140

سالک کے اپنے احوال پر اطلاع نہ پانے کے بھید مکتوب نمبر 16دفتر سوم


سالک کے اپنے احوال پر اطلاع نہ پانے کے بھید میں اور اس کو مستر شدوں اور مریدوں کے آئینوں میں مشاہدہ کرنے کے بیان میں مولانا احمد ذہبی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔


الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَام عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ ( اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ) آپ کا مکتوب شریف پہنچا۔ آپ نے لکھا تھا کہ میں اپنے آپ میں اس گروہ کے احوال و مواجید اور علوم و معارف کچھ نہیں پاتا ۔ باوجود اس بات کے دو طالبان راہ کو طریقہ بتلایا ۔ وہ بہت متاثر ہوئے اور ان سے عجیب وغریب احوال ظاہر ہوئے۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ واضح ہو کہ جو حوال ان دونوں شخصوں میں ظاہر ہوئے ہیں آپ کے احوال کے عکس ہیں ۔ جو ان کی استعداد کے آئینوں میں ظاہر ہوئے ہیں۔ چونکہ وہ دونوں شخص صاحب علم تھے انہوں نے اپنے احوال کو معلوم کر لیا اور آپ کو بھی اس حال مستور کے حاصل ہونے کے علم کی طرف رہنمائی کی جس طرح کہ آئینہ شخص کے خفیہ کمالات کے حاصل ہونے کی طرف دلالت کرتا ہے

اور اس کے پوشیدہ ہنروں کو ظاہر کر دیا ہے۔ مقصود احوال کا حاصل ہوتا ہے اور ان احوال کا جانتا ایک علیحدہ دولت ہے۔ بعض کو یہ علم دیتے ہیں اور بعض کو نہیں دیتے لیکن دونوں صاحب ولایت اور قرب میں برابر ہوتے ہیں ۔ مِنَّا مَنْ عَلِمَ وَمِنَّا مَنْ جَهِلَ (ہم میں سے ہے جو جانتا ہے اور ہم میں سے ہے جو نہیں جانتا ) اس گروہ کے نزدیک مقرر اور مانی ہوئی بات ہے اپنے احوال کا علم نہ ہونے سے آزردہ نہ ہوں۔ کوشش کریں کہ احوال حاصل ہوں ۔ بلکہ احوال سے گزر کر احوال کے پھیرنے والے ( حق تعالیٰ) کے ساتھ واصل ہوں ۔ احوال کا علم اگر مریدوں کے واسطہ کے بغیر میسر نہ ہو تو اسی پر قناعت کریں کہ ان کے آئینوں میں مطالعہ کریں اور مظہروں کے ذریعے حظ حاصل کریں ۔ احوال حاصل ہونے چاہئیں اور ان احوال کا عمل اگر بالواسطہ میسر نہ ہو تو امید ہے کہ وسیلہ سے حاصل ہو جائے گا۔ نیز آپ نے لکھا تھا کہ دوام آگاہی سے کیا مراد ہے ۔ اکثر اوقات بعض کا روبار میں اس آگاہی سے دل کی غفلت محسوس ہوتی ہے۔ آگاہی اور دوام آگاہی کی تشخیص کرنی چاہئے ۔ واضح ہو کہ آگاہی حق تعالیٰ کی جناب پاک میں حضور باطن سے مراد ہے ۔ جس طرح کہ علم حضوری جس کو دوام لازم ہے۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کبھی کوئی شخص اپنے نفس سے غافل ہوا ہے یا اپنی نسبت اس کو غفلت و نسیان پیدا ہوا ہے۔ غفلت وذ ہول علم حصولی میں متصور ہے۔ جس میں مغائرت پائی جاتی ہے۔ علم حضوری میں سب حضور در حضور ہے ۔ اگر چہ نادان اور بیوقوفہ ، آدمی اس حضور سے دور اور نفور ہے اور اس کے حاصل ہونے سے مغرور ہے۔ آگاہی کے لیے دوام لازم ہے اور جس میں دوام نہیں وہ مطلوب کی نگرانی ہے۔ جو اس آگاہی مذکور کے مشابہ ہے۔ اس کا دوام مشکل ہے۔ کیونکہ علم حصولی کے ساتھ مشابہت رکھتی ہے۔ جو دوام سے بے نصیب ہے۔ وَلِلَّهِ المِثْل الاعلى ( مثال اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے ) حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کی نسبت علم حصولی اور علم حضوری کا اطلاق کرنا تشبیہ اور تنظیر کے طور پر ہے، کیونکہ وہ ذات پاک جو اپنے آپ سے زیادہ نزدیک ہے۔ علم حصولی اور علم حضوری کے احاطہ سے باہر ہے۔ ارباب معقول اگر چہ اس کو تصور نہیں کر سکتے اور اپنے سے زیادہ نزدیک کو نہیں پاسکتے لیکن علوم لدنی والوں کے نزدیک یہ بات واضح ہے اور حق تعالٰی کی عنایت سے آسانی کے ساتھ حاصل ہے ۔ رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَ هَتِي ءٍ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر) دوسرے یہ کہ سیادت پناه برادرم میر محمد نعمان آپ پر بہت حقوق رکھتے ہیں۔ آپ کے بے اجازت آنے سے دل آزردہ ہیں۔ آپ کو چاہئے

کہ بلا توقف ان کی خدمات میں حاضر ہو جائیں اور ان کی آزار کی تلافی کریں ۔ اگر آپ ان سے رخصت لے کر آتے تو کچھ مضائقہ نہ تھا۔ آپ کو مناسب ہے کہ ان کی مرضی کے موافق عمل کیا کریں اور رخصت سے آیا جایا کریں ۔ اس سے کیا زیادہ لکھا جائے ۔ والسلام

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا