلا شبہ اس کے مصادر اور موارد میں تمہیں یقینی علم ہوا ہے ، جس انسان نے رسول اکرم ﷺ سے منقول اقوال و اخبار میں فکر کیا کہ آپ نے لوگوں کے حق کی اصلاح کیلئے مخلوق کی راہنمائی کی تو وہ یقینا جان لے گا کہ امت پر حضور اکرم ﷺ کی شفقت اس شفقت سے کہیں زیادہ ہے جو باپ بیٹے پر کرتا ہے اور اگر ان افعال عجیبہ پر غور کرے جو آپ سے ظاہر ہوئے اور عجائب غیبیہ پر غور کرے جن کے بارے میں آپ کی زبان کے ذریعے قرآن نے خبر دی اور زمانہ آخر کے متعلق اخبار پر غور کرے اور آپ کے ذکر کے مطابق ان کے واقع ہونے پر غور کرے تو وہ ضرور جان لے گا آپ واقعی اس مقام پر فائز ہیں جو عقل سے ماورا ءہے اور اس میں وہ آنکھ وا ہوتی ہے جس سے غیب آشکار ہوتا ہے اور وہ خواص وامور ظاہر ہوتے ہیں، عقل جن کے ادراک سے قاصر ہے، حضور نبی اکرم ﷺ کے صدق کے علم ضروری کے حصول کا یہی طریقہ ہے، تم قرآن پاک پر غور کرو، اخبار کا مطالعہ کرو تو تم کوانکا صدق ظاہر ا معلوم ہو جائے گا ، حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ نے اسی طرح بیان فرمایا ہے۔
اور ارشاد فرمایا ہے کہ اگر تم کوکسی شخص معین کی نبوت میں شک ہو تو تمہیں اس کا یقین صرف اسی طرح حاصل ہو گا کہ تم اس کے احوال کا علم مشاہدہ سے یا تواتر سے یا ایک دوسرے سے حاصل کرو، کیونکہ جب تم نے طب وفقہ کو جان لیا تو تمہارے لئے ممکن ہے کہ تم اطباء اور فقہا کو بھی ان کے احوال کا مشاہدہ کر کے اور عدم مشاہدہ کی صورت میں اقوال کوسن کے پہچان سکتے ہو۔ چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ کے فقیہ اور جالینوس کے طبیب ہونے کی معرفت سے تم عاجز نہیں رہو گے اور یہ معرفت حقیقی ہے، تقلیدی نہیں ، اگر تم کچھ فقہ و طلب کا مطالعہ کرو گے ان کی کتابوں اور تصنیفوں کا مطالعہ کرو گے تو تم ان دونوں کے احوال کا علم ضروری نصیب ہو جائے گا، ایسے ہی اگر تم نے نبوت کے معنی سمجھ لئے تو قرآن اور اخبار پر خوب غور کرو، اس وقت اس بات کا علم ضروری حاصل ہو جائے گا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نبوت کے اعلی مقام پر فائز ہیں اور اس بات کی تائید اس کے تجربہ سے بھی حاصل ہوتی ہے۔
جو کچھ آپ نے دلوں کے تصفیہ کے بارے میں عبارت اور ان کی تاثیر میں بیان فرمایا، حضور اکرم ﷺ اپنے اس فرمان میں کس قدر صادق ہیں کہ مَنْ عَمِلَ بِمَا يَعْلَمْ وَرَّثَهُ اللهُ عِلْمَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ، جو آدمی جس پر عمل کرے اللہ اس کو اس کے علم کا وارث بنا دیتا ہے جس کو وہ نہیں جانتا اور آپ کا یہ ار شاد کتنا سچا ہے مَنْ اَعَانَ ظَالِمًا سَلَّطَہٗ اللّٰہُ عَلَیْہِ ، جس نے کسی ظالم کی مدد کی اللہ نے اس ظالم کو اس پر مسلط کر دیا اور آپ کا یہ فرمان کیا خوب ہے من اصبح و هم هم واحد كفاه الله هموم الدنيا والآخرة جس نے اس طرح صبح کی کہ اس کو ایک ہی غم ہے تو اللہ تعالی اس کو دنیا و آخرت کےغموں سے کافی ہے، پس اگر تم نے ان (ارشادات ) کا ہزار دو ہزار بار بھی تجربہ کیا تو تمہارے لئے اس کا یہی علم ضروری حاصل ہو گا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں، چنانچہ اس طرح سے نبوت کا یقین طلب کرو، یہ مضبوط علمی ایمان ہے، باقی رہا ذوقی ایمان تو وہ مشاہدے اور اخذ بالعدد کی طرح ہے جو صرف صوفیا کرام کے طریقے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
اثبات النبوۃ کی وجوہ: علما کرام نے حضور نبی کریم ﷺ کی نبوت کے اثبات میں متعد دو جوہ بیان کی ہیں۔
وجه اول
جمہور علما کرام کے نزدیک یہی عمدہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے نبوت کا دعوی فرمایا اور آپ کے دست اقدس پر معجزہ ظاہر ہوا،
اولا معجزہ متواتر ہے ، ایسا متواتر کہ اس کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کی طرح سمجھا جا سکتا ہے، لہذا اس کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں،
ثانیا: آپ کا معجزہ قرآن وغیرہ ہے، قرآن پاک اس لئے معجزہ ہے کہ حضوراکرم ﷺ نے اس کی تحدی (مقابلہ)فرمائی اور کوئی اس کا معارضہ(تنازع) نہ کر سکا ، اس لئے یہ معجزہ ہے، رہی تحدی تو یہ بھی متواتر ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں ، قرآن پاک میں تحدی کی کثیر آیات مبارکہ ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَلْيَأْتُواْ بِحَدِيثٍۢ مِّثْلِهِ ، پس وہ اس جیسی کوئی بات لے آئیں ، اور فرمایا فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍۢ مِّثْلِهِ ” اس جیسی دس سورتیں لے آؤ اور فرمایا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ مثلا اس جیسی ایک ہی سورت لے آؤ۔
اب یہ کہنا کہ کسی نے معارضہ نہیں کیا ، اس کی دلیل یہ ہے کہ جب قرآن پاک نے تحدی کی اور عرب کے بلغاء وفصحاء کو اس جیسی ایک سورت پیش کرنے کا چیلنج دیا حالانکہ وہ وادی بطحا کے پتھروں سے بھی زیادہ تھے ، آپ کے دعوی کو باطل کرنے والی چیز کو شائع کرنے پر بہت حریص تھے، بہت زیادہ جاہلی عصبیت و حمیت کے اعتبار سے اور مباہات اور سبقت لے جانے کیلئے ایک دوسرے کو قتل کر دینے میں مشہور تھے، لیکن اس جیسی چھوٹی سی سورت بھی پیش کرنے میں عاجز آگئے ، جہاں تک کہ حروف کی معارضت کی بجائے سیوف کی مقارعت (تلواروں کی لڑائی)پر اتر آئے ، پس اگر وہ معارضہ پر قادر ہوتے تو ضرور معارضہ کرتے اور اگر معارضہ کرتے تو اس کا علم ہم تک بتواتر پہنچتا کیونکہ اس کے نقل کے دواعی بہت زیادہ تھے ، وہ تو اتر ایسے ہوتا جیسے کے خطیب کا منبر پرقتل کیا جانا ہو ان تمام امور کا علم تمام عادیات کی طرح قطعی ہے۔
اور یہ امر کہ جس چیز کی تحدی کی جائے اور اس کا معارضہ نہ کیا جائے تو وہ چیز معجزہ ہے، جیسا کہ حقیقت معجزہ اور اس کی شرائط کے ذکر میں گزر چکا ہے، اس پر کچھ اعتراضات کئے جاتے ہیں:
پہلا اعتراض:
یہ کہا جاتا ہے کہ شاید یہ تحدی (مقابلہ)ان تک نہ پہنچی ہو جو اس کا معارضہ کرنے کی قدرت رکھتے ہوں ، یا پھر معارضہ(تنازع) کو مدعی کا ہم خیال ہوتے ہوئے اس لئے چھوڑ دیا ہو کہ مدعی کی دولت سے حظ وافر وصول کریں۔
دوسرا اعتراض:
یا یہ کہ شاید ان لوگوں نے اس( مدعی کی دعوت) کو حقیر سمجھا ہو اور خیال کیاہو کہ اس کی دعوت مکمل ہونے والی نہیں اور آخر میں اس کی شدید شوکت اور کثرت متبعین کے سب اس سے خائف ہو گئے ہوں یا ان کی تقویم معیشت کی احتیاج نے معارضہ سے روک دیا ہو ۔
تیسرا اعتراض:
یہ ممکن ہے کہ معارضہ کیا گیا ہولیکن کسی مانع کی وجہ سے ظاہر نہ ہو سکا یا ظاہر ہوا مگر اس کے اصحاب متبعین نے اپنے استیلا (غلبہ)کی وجہ سے چھپا دیا اور اس کے آثار ختم ہو گئے جہاں تک کہ بالکل ہی محو ہو گیا ۔
اس کا اجمالی جواب تو پہلے گزر چکا ہے کہ عقلی تجویزات علم عادی کے منافی نہیں ہوتیں، جیسا کہ محسوسات میں ہوتی ہیں، پہلا اعتراض یعنی یہ کہ شاید تحدی ان لوگوں کو نہ پہنچی ہو جو اس کا معارضہ کرنے پر قدرت رکھتے ہوں، اس کا تفصیلی جواب اس طرح دیا جا سکتا ہے کہ مدعی نبوت اگر کوئی ایسی چیز پیش کرے جو اس کے دعوی نبوت کی مصدق ہو اور وہ اس کی تحدی بھی کرے کہ لوگ اس کے معارضہ سے عاجز آجائیں تو ضروری و عادی علم حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ مدعی اپنے دعوی میں صادق ہے اور اس میں مذمت کرنا سراسر سفسطہ(باطل استدلال) ہے۔
اور دوسرا اعتراض یہ کہ شاید ان لوگوں نے اس کو حقیر سمجھا اور آخر میں خائف ہو گئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عادی و وجدانی ضرورت کے ذریعے علم ہو جاتا ہے کہ لوگ اس مدعی کے معارضہ کی طرف پیش قدمی کریں جو کسی ایسے امر جلیل میں منفرد ہونے کا مدعی ہو، جس میں اپنے ہم عصر لوگوں پر اسے برتری نصیب ہو اور وہ لوگوں کو اپنی اطاعت کی دعوت دے، لوگوں کی جان و مال کے بارے میں حکم جاری کرے اور یہ بھی ہدایت کے ساتھ معلوم ہے کہ ایسے امور میں کوئی اس طرح اعتراض نہیں کر سکتا کہ معارضہ کرنے کی طرف بالکل متوجہ نہ ہو، اس طرح اس کی دلالت جہت صرفہ کی بنیاد پر ظاہر ہے، کیونکہ نفوس جب اس پر جبلی طور پر پیدا کئے گئے ہیں پھر ان کا اس سے روک دینا امر خارق عادت(معجزہ،کرامت) ہے، جو صدق مدعی پر دلالت کرتا ہے، اگر چہ اس نے وہ چیز پیش کی جو دوسروں کی طاقت میں ہو۔
اور تیسرا اعتراض یہ کہ شاید اس کا معارضہ کیا گیا ہو لیکن کسی مانع کی وجہ سے ظاہر نہ ہو سکا تو اس کا جواب اس طرح ہے کہ علم عادی ہے کہ ہر تقدیر پرقدرت معارضہ ضروری ہے، اس طرح یہ بھی علم عادی ہے کہ اس کا اظہار ضروری ہے، اس لئے کہ اس سے مقصود پورا ہوتا ہے اور بعض اوقات و اماکن میں مانع کے احتمال سے ضروری نہیں کہ تمام اوقات واماکن میں احتمال پایا جائے، بلکہ ضروریات عادی کے سبب اس کا انتفا (فائدہ)معلوم ہے، پس اگر معارضہ ہوا تو اس کا خفیہ رکھنا محال ہے کہ اصحاب مدعی کی جانب سے ان کے غلبے کے وقت اخفا ممکن نہیں ہے اور نہ ان کے علاوہ کوئی اخفا کر سکتا ہے،لہذا تمام احتمالات دفع ہو گئے اور قطعی دلالت ثابت ہو گئی ۔
متکلمین کا اختلاف
خوب جان لو کہ متکلمین (اہل ملت ) نے قرآن کے اعجاز کی وجہ سے اختلاف کیا ہے، کہا گیا ہے کہ وہ نظم غریب اور اسلوب عجیب پر مشتمل ہے جو عرب کے نظم ونثر کے خلاف ہے ، سورتوں اور قصوں کے شروع اور آخر میں جو ہیں اور وہ فواصل(قرآن مجید کی آیات کے آخر میں آنے والے ہم وزن لفظ) آیات جو کلام عرب میں بمنزلہ جمع ہیں یہ سب قرآن میں ایسے واقع ہوئے ہیں کہ کلام( عرب )میں ان کی مثال نہیں ملتی ، چنانچہ وہ اس سے عاجز آگئے بعض معتزلہ کا یہی خیال ہے۔
اہل عربیہ اور جاحظ معتزلی کا بیان ہے کہ قرآن بلاغت کے اعلی مقام پر اپنی ان ترکیبوں کی وجہ سے فائز ہے جن کی مثال ان( اہل عرب ) کی ترکیبوں میں نہیں پائی ، ان کی بلاغت کےدرجے اس سے قاصر ہیں چنانچہ جس آدمی نے عربیت اور اس کے فنون بلاغت کو جان لیا اس نے قرآن کے اعجاز کو جان لیا۔
قاضی با قلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: قرآن دو باتوں کا مجموعہ ہے، نظم غریب اور بلاغت کا درجہ عالیہ۔
بعض کہتے ہیں کہ قرآن کی وجہ اعجاز غیب کے بارے میں خبر دیتا ہے، جیسے فرمایا ) وَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ اور وہ لوگوں کے غلبہ کے بعد چند برسوں میں غالب آجا ئیں گے ، اس( خبر )میں یہ (خبر غیب )بتائی گئی ہے کہ اہل روم، اہل ایران پر تین سے لے کر نو سال کے عرصے تک غالب آجا ئیں گے، بے شک ویسے ہوا جیسےخبر دی گئی تھی۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرآن کی وجہ اعجاز اختلاف اورتناقض کے نہ ہونا ہے، حالانکہ اس میں طول امداد ہے، انہوں نے اس آیت سے تمسک کیا وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا یعنی اگر یہ غیر اللہ کی جانب سے ہوتا تو اس میں تم بہت زیادہ اختلاف پاتے۔
اور کہا گیا ہے کہ قرآن کا اعجاز با لصرفہ (معجزہ سے پھیر دئیے گئے)ہے یعنی عرب بعثت سے پہلے قرآن کی مثل کلام لانے پر قدرت رکھتے تھے لیکن اللہ نے ان کو معارضہ سے پھیر دیا ۔ اس کیفیت صرف میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے۔
ہم میں سے استاد گرامی (غالبا امام غزالی)اور معتزلہ میں سے نظام نے کہا کہ ان کو ان کی قدرت کے ہاتھوں روک دیا گیا یعنی وہ اس طرح کہ اس نے ان کے دواعی کو ان کی طرف پھیر دیا با وجودیکہ (معارضہ)ان کی جبلت میں داخل تھا خصوصا ان کے حق میں اسباب داعیہ بہت زیادہ تھے مثلا یہ کہ عجز متفرع اور ریاست اور تکلیف ملامت کا استنزال(نزول)وغیرہ۔
شیعہ میں سے مرتضی نے کہا کہ ان سے وہ علوم چھین لئے گئے جن کی معارضہ میں ضرورت ہوتی ہے۔
اعجاز قرآن پر اعتراضات اور جوابات :
قرآن پاک کے اعجاز میں قادحین (عیب تلاش کرنے والے)کے کچھ شبہات و اعتراضات ہیں ۔
پہلا اعتراض:
اعجاز کی وجہ کیلئے واجب ہے وہ اس شخص کیلئے ظاہر ہو جو اس سے استدلال کرتا ہے اور اس میں تمہارا اختلاف اس کے خفا کی دلیل ہے۔
جواب:اختلاف اور خفا کسی ایک وجہ میں واقع ہو تو وہ اختلاف و خفا نہیں، بے شک قرآن کا مجموعہ، بلاغت نظم غریب ، اخبار غیب اور علم و عمل کے اعتبار سے حکمت بالغہ پر مبنی ہے اور اس کے علاوہ اعجاز کی جتنی وجوہ بیان کی گئی ہیں سب کے لحاظ سے معجز ہے، اگر اختلاف کسی ایک وجہ میں واقع ہوا تو یہ نظروں کا اختلاف ہے، یا ان نظر والوں کے مبلغ علم کا نتیجہ ہے، یہ بات ہر گز نہیں کہ اگر مذکورہ وجوہ میں سے کسی ایک وجہ سے معجز نہیں تو ان کے مجموعہ کی وجہ سے بھی معجز نہیں، بہت سے اہل بلاغت ایسے ہیں جو نظم یا نثر پر قدرت رکھتے ہیں اور دوسرے پر نہیں اور یہ بات بھی ہرگز درست نہیں کہ جو چیز ہر ایک کیلئے ثابت ہو وہ کل کیلئے اسی طرح ثابت ہو کہ وہ کل ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ پوشیدہ نہیں کہ اس جواب کا تقاضا یہ ہے کہ فقط قرآن کا مجموعہ معجز ہومگر اس کی کسی چھوٹی سی سورت کی مقدار معجز نہ ہو، یہ واقعہ کے خلاف ہے،اسلئے کہ اس کی چھوٹی سی سورت کی مقدار بھی معجز ہے جیسا کہ گزر چکا ہے۔
پس اگر تم کہو کہ جواب دینے والا یہ چاہتا ہے کہ قرآن کا مجموعہ ان مذکورہ وجوہ ایجاز کے مجموعہ کے باعث معجز ہے اور اس کی ہر سورت ان وجوہ اعجاز میں سے کسی ایک غیر متعین وجہ کے باعث معجز ہے تو میں کہوں گا کہ اس طرح معترض کا اعتراض دفع نہیں ہو سکتا ، وجہ اعجاز کیلئے واجب ہے کہ وہ بالکل ظاہر ہو، اس تقدیر پر وہ اعجاز ظاہر نہیں ہوتی جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، اللہ بچائے کہ اس کے بین و مستعین ہونے کے وجوب کو ممنوع کہا جائے ، یہ کسی غور کرنے والے منصف مزاج پر پوشیدہ نہیں کہ یہ کھلا مکابرہ (مقابلہ، زبردستی کی بحث)ہے ، پس فہم اختیار کرو ۔
دوسرا اعتراض:
فلاں صحابہ کرام نے قرآن پاک کے بعض حصے میں اختلاف کیا، حتی کہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ فاتحہ اور معوذتین قرآن پاک میں داخل نہیں، حالانکہ یہ تینوں مشہور سورتیں ہیں ، اگر اس کی بلاغت اعجاز کی حد تک ہوتی تو یہ غیر قرآن سے ممتاز ہوتا اور وہ ہرگز اختلاف نہ کرتے ۔
جواب: قرآن کی بعض سورتوں سے متعلق صحابہ کرام کا اختلاف بذریعہ آحاد (ایک راوی کی حدیث)مروی ہے، جو ظن کا فائدہ دیتے ہیں ، لیکن قرآن کا مجموعہ متواتر منقول ہے، جو کہ یقین کا فائدہ دیتا ہے، لہذا یہ آحاد( تواتر کے خلاف ) التفات کے قابل نہیں، نیز ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام نے اس پر اختلاف نہیں کیا کہ یہ حصہ حضرت محمد مصطفے ﷺ پر نازل نہیں ہوا اور یہ کہ یہ اعجاز کی حد تک نہیں پہنچتا، بلکہ( اختلاف) صرف قرآن میں سے ہونے کے بارے میں ہے اور وہ بات ہمارے مقصود کیلئےنقصان دہ نہیں۔
تیسرا اعتراض:
جمع قرآن کے وقت جب ایسا کوئی آدمی ایسی آیت لے کر آتا جوان کے ہاں عدالت میں غیر مشہور ہوتا تھا تو اس کو ایک شاہد یا قسم کے بغیر مصحف میں شامل نہ کرتے اگر اس کی بلاغت اعجاز کی حد تک پہنچی ہوتی تو اس ( بلاغت کی وجہ سے )جان لیتے اور اسے شامل مصحف کرنے کیلئے عدالت اور ایک شاہد یا قسم کی ضرورت ہی نہ ہوتی ۔
جواب: بیشک ان کا اختلاف قرآن پاک میں مقام آیت اور اس کی تقدیم و تاخیر کے بارے میں ہے، اس کے داخل قرآن ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ، کیونکہ نبی اکرم ﷺ اس کی قرآت پر مواظبت فرماتے تھے ، پس جس آیت کو کوئی آدمی لے کر آیا تو اس آیت کا داخل قرآن ہونا یقینی تھا، گواہ یا قسم کا مطالبہ محض ترتیب کیلئے تھا، لہذا یہاں کوئی اشکال نہیں ، نیز اگر بالفرض ایسے ہی تھا تو ایک یا دو آیتوں کا غیر معجز ہونا ہمیں نقصان دہ نہیں، کیونکہ معجز ہونے کیلئے ضروری ہے کہ ایک سب سے چھوٹی سورت کی مقدار ہو اور سورت کم از کم تین آیتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
چوتھا اعتراض:
ہر صناعت (پیشہ)کی ایک حد معین ہے ، وہ اس حد پر رک جاتی ہے، اس سےبڑھ نہیں سکتی اور ہر زمانہ میں ایک ایسے آدمی کا وجود لازمی ہے جو تمام اہل زمانہ سے فائق ہو تو شاید حضرت محمد مصطفی ﷺ اپنے معاصر میں سب سے زیادہ فصاحت والے ہوں ، انہوں نے ایسا کلام پیش کیا جس سے ان کے معاصر ہی عاجز رہے، اگر یہ معجز ہے تو صناعت کے ذریعے معاصرین پر فائق ہر شخص جو کوئی بھی چیز پیش کرے وہ معجز ہوگی اور ظاہر ہے کہ یہ غلط ہے۔
جواب:معجزہ ہر زمانہ میں اسی جنس سے صادر ہوتا ہے جو اہل زمانہ پر غالب رہتا ہے اور وہ لوگ اس زمانے میں انتہائی اعلیٰ مقام پر پہنچ کر اس حد متعاد (زیادتی)پر رک جاتے ہیں جہاں تک رسائی کسی فرد بشر کیلئے ممکن ہے، یہاں تک کہ وہ لوگ صناعت کی حد سے خارج کوئی ایسی چیز دیکھتے ہیں تو جان جاتے ہیں کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اگر یہ حالت نہ ہوتی تو قوم کے ہاں نبی کا معجزہ کبھی متحقق نہ ہوتا ، مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جادو کا رواج تھا، جادو والے جانتے تھے کہ جادو کی حد تحصیل اور اس شے کا وہم پیدا کرنا ہے جس کا حقیقت میں کوئی ثبوت نہیں ، پھر انہوں نے دیکھا کہ حضرت موسی علیہ السلام کا عصا سانپ بن گیا اور ان کے تراشے ہوئے جادو کو کھانے لگا تو انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ جادو سے باہر ہے اور انسانی طاقت سے ماورا ہے، چنانچہ وہ ( جادو والے ) حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان لے آئے لیکن فرعون اس فن میں عاجز ہونے کی وجہ سے یہ سمجھا کہ ان کا استادان کو تعلیم دیتا ہے، یہی حال طب کا ہے، حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے میں اس کا رواج غالب تھا ، ان لوگوں نے معلوم کر لیا کہ مردوں کو زندہ کرنا، مادر زاد اندھوں اور برص والے کو شفایاب کر نافن طب کی دسترس سے باہر ہے لہذا یہ اللہ تعالی کی جانب سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بلاغت مقام بلند پر فائز تھی، اسی کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر فخر کرتے تھے ، یہاں تک کہ انہوں نے سات قصیدے کعبہ کے دروازے پر آویزاں کر رکھے تھے کہ ان کے معارضہ(تنازع) کی تحدی(مقابلہ) کریں ، سیر کی کتابیں اس پر شاہد ہیں ، پھر جب نبی اکرم ﷺ وہ چیز قرآن کو لے کر آئے جس کی مثال پیش کرنے سے جمیع اہل بلاغت عاجز ہو گئے، حالانکہ انہوں نے کثرت سے منازعہ اور مشاجرہ (اختلاف)سے کام لیا اور آپ کی نبوت سے انکاری ہوئے حتی کہ بعض کفر پر مرے اور بعض آپ کی نبوت کے واضح ہونے پر اسلام لے آئے اور بعض منافقین کی طرح اسلام سے دلی نفرت کے باوجود ذلت و پستی کو اپناتے ہوئے بظاہر کے مسلمان کہلائے اور بعض معارضہ رکیکہ میں مشغول ہوئے کہ جو عقل مندوں کے نزدیک مضحکہ خیز ہے، مثلا انہوں نے اس کلام کے ساتھ معارضہ كيا والزارعات زرعاً. فالحاصدات حصداً. فالطاحنات طحناً. فالخابزات خبزاً. فالآكلات أكلاً اور بعض وہ تھے جنھوں نے جنگ و جدال کو اپنایا اور جان و مال اور اہل و عیال کیلئے پیش کیا لہذا یہ معلوم ہوا کہ یہ کلام یقینا اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔
پانچواں اعتراض:
قرآن میں لفظ معنی کے اعتبار سے اختلاف ہے ، حالانکہ اختلاف کی نفی ایسے کی گئی ہے کہ اگر وہ غیر اللہ کی جانب سے ہوتا تو اس میں کثیر اختلاف پاتے، لفظى اختلاف کی مثال كَٱلۡعِهۡنِ ٱلۡمَنفُوشِ کی بجائے كا الصوف المنقوش فَٱسۡعَوۡاْ إِلَىٰ ذِكۡرِ ٱللَّهِ کی بجائے فامضوا إلى ذكر الله، فَهِيَ كَٱلۡحِجَارَةِ کی بجائے فكانت كالحجارة اور وَضُرِبَتۡ عَلَيۡهِمُ ٱلذِّلَّةُ وَٱلۡمَسۡكَنَةُ كى بجائے ضربت عليهم المسكنة والذله” ہے اور معنوی اختلاف کی مثال رَبَّنَا بَٰعِدۡ بَيۡنَ أَسۡفَارِنَا امر کےصیغہ اور رب کے ندا کے ساتھ ہے اور ربنا با عد صیغہ ماضی اور رب کے رفع کے ساتھ پہلی دعا اور دوسری خبر ہے۔
دوسری مثال هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ صیغہ غائب اور ضمہ وبا کے ساتھ ہے۔ اور هَلْ تَسْتَطِيعُ رَبُّكَ صیغہ خطاب کے ساتھ ہے۔ پہلی میں رب کے متعلق استخبار (خبر معلوم کرنا)ہے اور دوسری میں حضرت عیسی علیہ السلام کا حال پوچھنا ہے۔
جواب: اگر اختلاف جو بذریعہ آحاد (ایک راوی کی حدیث)منقول ہے تو مردود ہے اور جو بذریعہ تو اتر منقول ہے تو وہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی میں داخل ہے إِنَّ الْقُرْآنَ نَزَلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، كُلُّهَا شَافٍ كَافٍ قرآن سات حرفوں قراتوں پر نازل ہوا ان میں سے ہر ایک شافی و کافی ہے، اس لفظی و معنوی اختلاف اس کے اعجاز میں قادح(عیب) نہیں ۔
چھٹا اعتراض:
اس میں لحن اور بے فا ئدہ تکرار پائی جاتی ہے لحن یہ ہے قول عز و جل ہے اِنْ ھٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ اور لفظی تکرار کی مثال سورۃ الرحمن میں ہے اور معنوی تکرارحضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہم السلام کے قصے میں ہے۔
جواب: پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اِنْ ھٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کاتبوں کی غلطی ہے، ابو عمرو نے اسے ان ھذین پڑھا ہے اور کہا گیا ہے کہ احوال کے دوران تثنیہ اور اسمائے ستہ میں ابقائے الف قبائل عرب کی لغت ہے، مثلا یہ قول دیکھیں۔
ان اباها و ابا ابا ها لقد بلغا في المجد غا یتا ها
ان مواضع میں اہل مدینہ اور اہل عراق نے اس لغت پر پڑھا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ لفظ ھذا سے مخصوص ہے، اس میں نون زیادہ کیا گیا ہے اور الف کو اپنے حال پر باقی رکھتے ہوئے تبدیل نہیں کیا گیا جیسا کہ الذین میں کیا گیا، اس میں لفظ الذی پر نون کا اضافہ ہے، یا کو تینوں احوال میں برقرار رکھا گیا ہے اور وہ اس لئے ہے کہ کلمہ ھذا میں معرب و مبنی کے تثنیہ میں اور کلمہ الذی میں معرب ومبنی کے درمیان اختلاف ہوا ہے ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں ضمیر الشان مقدر ہے، اس صورت میں لام مبتداء کے چیز میں داخل ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اگر چہ قلیل ہو۔
دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ تکرار میں فوائد پائے جاتے ہیں ، ان میں ایک یہ کہ تحقیق معنی میں تقریر اور مبالغہ کی زیادت نظر آتی ہے۔
دوسرا یہ کہ ایجاز و اطناب میں مختلف عبارت کے ساتھ ایک ہی معنی کے ایراد(اعتراض) پر قدرت کا اظہار ثابت ہوتا ہے جو کہ شعب بلاغت میں سے ایک شعبہ ہے، تیسرا یہ کہ ایک قصہ امور کثیرہ پر مشتمل ہوتا ہے، کبھی اس کے بیان کا مقصد صرف بعض امور کا بیان ہے اور بعض امور تبعا بیان ہو جاتے ہیں اور کبھی اس کے برعکس ہوتا ہے۔
باقی معجزات مثلاً انشقاق قمر، کلام جمادات اور حضور اکرم ﷺ کی طرف انکا حرکت کرنا، کلام حیوانات، طعام قلیل سے خلق کثیر کا سیرشکم ہونا، انگلیوں سے چشمہ آپ کا نکلنا، غیب کی خبریں دینا اور اس طرح کے افعال بہت زیادہ ہیں جن کا احاطہ ناممکن ہے، یہ معجزات ہیں جن میں سے ہر ایک متواتر نہیں لیکن ان میں قدر مشترک یعنی ثبوت معجزہ بے شک متواتر ہے، جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت اور حاتم طائی کی سخاوت، یہ اثبات نبوت میں ہمارے لئے کافی ہے۔
وجه دوم
رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے اثبات کی دوسری وجہ جسے معتزلہ میں سے جاحظ نے اور ہم( اہلسنت ) میں سے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے پسند کیا ہے ، جیسا کہ پہلے کلام مذکور سے سمجھا گیا ہے، یعنی اعلان نبوت سے پہلے دعوت کے دوران اور دعوت کے تمام درجہ کے بعد آپ کے احوال، آپ کے اخلاق عظیمہ اور احکام حکیمہ اور وہ اقدام جن سے بڑے بڑے بہادر ڈریں اور اسی طرح ( دوسرے نظائر آپ کی نبوت کی دلیل ہیں ) آپ ﷺ نے مہمات دین اور مہات دنیا میں کبھی جھوٹ نہیں بولا ، اگر ایک بار بھی جھوٹ بولا ہوتا تو آپ کے دشمن اس کی تشہیر میں بہت کوشش کرتے اور آپ نے کبھی اعلان نبوت سے پہلے نہ کبھی بعد کسی فعل قبیح کا ارتکاب کیا اور آپ غایت درجہ فصاحت کے مالک تھے، جیسا کہ آپ نے فرمایا، أُوتِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ مجھے جو امع کلم نصیب ہوئے ، حالانکہ آپ امی تھے ، آپ نے تبلیغ الرسالۃ میں طرح طرح کی مشقتیں برداشت کیں حتی کہ فرمایا، مَا أُوذِيَ أَحَدٌ مَا أُوذِيتُ في اللهِ کسی نبی کو اتنی ایذا نہیں دی گئی جتنی مجھے اور آپ نے عزیمت کے ساتھ بغیر فتور کے ہر ایذ اپر صبر کیا اور جب دشمنوں پر استیلا ء(غلبہ)حاصل کیا اور جانوں اور مالوں میں نفاذ امر کیلئے بلند مرتبہ پر فائز ہوئے تو اپنی پہلی حالت تبدیل نہ فرمائی بلکہ آپ اول عمر سے آخر عمر تک ایک ہی طریقہ مرضیہ پر گامزن رہے، آپ اپنی امت پر حد درجہ شفیق تھے ، ( اور ہیں )جہاں تک کہ اللہ تعالی نے خطاب فرمایا فَلا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ، آپ ان کی حسرتوں میں اپنی جان نہ گنوادینا اور فرمایا فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِهِمْآپ حد درجہ سخاوت والے تھے کہ خدا تعالیٰ نے یوں فرمایا وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ ، آپ دنیا کی طرف ہرگز التفات نہ کرتے تھے حتی کہ جب قریش مکہ نے آپ کو مال ، زوجہ اور ریاست کی پیش کش کی کہ اپنے دعوی کو ترک کر دیں ، آپ نے اس کی طرف ہرگز توجہ نہ فرمائی ، آپ فقیروں اور مسکینوں کے ساتھ غایت تواضع اور غنیوں اور دولت مندوں کے ساتھ غایت ترفع اختیار فرماتے تھے ، آپ ﷺاپنے دشمنوں سے کبھی فرار نہ ہوئے ، اگر چہ عظیم خوف کا مقام ہوتا ، جیسا کہ یوم احد، یوم احزاب اور اس طرح کے مواقع ہمارے سامنے ہیں کے وہ امر آپ کی قلبی قوت اور باطنی شہادت پر دلالت کرتا ہے ، اگر آپ کو اللہ تعالیٰ کی حفاظت پر بھروسا نہ ہوتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ، یعنی اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ ر کھے گا، تو یہ عادتاً ناممکن ہوتا آپ ﷺ حال ہرگز متلون نہیں تھا، اگر چہ مختلف احوال در پیش ہوئے ، الغرض جو آدمی ان( حقائق )اور ان کی امثال کا تتبع کرے تو جان لے کہ ان میں سے ہر ایک الگ الگ نبوت پر دلیل نہیں کیونکہ کسی شخص کا دیگر تمام شخصوں سے مزید فضل اس کے نبی ہونے کا ثبوت نہیں لیکن ان کا مجموعہ یقینا صرف انبیا کرام کو حاصل ہوتا ہے، پس آپ ﷺ کی ذات پاک میں ان جملہ امور کا اجتماع آپ کے نبی ہونے کے عظیم دلائل میں سے ایک دلیل ہے۔
وجہ سوم :
ان وجوہ میں سے تیسری وجہ وہ ہے جسے حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار فرمایا، حضور سراپا نور ﷺ نے اس قوم میں دعوی فرمایا جس کے پاس کوئی کتاب و حکمت نہیں تھی، بلکہ وہ لوگ حق سے اعراض کرتے تھے ، وہ مشرکین عرب کی صورت میں بتوں کی عبادت کرتے یا یہود کی صورت میں دین تشبیہ اور صنعت تزویر اور لایعنی جھوٹی باتوں پر عمل کرتے یا مجوس کی صورت میں دو خداؤں کی پرستش اور محارم نکاح پر( مائل) تھے اور یا نصاری کی طرح باپ بیٹے اور تثلیث کے قول پر (قائل تھے )آپ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب روشن اور حکمت باہر کے ساتھ مبعوث ہوا ہوں کہ مکارم اخلاق کو مکمل کر دوں ، اور لوگوں کو ان کی قوت علمیہ میں عقائد حقہ کے ساتھ اور ان کی قوت عملیہ میں اعمال صالحہ کے ساتھ کامل کر دوں اور تمام عالم کو ایمان اور عمل صالح کے ذریعے تابناک کر دوں ، پس آپ نے ایسا کر دکھایا اور اپنے دین کو تمام دینوں پر غالب کر دیا ، جیسا کہ اللہ تعالی نے وعدہ فرمایا تھا، چنانچہ کج دین کمزور ہو گئے فاسد مقالے ختم ہو گئے، تو حید کے آفتاب اور تنزیہ کے ماہتاب اقطار آفاق میں جگمگانے لگے اور نبوت کا یہی معنیٰ ہے، نبی وہ ہے جو نفوس بشری کی تعمیل فرماتا ہے اور اکثر نفوس پر غالب آنے والے قلبی امراض کا علاج کرتا ہے ، جب بیمار دلوں کے علاج اور ان کی ظلمات کے ازالے میں حضرت محمد مصطفے ﷺ کی عوت کی تاثیر اکمل واتم تھی تو آپ کے نبی ہونے کا یقین واجب ہو گیا، وہ تمام نبیوں اور رسولوں سے افضل ہیں ، حضرت امام نے اسے مطالب عالیہ میں بیان فرمایا اور یہ بر ہان لم(طویل) میں سے برہان ظاہر ہے، ہم نے حقیقت نبوت کے متعلق بحث کی اور واضح کیا کہ یہ ماہیت کسی کو نصیب نہ ہوئی جیسا کہ آپ کو نصیب ہوئی ، پس آپ اپنے ماسوا سے افضل ہیں اور رہا معجزہ کے ذریعے نبوت کا اثبات تو یہ برہان ان میں سے ہے اور اثبات نبوت میں یہ وجہ طریق حکماء سے قریب ہے ، اس کا حاصل یہ ہے کہ بیشک لوگ اپنے معاش و معاد میں اس انسان کامل کے محتاج ہیں جس کی تائید اللہ تعالی کی طرف سے ہو اور وہ ان لوگوں کیلئے ایسا قانون وضع کرے جو دو جہاں میں ان کو سعادت عطا کرے، دوسرا مقالہ مذمت فلاسفہ میں اور ان کے علوم کی ممارست(مہارت) اور کتابوں کے مطالعے سے حاصل ہونے والے نقصان کے بیان میں ہے۔